ہم کہ ٹھہرے اجنبی ...

اپ ڈیٹ 16 دسمبر 2014
— AP/Press Association Images
— AP/Press Association Images

”ہم مطالبہ کرتے ہیں، ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ جغرافیائی طور پر قریب علاقوں کو ملا کر آزاد ریاستیں تشکیل دی جائیں اور وہ ریاستیں ان علاقوں پر مشتمل ہوں جہاں مسلمان تعداد میں زیادہ ہیں، جیسے کہ ہندوستان کا شمال مغربی اور مشرقی علاقہ، اور ان علاقوں کو ملا کر آزاد خود مختار مسلمان ریاستیں تشکیل دی جائیں جن میں صوبے آئینی طور پر خود مختار اور آزاد ہوں۔“

23 مارچ 1940 ء کو مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں شیرِ بنگال مولوی فضل الحق نے یہ قرارداد پیش کی، جسے تاریخ میں قراردادِ لاہور کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

مولوی فضل الحق کو اس اجلاس سے کچھ سال قبل بنگال میں انتخابی نشستوں کے لیے بنائے جانے والے پارلیمانی بورڈ سے نکالا جا چکا تھا اور 1941 میں انہوں نے نظریاتی اختلاف کی بدولت مسلم لیگ سے استعفیٰ دے دیا۔

قرارداد لاہور میں ایک سے زائد ریاستوں کا ذکر موجود تھا اور مسلم لیگ کے کاغذات میں 1947 تک دو علیحدہ ریاستوں کا مطالبہ موجود تھا۔

اپریل 1946 میں مسلم لیگ کا کنونشن دہلی میں منعقد ہوا، جہاں شمال مشرقی ہندوستان اور مشرقی بنگال کو ایک ملک بنانے کی قرارداد پر غور کیا گیا۔ اس مسئلے پر بنگالی رہنماؤں میں اختلاف پیدا ہوا، جس کے نتیجے میں خواجہ ناظم الدین نے بہ امر مجبوری ایک ملک کی حمایت کی۔ دوسری جانب ابوالہاشم نے اس عمل کو قرارداد لاہور کی نفی قرار دیا۔

جناح صاحب نے پہلے پہل یہ موقف اختیار کیا کہ قرارداد لاہور کے ڈرافٹ میں ٹائپنگ کی غلطی کی وجہ سے ’ریاست‘ اور ’ریاستوں‘ کی غلط فہمی پیدا ہوئی ہے۔

جب قرارداد کا اصل مسودہ منگوایا گیا تو اس میں ایسی کوئی غلطی موجود نہیں تھی، لہٰذا جناح صاحب نے بنگالی رہنماؤں کو تسلی دی اور کہا کہ پاکستان بننے کے بعد قانون ساز اسمبلی کو یہ اختیار دیا جائے گا کہ قرارداد لاہور پر حتمی فیصلہ کیا جائے۔

تقسیمِ ہند کے موقع پر بنگال کو مشرقی اور مغربی حصوں میں تقسیم کیے جانا تھا۔ بنگالی رہنماؤں نے اس تقسیم کی شدید مخالفت کی اور اس عمل کے خلاف ہر ممکن کوشش کی۔

اس سلسلے میں ایک تجویز مشرقی اور مغربی بنگال کو علیحدہ ریاست بنانے کی تھی لیکن کانگرسی رہنماؤں نے اس سے اختلاف ظاہر کیا۔ ابوالہاشم نے ایک بیان میں کہا کہ قرارداد لاہور ایک اکھنڈ مسلمان ریاست قائم کرنے کا منصوبہ نہیں تھا۔

حسین شہید سہروردی کے مطابق قرارداد لاہور میں آزاد اور خود مختار ریاستوں کے قیام کا مطالبہ موجود تھا، اور اس لیے بنگال کو آزاد ریاست بننے کا حق موجود ہے۔

پاکستان کے قیام پر خواجہ ناظم الدین کو مشرقی پاکستان کا وزیر اعلیٰ مقرر کیا گیا جبکہ سہروردی کو قانون ساز اسمبلی سے بے دخل کر دیا گیا۔

”ہم یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ پاکستان کو ریاست ہائے متحدہ پاکستان بنایا جائے جس میں مشرقی اور مغربی حصے موجود ہوں اور پارلیمنٹ کے ارکان دونوں حصوں میں منصفانہ تقسیم کی بنا پر منتخب کیے جائیں۔ اس ریاست میں دفاع اور امورِ خارجہ کے علاوہ وفاق کے پاس کوئی اور اختیارات موجود نہ ہوں۔ دفاعی میدان میں مشرقی اور مغربی حصوں کے لیے مختص فوج کو مشرقی اور مغربی کمانڈ میں ایک سپریم کمانڈر کے تحت تقسیم کیا جائے جبکہ فوج میں بھرتی ہونے والے افراد کا تعلق انہی حصوں سے ہو جہاں انہیں تعینات کیا جائے۔ وفاقی حکومت صرف مخصوص اشیاء پر ٹیکس نافذ کرے اور کوئی بھی نیا ٹیکس نافذ کرنے سے پہلے صوبوں سے مشاورت کی جائے۔“

قراردادِ لاہور کی منظوری کے دس سال بعد نومبر 1950 میں ڈھاکہ کے مقام پر ایک کنونشن طلب کیا گیا جس میں مشرقی پاکستان سے چوٹی کے سیاستدان، طلبہ اور دانشور اکٹھے ہوئے۔ اس اجلاس میں مندرجہ بالا قرارداد منظور کی گئی، اور بعدازاں ان مطالبات کو اکیّس نکات کی شکل میں جگتو فرنٹ نامی سیاسی اتحاد نے اپنے انتخابی نصب العین کا حصہ بنایا۔

پاکستان بنانے میں بنگالی عوام کے ہمراہ یوپی کے قدامت پسند جاگیر دار طبقے اور پنجابی یونینسٹ شامل تھے۔ نئے وطن کے قیام کے بعد جب شناخت کا مسئلہ اٹھا تو اردو، بھارت دشمنی اور مذہب کی تین پہیوں والی سائیکل سامنے لائی گئی۔

زبان کے معاملے پر بنگالی درمیانہ طبقہ اور طلبہ وفاقی حکومت یا کسی سیاسی رہنما کی کوئی بھی بات سننے پر رضامند نہ تھے، حتیٰ کہ جناح صاحب کو بھی ڈھاکہ یونیورسٹی میں مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔

بھارت دشمنی مغربی پاکستان کے لیے کسی حد تک سود مند ثابت ہو سکتی تھی لیکن مشرقی بنگال کا مغربی بنگال سے صدیوں پرانا تجارتی اور ثقافتی بندھن نقشے پر کھینچی گئی آڑھی ترچھی لکیروں کی مدد سے توڑنا ممکن نہ تھا۔

قراردادِ لاہور کی منظوری دینے والے جب قانون ساز اسمبلی میں بجٹ اجلاس کے بہانے قراردادِ مقاصد لے آئے تو سب سے زیادہ مزاحمت مشرقی پاکستان سے منتخب شدہ ارکانِ اسمبلی کی جانب سے دکھائی گئی۔

آئین کی تشکیل کے دوران بنگالی سیاست دانوں نے وفاق کے غیر جمہوری اقدامات کی بھرپور مخالفت کی اور کئی سال کی کشمکش کے بعد 1956 میں پہلا پاکستانی آئین منظور کر لیا گیا۔

اس دوران بنگالی کو قومی زبان کا درجہ دیا گیا اور مغربی پاکستان کے صوبوں کو ملا کر ون یونٹ بنا دیا گیا اور مشترکہ مقننہ (Joint Electorate) کا نظام اپنایا گیا۔

لیکن معاشی میدان میں مغربی پاکستان کے ساتھ سوتیلوں والا سلوک جاری رہا۔ محصولات کی تقسیم، پٹ سن کی پیداوار اور غیر ملکی زرِ مبادلہ کے علاوہ ترقیاتی منصوبوں کے ضمن میں مشرقی پاکستان گھاٹے میں رہا۔

نئے آئین کے تحت انتخابات جنوری 1959ء میں منعقد کرانے کا فیصلہ کیا گیا، اور ان انتخابات میں مشرقی پاکستان سے صوبائی خود مختاری کی علم بردار جماعت، عوامی لیگ کے کامیاب ہونے کی امید رکھی جاتی تھی۔

اکتوبر 1958 میں صدر اسکندر مرزا نے آئین کو برخاست کرتے ہوئے مارشل لاء کا نقارہ بلند کیا۔ بیس روز بعد جنرل ایوب خان نے اسکندر مرزا کو بوریا بستر لپیٹنے کا حکم دیا اور ملک کی باگ ڈور سنبھال لی۔ مشرق اور مغرب کے بیچ اتفاق سے منظور کیا جانے والا واحد آئین تاریخ کے کوڑے دان کی نظر کر دیا گیا۔

ایوب خان نے سیاست دانوں کو ایک نئے قانون کے تحت نااہل قرار دینے کا عمل شروع کیا۔ نااہل قرار دیے جانے والے چھ ہزار سیاسی ارکان میں آدھے سے زیادہ افراد مشرقی پاکستان سے تعلق رکھتے تھے۔

ایوب دور کے دوران مشرقی پاکستان میں وفاق سے بے اعتنائی بڑھی جس کی بے شمار وجوہات میں سے ایک وجہ دارالحکومت کا کراچی سے اسلام آباد منتقل کیے جانا تھا۔

ایوب خان نے 1965 کے آغاز میں صدارتی انتخابات منعقد کروائے اور محترمہ فاطمہ جناح کو شکست دی۔ مشرقی پاکستان اور کراچی سے فاطمہ جناح کو ایوب خان سے زیادہ ووٹ ملے۔

ستمبر 1965 میں شروع ہونے والی پاک بھارت جنگ کا مرکز مغربی محاذ ہی رہا جبکہ مشرقی پاکستان کی حفاظت کے لیے صرف مٹھی بھر فوج موجود تھی۔ جنگ کے بعد طے پانے والے تاشقند معاہدے کے خلاف مغربی پاکستان میں جذبات گرم تھے (جن کا بھرپور فائدہ بھٹو صاحب نے اٹھایا) لیکن مشرقی حصے میں پاک بھارت مفاہمت کی بھرپور حمایت کی گئی۔

ایوب خان کے خلاف احتجاجی مہم 1967 میں شروع ہو چکی تھی اور جگتو فرنٹ کے اکیّس نکات کی جگہ اب شیخ مجیب الرحمان کے چھ نکات کا دور دورہ تھا۔

1963 میں حسین شہید سہروردی کی وفات کے بعد بحیثیت سٹوڈنٹ رہنما مقبولیت پانے والے شیخ مجیب الرحمان نے بنگالی سیاست میں نمایاں جگہ حاصل کی۔ سہروردی صاحب ایک سیاست دان تھے جبکہ مجیب الرحمان ہمیشہ سٹوڈنٹ رہنما کا ہی روپ دھارے رہے۔

سیاست دان مذاکرات اور مطالبات کے توازن کو سمجھتا ہے جبکہ سٹوڈنٹ رہنما جلاؤ گھیراؤ کے گھن چکر سے ہی نہیں نکلتا۔ چھہ نکات میں مطالبہ کیا گیا کہ؛

  1. آئینی طور پر وفاق کو قراردادِ لاہور کے مطابق ڈھالا جائے۔

  2. وفاقی حکومت صرف دفاع اور خارجہ امور سے سروکار رکھے۔

  3. ملک کے دونوں حصوں میں مختلف کرنسی جاری کی جائے۔

  4. ٹیکس صوبائی حکومتیں اکٹھا کریں اور وفاق کا اس میں عمل دخل نہ ہو۔

  5. غیر ملکی زرِ مبادلہ کو دونوں حصوں میں برابری کی بنیاد پر بانٹا جائے۔

  6. مشرقی پاکستان کو اپنی علیحدہ فوج بھرتی کرنے کا اختیار دیا جائے۔

مارچ 1969ء میں ایوب خان سے اسکندر مرزا والا سین دہراتے ہوئے زبردستی استعفیٰ لیا گیا اور یحییٰ خان کی شکل میں شیشوں کا ایک نیا مسیحا نمودار ہوا۔ یحییٰ خان نے ایک موقع پر اعتراف کیا کہ؛

’میں نے کبھی حکومت چلانے کے اسرارورموز سیکھنے پر غور نہیں کیا۔ میں نے کئی سال فوج میں شامل لاکھوں افراد کے معاملات احسن انداز میں نبٹائے تھے اور میرے خیال میں ملک چلانا، فوج چلانے سے زیادہ مشکل کام نہیں۔‘

ملک کے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور صدر کی حیثیت سے یحییٰ خان نے ایک نئے قانونی ڈھانچے (LFO) کی تشکیل کا اعلان کیا اور اس انتظام کے تحت 1970 میں قومی اسمبلی کے انتخابات منعقد کروانے کا فیصلہ کیا۔

مشرقی حصے میں عوامی لیگ نے چھ نکات کی بنیاد پر انتخابی مہم چلائی جبکہ مغربی حصے میں پیپلز پارٹی نے ’روٹی، کپڑا اور مکان‘ کو اپنا انتخابی نعرہ بنایا۔

بنگال میں بائیں بازو کی جماعتوں نے انتخابی سرگرمیوں کی آڑ میں بنگالی قومیت کو ہوا دی۔ نومبر 1970 میں بھولا نامی سمندری طوفان نے مشرقی پاکستان کے ساحلی علاقوں میں تباہی مچائی جس کے نتیجے میں پانچ لاکھ سے زائد افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ مقامی حکومت اور وفاق کی جانب سے امدادی سرگرمیوں میں سستی دکھائی گئی اور غیر ملکی اداروں نے ان تھک محنت کرتے ہوئے سینکڑوں جانیں بچائیں۔

انتخابات میں عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان کی ایک سو باسٹھ (162) میں سے ایک سو ساٹھ نشستوں پر کامیابی حاصل کی جبکہ مغربی پاکستان میں پیپلز پارٹی نے پنجاب اور سندھ میں برتری حاصل کی۔

جمہوری روایات کا تقاضا تو یہ تھا کہ عوامی لیگ کو عددی برتری کی بنیاد پر حکومت بنانے کی دعوت دی جاتی لیکن اس موقع پر فوجی حکومت اور پیپلز پارٹی کی جانب سے مزاحمت دکھائی گئی۔

جمہوریت کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ انتخاب میں کامیاب ہونے والی جماعتوں کے نقطہ ہائے نظر کی روشنی میں اپنی پالیسی ترتیب دی جائے۔ عوامی لیگ کی قیادت اپنی عددی برتری کے زعم میں دیگر جماعتوں کو مناسب اہمیت دینے پر رضامند نہ تھی۔

اس موقع پر یحییٰ خان کی فوجی حکومت نے سیاسی کم فہمی کا مظاہرہ کیا اور آمرِ پاکستان کبھی شیخ مجیب تو کبھی ذوالفقار علی بھٹو کی خواہشات پر عمل کرتے۔

عوامی لیگ نے یحییٰ خان کو انتخابی مہم کے دوران تسلی دی تھی کہ چھ نکات کو صرف ووٹ حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے، لیکن انتخاب کے بعد اسی عوامی لیگ نے ملک کا نیا آئین چھ نکات کی روشنی میں بنانے کی ضد پکڑ لی۔

بھٹو صاحب نے ایک موقع پر اپنی جماعت کے کامیاب ارکان سے استعفے طلب کر لیے اور ان کو اسمبلی کے اجلاس میں شمولیت سے منع کر دیا۔ لاہور میں تقریر کرتے ہوئے بھٹو صاحب نے ڈھاکہ جانے والوں کی ٹانگیں توڑنے کا اعلان کیا۔

یحییٰ خان نے جواب میں کہا کہ جب ٹانگیں ٹوٹ جائیں تو مجھے مطلع کرنا، میں کوئی بندوبست کر دوں گا۔

یحییٰ خان اور عوامی لیگ قیادت کے مابین مذاکرات فروری اور مارچ 1971 میں جاری رہے۔ حکومت کوئی بھی نیا آئین منظور ہونے سے قبل مارشل لاء ہٹانے کے حق میں نہیں تھی اور عوامی لیگ کے قائدین چھ نکات اور مارشل لاء کے خاتمے کی شرط سے دست بردار ہونے کو رضامند نہ تھے۔

مذکرات کے دوران عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش کہنا شروع کردیا تھا اور ایک موقع پر عوامی لیگ کے ایک رہنما ڈھاکہ کے صدر ہاؤس میں مذاکرات کے لیے جس گاڑی پر آئے، اس پر بنگلہ دیش کا جھنڈا لہرا رہا تھا۔

25 مارچ کی رات Operation Searchlight شروع کر دیا گیا جس کے نتیجے میں عوامی لیگ کی قیادت اور اس کے ارکان کی گرفتاریاں شروع کی گئیں۔ اس کے علاوہ بنگال میں تعینات پولیس دستوں اور بنگالی فوجی یونٹوں سے اسلحہ واپس لینے کی مہم شروع ہوئی۔

اگلے ہی روز چٹاگانگ ریڈیو کے ذریعے آزاد بنگلہ دیش کے قیام کا اعلان کر دیا گیا۔ دسمبر میں پاکستان فوج نے باقاعدہ ہتھیار ڈال دیے اور بنگلہ دیش ایک علیحدہ مملکت کی شکل میں ظہور پذیر ہوا۔

باقی ماندہ پاکستان میں صوبائی حقوق کی جنگ کبھی بلوچستان تو کبھی سندھ میں جاری رہی (اور اب تک جاری ہے)۔ قیام پاکستان کے تریسٹھ اور قیام بنگلہ دیش کے انتالیس برس بعد 2010 میں آئین کی اٹھارہویں ترمیم منظور کی گئی۔

اس آئینی ترمیم میں کسی حد تک صوبائی خود مختاری دی گئی اور وفاق کے اختیارات میں کمی گئی۔ اس ترمیم کے اثرات عوام اور صوبائی حکومتوں تک مکمل طور پر پہنچنے میں کچھ دیر لگے گی لیکن ہر سال دسمبر میں ہم یہ سوچتے ہیں کہ ایسی کوئی ترمیم پچاس برس پہلے کیوں منظور نہ ہو سکی؟

فیض صاحب نے لندن میں قیام کے دوران ’ہم کہ ٹھہرے اجنبی‘ غزل سنائی تو وہاں موجود بنگلہ دیش کے ایک اعلیٰ عہدے دار نے تبصرہ کیا کہ ‘خون کے دھبے برساتوں سے نہیں دھلا کرتے۔‘

حوالہ جات:

  1. The Separation of East Pakistan. by Hassan Zaheer

  2. Sukhan dar Sukhan, by Sibte Hasan

  3. Main ne Dhaka Doobte Dekha, by Siddique Salik

تبصرے (0) بند ہیں