پراسرار بہنیں: جون اور جینیفر گبنز

اپ ڈیٹ 10 فروری 2015
جون اور جینیفر گبنز — فوٹو modernnotion.com
جون اور جینیفر گبنز — فوٹو modernnotion.com

بچے کسے اچھے نہیں لگتے۔ ان کی پیاری اور معصومانہ حرکتیں سخت سے سخت دل کو بھی نرم کردیتی ہیں۔ بعض لوگ صرف اس لیے بچوں کے گزارنا پسند کرتے ہیں کیونکہ ان کی بھولی بھالی صورت اور باتیں انہیں زندگی کی کڑواہٹیں وقتی طور پر بھلا دینے میں مدد دیتی ہیں۔ اور اگر بچے جڑواں ہوں تو لوگوں کی دلچسپی بھی دوگنی ہوجاتی ہے۔

عام طور پر جڑواں بچوں کے ساتھ ایک پراسراریت سی محسوس کی جاتی ہے جس کی بنا پر ایسے بچے لوگوں کی توجہ کا مرکز زیادہ بنتے ہیں۔ یہ ایسی ہی دو بہنوں کی کہانی ہے جنہیں ایک زمانے میں The Silent Twins یعنی "خاموش جڑواں بہنوں" کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔

جون اور جینیفر گبنز کا جنم یمن کے دارلحکومت عدن کے ایک ہسپتال میں سنہ انیس سو تریسٹھ میں ہوا۔ بچیوں کی پیدائش کے کچھ عرصہ بعد ان کے والدین انگلینڈ ہجرت کرگۓ۔ اپنی بقیہ زندگی دونوں بہنوں نے انگلینڈ میں ہی گزاری۔

جون اور جینیفر گبنز صرف نام کی ہی جڑواں نہیں تھیں بلکہ ان دونوں کا وجود ایک دوسرے کے لیے نا گزیر تھا۔ دونوں بچپن ہی سے کم گو تھیں اور صرف ایک دوسرے کی ہی صحبت میں وقت گزارنا پسند کرتیں۔ دیگر بچے ان کی خاموش فطرت اور واحد سیاہ فام ہونے کی بنا پر اسکول میں ان کا مذاق اڑاتے۔ اسکول کے اس ماحول نے انہیں ایک دوسرے سے مزید قریب تو کیا لیکن ساتھ ہی عام لوگوں سے بیزار بھی کر دیا۔ اب حد یہ ہوگئی کہ دونوں ایک کمرے میں اپنے والدین اور چھوٹی بہن کے ساتھ بیٹھنا بھی پسند نا کرتیں۔

گیارہ سالہ جون اور جینیفر نے اپنی ایک الگ ہی دنیا بسا لی تھی جس کا محور بس ان دونوں کی ذات تھی۔ اس دنیا سے باہر لوگوں سے رابطہ انہوں نے بالکل ہی ختم کردیا البتہ آپس میں گفتگو کے لیے ایک نئی بولی تخلیق کرلی۔ (ایسی بولی کو idioglossia کہا جاتا ہے، یہ ایک ایسا طریقہ گفتگو ہے جو اکثر جڑواں بچوں یا انتہائی قریبی دوستوں کے بیچ استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ بولی کچھ ایسی ہی ہے جیسی کسی زمانے میں ہمارے یہاں ٹین ایجرز کے بیچ "ف" کی بولی رائج تھی)۔ دونوں کے کھیل بھی نرالی طرز کے ہوتے تھے جیسے صبح سب سے پہلے کون اٹھے گا یا کون پہلے سانس لے گا۔

بچیوں کے والدین اس حوالے سے خاصے فکرمند تھے لیکن کچھ کرنے سے قاصر تھے۔ مختلف تھراپسٹ انہیں لوگوں سے بات چیت پر قائل کرنے کی کوشش کرتے رہے مگرنتیجہ لاحاصل رہا۔ باالآخر دونوں کو ایسٹ گیٹ نامی خصوصی تعلیم کے سینٹر بھیج دیا گیا جہاں انہوں نے دو سال گزارے۔

دو سال بعد گھر واپس آ کر دونوں نے خود کو اپنے بیڈروم میں محدود کر لیا۔ لیکن یہ خود ساختہ قید نہ تھی۔ یہاں انہوں نے اپنی ایک خیالی و تخلیقی دنیا بس لی۔ دونوں زرخیز ذہن کی مالک تھیں اور اس کا استعمال بھی اچھی طرح جانتی تھیں۔ انہوں نے ڈائری لکھنا شروع کردی جو آہستہ آہستہ کہانیوں، نظموں اور ڈراموں میں تبدیل ہوگئیں۔ ان دونوں نے کئی ناول بھی لکھے جن کے کردار زیادہ تر مجرمانہ ذہنیت کے حامل ہوتے۔ شاید وہ اپنی ذات کے تاریک پہلوؤں کو الفاظ کا لبادہ پہنانا چاہتی تھیں۔

اچنبھے کی بات ہے کہ دونوں کا وجود ایک دوسرے کے لیے جتنا ناگزیر تھا اتنا ہی وہ ایک دوسرے سے نفرت بھی کرتی تھیں اور اس بات کا اندازہ جون گبنز کے ان الفاظ سے لگا لیں:

"آج تک کوئی اس اذیت سے نہیں گزرا ہوگا جس سے میں گزر رہی ہوں۔ کم از کم ایک بہن کے ہاتھوں نہیں۔ ہاں شوہر یا بیوی یا اولاد کے ہاتھوں۔ لیکن میری یہ بہن ایک ایسا تاریک سایہ ہے جس نے مجھے سورج کی روشنی سے محروم کردیا ہے۔"

اس میں کوئی شک نہیں کہ دونوں کی حیثیت ایک دوسرے کے سائے جیسی تھی۔ باہر کی دنیا کا سامنا کرنے کے لیے انہیں اس بندھن کی ضرورت تھی لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا ان کے بیچ مقابلے کا رجحان بھی بڑھتا چلا گیا۔

یہ احساس اس وقت شدّت اختیار کر گیا جب دونوں بہنوں کی زندگی میں محبّت، تازہ ہوا کے جھونکے کی مانند داخل ہوئی۔ صد افسوس کہ دونوں نے ایک ہی لڑکے میں دلچسپی لینا شروع کی۔ نوخیز جوانی کی اس محبّت کو کوئی خاص منزل تو نہ مل سکی لیکن جون اور جینیفر کو ایک دوسرے کے خون کا پیاسا ضرور بنا گئی۔

کہہ سکتے ہیں کہ اب یہ بندھن ایک نفسیاتی مسئلہ بنتا جا رہا تھا۔ ان کے اندر موجود تاریک پہلو آہستہ آہستہ حاوی ہو رہا تھا۔ ان دونوں نے شراب اور نشہ آور اشیاء کا استعمال بھاری مقدار میں شروع کر دیا اور ساتھ ہی چھوٹے موٹے جرائم میں بھی ملوث ہوگئیں۔ ایسے ہی ایک جرم کی پاداش میں انہیں ذہنی امراض کے ہسپتال بروڈمور بھیج دیا گیا۔ انہوں نے اس ہسپتال میں چودہ سال گزارے۔

جون اور جینیفر کی کہانی شاید کبھی منظر عام پر نہ آتی اگر سنڈے ٹائمز کی ایک جرنلسٹ مارجوری والس ان بہنوں میں دلچسپی نہ لیتی۔ مارجوری نے جب یہ سنا کہ دو کم عمر لڑکیوں کو مجرمانہ حد تک پاگل افراد کے لیے مخصوص ہسپتال بھیج دیا گیا ہے تو وہ اس معاملے کی تحقیقات کیے بغیر نہ رہ سکیں۔

مارجوری نے دیکھا کہ دونوں بہنوں کو سکون آور ادویات کی بھاری مقدار کے زیرِ اثر رکھا گیا ہے جس کی وجہ سے ان کی تخلیقی صلاحیت بری طرح متاثر ہوئی ہیں۔ بہرحال تھوڑی کوشش کے بعد مارجوری ان بہنوں کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئیں۔ وہ اکثر ان سے ملنے جاتیں اور ان کے ساتھ وقت گزارتیں۔ یوں کہہ لیں کہ گبنز گرلز کو ایک اور دوست مل گئی۔ انہوں نے مارجوری کو بتایا کہ وہ بروڈمور سے باہر کھلی فضا میں سانس لینے کے لیے پر امید ہیں۔

جون اور جینیفر ایک دوسرے کے سائے کی حیثیت رکھتی تھیں۔ ایک ایسا سایہ جس نے دونوں کی زندگی تاریک کر دی تھی۔ مارجوری والس کے مطابق بہنوں نے آپس میں ایک معاہدہ کر رکھا تھا کہ اگر ان میں سے کوئی ایک مر جائے تو دوسری نارمل زندگی گزارے گی۔

آخری بار جب مارجوری ان سے ملنے گئی تو جینیفر نے بڑی عجیب بات کہی، "میں مر جاؤں گی، ہم نے فیصلہ کر لیا ہے۔"

اس ملاقات کے چند ہفتوں بعد جون اور جینیفر کو ایک دوسرے ہسپتال منتقل کیا گیا۔ ہسپتال پنہچنے کے بعد اسٹاف کو یہ محسوس ہوا کہ جینیفر کی حالت ٹھیک نہیں۔ اسے فوراً دوسرے ہسپتال لے جایا گیا لیکن وہ جانبر نہ ہو سکی۔ موت کے وقت وہ محض تیس سال کی تھی، اس کے دل نے کام کرنا چھوڑ دیا تھا۔

جینیفر کی موت کے کچھ عرصے بعد جب مارجوری جون سے ملنے گئی تو اسے عجیب موڈ میں پایا، اس کے الفاظ یہ تھے، "آخر کار آج میں آزاد ہوں، بالآخر جینیفر نے میرے لیے قربانی دے ہی دی۔"

اس کے بعد جون نے اپنی ایک نئی اور آزاد زندگی کا آغاز کیا۔ وہ اپنے ماضی کو بھلا کر آگے بڑھنے کے لیے پر امید تھیں، اور سماج نے انہیں واپس قبول کر کے نارمل زندگی گزارنے میں مدد دی۔ اب انہیں کسی نفسیاتی علاج کی ضرورت نہیں، اور نہ ہی ان کا ماضی یاد دلایا جاتا ہے۔ دونوں بہنیں ایک دوسرے سے آزادی چاہتی تھیں، اور دونوں کو آزادی ملی۔ لیکن ایک کو زندہ رہ کر، اور دوسری کو مر کر۔

تبصرے (0) بند ہیں