شملہ معاہدے کو یاد کریں

دونوں ممالک کے درمیان پائیدار امن ضروری ہے تاکہ لوگ اپنی توانائیوں کو ایک بہتر مستقبل کے لیے صرف کر سکیں۔
دونوں ممالک کے درمیان پائیدار امن ضروری ہے تاکہ لوگ اپنی توانائیوں کو ایک بہتر مستقبل کے لیے صرف کر سکیں۔

یہ ایک چھوٹی سے ڈیسک ہے، خوبصورت، لیکن کافی چھوٹی۔ چالیس سال پہلے اس نے ان دو ہاتھوں کو خود پر محسوس کیا تھا، جنہوں نے 1972 کے شملہ معاہدے پر دستخط کیے۔ آج اس ڈیسک پر فریم ہوئی دو تصویریں موجود ہیں، ایک ہندوستانی اور پاکستانی وفد کی، اور دوسری ان کے لیڈروں مسز اندرا گاندھی اور مسٹر ذوالفقار علی بھٹو کی، جنہوں نے تین جولائی کو صبح سے تھوڑا پہلے اس معاہدے پر دستخط کیے۔

شملہ کے راج بھون میں موجود اس ڈیسک کو اس موقعے کی یادگار کے طور پر محفوظ کردیا گیا ہے، بالکل اسی طرح جس طرح شملہ معاہدہ بھی جموں و کشمیر کے معاملے پر پاکستان کی جانب ہندوستان کے رویے کی بنیاد بن چکا ہے۔

شملہ کی خوبصورت پہاڑیوں پر طے پانے والے اس معاہدے کے بعد 2 جولائی 1999 کا اعلانِ لاہور ہے، جس پر وزرائے اعظم اٹل بہاری واجپائی اور میاں نواز شریف کے دستخط ہیں۔ اس معاہدے میں اس بات کا عہد کیا گیا ہے کہ دونوں ممالک شملہ معاہدے پر اس کی مکمل روح کے مطابق عمل کریں گے۔ اس معاہدے کے مندرجات عوام میں لائے گئے، اس کی روح بے شکل و صورت ہی رہی، جبکہ اس کے معانی بھی باریکیوں میں تبدیل ہوگئے۔

اس پر دستخط کر کے اندرا گاندھی اور ذوالفقار بھٹو دونوں نے تسلیم کیا کہ لائن آف سیزفائر اب لائن آف کنٹرول میں تبدیل ہوچکی ہے، اور اس حلف نامہ کہ "دونوں ممالک اپنے اختلافات کو پرامن طور پر دوطرفہ مذاکرات کے ذریعے حل کریں گے"، میں کسی بھی طرح کوئی بھی تھرڈ پارٹی، خاص طور پر اقوامِ متحدہ شامل نہیں ہے۔

پی این دھر، جو کہ مسز اندرا گاندھی کے سیکریٹری تھے، کہتے ہیں کہ جب مسز گاندھی نے معاہدے کے تمام نکات کو گن کر بھٹو سے پوچھا کہ کیا یہی وہ معاہدہ ہے جس پر ہم آگے بڑھیں گے، تو انہوں نے کہا، 'جی بالکل، آپ مجھ پر بھروسہ رکھیں'۔

اس کے بعد آنے والی ہر ہندوستانی اور پاکستانی حکومت نے معاہدے کی اس شق کی تشریح اپنی مرضی کے مطابق کی ہے۔ اعلانِ لاہور بھی اس حوالے سے کچھ خاص مددگار ثابت نہیں ہوا ہے۔ اس کی شق 'دونوں ممالک اپنے تمام مسائل، بشمول مسئلہ جموں و کشمیر، سلجھانے کے لیے اپنی کوششیں تیز کریں گے' نے بھی کئی مختلف تشریحات کو جنم دیا ہے۔ کئی سیاسی ناقدین کا کہنا ہے کہ کراس بارڈر فائرنگ بھی یہی کرنے کے لیے ہے۔

تمام بین الاقوامی معاہدوں کا تقدس اس بات کا تقاضہ کرتا ہے، کہ ان معاہدوں پر عمل کرنے کے لیے مضبوط عزم موجود ہو، بھلے ہی قومی حکومتیں تبدیل ہوتی رہیں۔ کیونکہ نواز شریف اعلانِ لاہور کے دستخط کنندہ ہیں، اور اس کی وجہ سے شملہ معاہدے سے بھی منسلک ہیں، اس وجہ سے ہندوستانی حکومت اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ان کی حالیہ تقریر کو معاہدے سے متضاد قرار دیتی ہے۔

مشیرِ خارجہ سرتاج عزیز نے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون سے رابطہ کیا، اور انہیں ماہ و سال کی گرد میں دبی ہوئی اقوامِ متحدہ کی قرارداد 47/1948 منظرِ عام پر لانے کا مطالبہ کیا، جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ جموں و کشمیر میں ووٹ کے ذریعے معاملہ حل کیا جائے۔ حقیقت پسندوں کے نزدیک اس اپیل کے کامیاب ہونے کا امکان صرف اتنا ہی ہے، جتنا کہ ساؤتھ کوریا سے تعلق رکھنے والے بان کی مون دونوں کوریاؤں کو متحد کرانے میں کامیاب رہے ہیں۔

وزیر اعظم نواز شریف کے رویے میں یہ تبدیلی ان کے نئی دہلی میں وزیر اعظم نریندرا مودی کی تقریبِ حلف برداری کے بعد آئی ہے۔ اور اس تبدیلی کو ہندوستان میں بالکل کارگل طرز کے دھوکے کی طرح دیکھا جارہا ہے، جس سے پہلے گرمجوشی کا مظاہرہ کیا گیا تھا۔

پانچ مہینے گزر چکے ہیں، اور کافی کچھ تبدیل ہوچکا ہے۔ نواز شریف اپنے ملک میں مخالفین کی جانب سے استعفے کے مطالبوں میں دبے ہوئے ہیں، جبکہ دوسری جانب نریندرا مودی نے ریاستی انتخابات کے دوران ہریانہ اور مہاراشٹرا میں مضبوط مینڈیٹ حاصل کیا ہے۔

مہاراشٹرا میں بی جے پی نے 288 میں سے 122 سیٹیں حاصل کیں۔ یہ 2009 میں حاصل کی گئی سیٹوں سے 3 گنا زیادہ ہے۔ ہریانہ میں اسے 90 میں سے 47 سیٹیں حاصل ہوئیں، جو کہ 2009 کے مقابلے میں 10 گنا زیادہ ہے۔ اس کے باوجود نریندرا مودی تفاخر سے کام نہیں لے رہے۔ بھلے ہی ان کے پاس ایسا کرنے کے لیے اچھی وجوہات موجود ہیں، کیونکہ سونیا اور راہول گاندھی کی کانگریس دونوں ہی ریاستوں میں شکست کھا چکی ہے۔ مہاراشٹرا میں اسے 2009 میں 82 سیٹوں کے مقابلے میں اب صرف 42 ملی ہیں۔ اور اس کے لیے سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ ہندوستان کے معاشی مرکز ممبئی میں بی جے پی اکثریت میں ہے۔

ان نتائج کے بعد مضبوط ہوجانے سے بی جے پی امید کرسکتی ہے کہ اسے نظریاتی طور پر شیو سینا کی حمایت حاصل ہوگی، جس نے 63 سیٹیں حاصل کی ہیں، کانگریس سے 21 زیادہ۔ لیکن وہ شیو سینا سے زیادہ قریب نہیں ہیں۔

ڈپلومیٹک محاذ پر نریندرا مودی کے اگلے اقدامات پاکستان کے لیے انتہائی اہمیت کے حامل ہوں گے۔ ہندوستانی ٹی وی چینلوں پر انتہاپسندوں کو یہ مطالبہ کرتے دیکھا گیا ہے کہ نریندرا مودی کو بلوچستان اور سندھ کے 'مظلوم' لوگوں کی مدد کرنی چاہیے، اور انہیں ان کے ظالم آقاؤں سے بچانا چاہیے۔ جنرل مشرف کو ایک اور تند و تیز ٹی وی اینکر نے بزدل قرار دیا، کیونکہ انہوں نے کارگل کے متعلق جواب دینے سے انکار کیا۔ اور سب سے خوفناک یہ کہ جو آوازیں کبھی پاکستان کی حامی اور اعتدال پسند کہلاتی تھیں، وہ اب ہندوستان مخالف کہلانے لگی ہیں۔

اس وقت تو فضا میں 1971 والے جنون کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ حساس اور دانشمند لوگوں کا کہنا ہے کہ شملہ معاہدے اور اعلانِ لاہور کو یاد کیا جائے، کیونکہ ان دونوں ہی میں پائیدار امن اور ترقی کی بات کی گئی ہے، تاکہ دونوں ممالک کے لوگ اپنی توانائیوں کو ایک بہتر مستقبل کے لیے صرف کر سکیں۔

انگلش میں پڑھیں۔


لکھاری آرٹ کے مؤرخ اور مصنف ہیں۔

www.fsaijazuddin.pk

یہ مضمون ڈان اخبار میں 23 اکتوبر 2014 کو شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں