تھر: موت بھرا پانی

تھر کے علاقے چھاچھرو میں پانی کا ایک تالا بند اسٹوریج — فوٹو یوسف ناگوری
تھر کے علاقے چھاچھرو میں پانی کا ایک تالا بند اسٹوریج — فوٹو یوسف ناگوری

ہر روز علی اکبر اور ان کی ٹیم ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں سفر کرتے ہیں، تاکہ دیکھا جاسکے کہ لوگ تھر کے دور دراز علاقے میں کس طرح گزر بسر کر رہے ہیں۔ ان کا مقصد اس صحرا میں پھیلے ہوئے لاتعداد دیہاتوں میں پینے کا صاف پانی پہنچانا ہے۔

ان کا پہلا اسٹاپ سموں رند گاؤں ہے۔ روز مرہ کی ضروریات کے لیے گاؤں والوں کو زیرِزمین پانی پر گزارہ کرنا پڑتا ہے، جس میں فلورائیڈ بڑی مقدار میں موجود ہے، اور یہ انسانی استعمال کے قابل نہیں۔ نتیجتاً یہاں کے لوگوں میں بیماریاں عام ہیں۔

علی اکبر اپنے ساتھ ایک ڈاکٹر کو بھی لائے تھے، تاکہ گاؤں والوں کو مختلف بیماریوں سے نمٹنے کی تعلیم دی جاسکے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم لوگوں کو صاف پانی کے استعمال پر مختلف طریقوں سے قائل کرتے ہیں۔ ڈاکٹر کو بلانا لوگوں کو اس بات پر قائل کرنے کا ایک طریقہ ہے کہ ان کی بیماریوں کی وجہ پانی ہے۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق پانی کی آلودگی 1200 مکمل حل شدہ سولڈز سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔ لیکن تھر میں آلودگی کی یہ سطح 4000 سے بھی زیادہ ہے۔ یہ مقدار ہلاکت کا سبب بن سکتی ہے۔

ہر مریض کو ایک الگ طرح کی بیماری لاحق ہے۔ کچھ دیہاتیوں کے دانت نہیں ہیں، تو کچھ کے ساتھ گردے کے مسائل ہیں، کچھ معذور ہیں، تو کچھ کو اپنی ٹانگیں اور بازو بھی کٹوانے پڑے ہیں۔

علی اکبر کا اگلا اسٹاپ ماؤ اخیرج گاؤں ہے، جہاں کے رہنے والے عقائد، ذات پات، اور طبقے کی بنیادوں پر تقسیم ہیں۔ کیونکہ یہ ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنا پسند نہیں کرتے، اس لیے ان کا کام اور بھی مشکل ہوجاتا ہے۔ یہاں گاؤں والوں کا ماننا ہے کہ ان کی صحت طبی وجوہات کے بجائے غیرفطری وجوہات کی بنا پر خراب ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ ان پر عذاب موجود ہے، جو کہ دعاؤں سے ٹھیک ہوسکتا ہے۔

علی اکبر جانتے ہیں کہ اس بے بنیاد خیال کو ختم کرنے کے لیے بہت وقت درکار ہے۔ اس دفعہ وہ اپنے ساتھ ڈاکٹر کے بجائے سموں رند سے ایک دیہاتی کو لے کر آتے ہیں۔

'میرے ساتھ جیئندو خان موجود ہیں، جن کا تعلق سموں رند سے ہے۔ یہ بالکل آپ کی طرح بیمار ہیں۔ اب یہ آپ کو اپنی بیماری کے بارے میں بتائیں گے، اور ان مختلف علاجوں کے بارے میں بتائیں گے جن سے انہیں گزرنا پڑا ہے'۔

جیئندو آگے بڑھتے ہیں، اور اپنی کہانی شروع کرتے ہیں۔

'میں 25 یا 26 سال کا ہوں۔ سب سے پہلے میں نے اپنے گھٹنوں، اور پھر ایک انگلی میں تکلیف محسوس کی۔ اس کے بعد درد میرے تمام جوڑوں میں پھیل گیا۔ بھلے ہی میں تمباکو اور پان نہیں چباتا، پھر بھی میرے سارے دانت سڑ چکے ہیں۔ یہ پوری صورتحال اس پانی کی وجہ سے ہے، جو ہم استعمال کرتے ہیں'۔ ان کی بات پر سننے والے سر ہلاتے ہیں۔ 'ہمارے گاؤں میں ایک فلٹریشن پمپ لگایا گیا، اور صرف دو سے تین ماہ فلٹر شدہ پانی کے استعمال کے بعد میرے ہاتھوں میں سے درد ختم ہوچکا ہے۔ یہ پمپ پانی میں سے آلودگی کو دور کرتا ہے۔'

گاؤں والے جیئندو اور علی اکبر پر سوالات کی بارش کردیتے ہیں، جن کا وہ دونوں تحمل سے جواب دیتے ہیں۔ انہیں امید ہے کہ اس سیشن نے مقامی لوگوں کو فلٹریشن پمپ کی تنصیب پر آمادہ کردیا ہے۔ وقت ایک ایسی قیمتی چیز ہے، جو ان کے پاس نہیں ہے کیونکہ اگر فلٹر پمپ نہیں لگایا گیا، تو معذوری کا سامنا کر رہے لوگ جلد ہی موت کے منہ میں چلے جائیں گے۔

علی اکبر اسی صحرا میں پیدا ہوئے اور پلے بڑھے ہیں۔ ان کی سب سے اولین یادداشت ان کی دادی اور والدہ کو قریبی کنویں سے پانی کے مٹکے بھرتے دیکھنا ہے۔

'ہر کچھ سالوں بعد قحط سالی کی وجہ سے لوگوں کو دوسری جگہوں پر نقل مکانی کرنی پڑتی تھی۔ اس وقت گاڑیاں موجود نہیں ہوتی تھیں، جبکہ رابطہ قائم کرنا بھی مشکل تھا۔ وہ لوگ جو غریب ہوتے تھے اور زیادہ سامان اور جانور نہیں رکھتے تھے، انہیں مشکلات پیش آتی تھیں۔ وہ اپنا گھر بار چھوڑ کر بیراج کے نزدیک کسی جگہ پر رہائش اختیار کرلیتے تھے۔'

2003 میں علی اکبر نے اس بات کو سمجھنا شروع کیا، کہ ان کے علاقے میں پانی کھارا اور ناقابلِ استعمال تھا۔ 'میں اکثر دیکھتا تھا کہ پرندے پانی پینے کے بعد مر جاتے ہیں، اور تب ہی میں نے سوچا کہ اس بارے میں کچھ کیا جانا چاہیے۔'

انہوں نے اپنے ساتھ دوستوں کا ایک گروپ بنایا اور ان کے ساتھ اس مسئلے پر بات کی۔ آپس میں مل کر انہوں نے AWARE نام سے ایک آرگنائزیشن کی بنیاد ڈالی۔ اس آرگنائزیشن کے مقاصد میں پانی اور توانائی ہیں، لیکن شروع میں انہوں نے پانی کے مسائل پر توجہ دی۔

'سب سے پہلے تو ہم نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ مسئلہ کتنا شدید ہے، پانی کہاں کھارا ہے، کتنا کھارا ہے، اس میں کون سی نمکیات شامل ہوسکتی ہیں، اور ان نمکیات کا انسانوں اور جانوروں کی صحت پر کیا اثر ہوسکتا ہے۔'

یہی وہ موقع تھا جب انہیں اصل مجرم فلورائیڈ کا پتہ چلا۔ فلورائیڈ بے رنگ، بے ذائقہ، بے بو ہوتا ہے، اور اسی لیے جب بھی علی اکبر گاؤں والوں سے پانی کے بارے میں پوچھتے، تو ان کا جواب ہوتا کہ پانی صاف ہے، کیونکہ یہ کھارا نہیں ہے۔

'مسئلہ یہ ہے کہ بھلے ہی پانی کھارا نہ ہو، لیکن یہ پھر بھی انسانی صحت کے لیے نقصاندہ ہے۔ لوگوں کے دانت، ہڈیاں، اور اعصابی نظام اس سے بری طرح متاثر ہوا ہے۔'

نومبر کی ایک سرد شام علی اکبر نے نوجوان طلبا سے بات کرتے ہوئے انہیں اپنے مسائل کے بارے میں لکھنے پر حوصلہ افزائی کی۔ 'میں آپ سب کو پوسٹ کارڈز دوں گا، جن پر مختلف تنظیموں کے پتے لکھے ہوئے ہیں۔ آپ ان پر اپنے مسائل لکھیں، اور ہم ان تنظیموں کو یہ پوسٹ کارڈز بھیج دیں گے تاکہ آپ کے مسائل ان تک پہنچ جائیں۔ جب ہم یہ کر لیں گے، تو تھر سے باہر لوگوں کو معلوم ہوگا کہ آپ لوگ کن حالات میں جی رہے ہیں۔'

انگلش میں پڑھیں۔


یہ مضمون ڈان اخبار کے سنڈے میگزین میں 7 دسمبر 2014 کو شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں