موجودہ عہد ٹیکنالوجی کا سمجھا جاتا ہے جس نے انسانی زندگی میں انقلاب برپا کر کے رکھ دیا ہے اور ترقی کا سفر بھی تیزی سے طے ہونے لگا ہے مگر یہ وہ چیز ہے جو اوپری سطح پر نظر آتی ہے۔ درحقیقت موبائل فونز اور دیگر کمیونکیشن ڈیوائسز نے نئی نسل کی زندگیوں کو جتنا منفی انداز سے متاثر کیا ہے اس کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔

خاص طور پر ایسے معاشرے جہاں تعلیم کی اہمیت زیادہ نہیں اور وہاں موبائل فونز اور انٹرنیٹ نے بچوں کو عمر سے پہلے باشعور کرنا شروع کر دیا ہے اور اکثر وہ ناسمجھی کے باعث ایسی دلدل میں پھنس جاتے ہیں جس سے نکلنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ خاص طور پر اس وقت جب والدین بھی اپنی مصروفیات کے باعث اپنے بچوں کو زیادہ وقت نہیں دے پاتے اور یہی وہ مرکزی خیال ہے جو پی ٹی وی کے ڈرامے ' کس سے کہوں' میں پیش کیا جارہا ہے۔

مختصر کہانی

فوٹو بشکریہ ڈرامہ فیس بک پیج
فوٹو بشکریہ ڈرامہ فیس بک پیج

یہ کہانی ہے مسٹر و مسز قریشی (محسن گیلانی اور سیمی راحیل) اور ان کی بیٹی حدیقہ (سجل علی) کی۔ گھر کے سربراہ یعنی مسٹر قریشی سعودی عرب میں ملازمت کرتے ہیں جبکہ بیوی اور بیٹی پاکستان میں رہتے ہیں۔ حدیقہ کی دادی (ثمینہ احمد) پوتی کو خود پالتی ہیں اور وہ شمالی علاقہ جات کے ایک خوبصورت گاﺅں میں پلتی بڑھتی ہے جہاں وہ بہت سیکھتی ہے اور سادگی و خود اعتمادی اس کی زندگی کا حصہ بن جاتی ہے۔ تاہم اس کی زندگی میں اس وقت تبدیلی آتی ہے جب وہ واپس شہر اپنے والدین کے پاس آتی ہے اور اسے ایک اچھی تعلیمی درسگاہ میں داخل کروا دیا جاتا ہے۔

وہاں حدیقہ اپنی خود اعتمادی سے ساتھی طالبعلموں کو بہت متاثر کرتی ہے اور کئی اچھے دوست بھی بنا لیتی ہے اور وہیں اس کی ملاقات فہد اقبال (آغا علی) سے ہوتی ہے، جو ایک دولت مند گھرانے کا چشم و چراغ ہے اور اس کی نظر میں لڑکیوں کی کوئی عزت نہیں جبکہ اپنے سے آگے نکلنے والا فرد بھی اسے کھٹکتا ہے. اور یہی وجہ ہے کہ باسکٹ بال میچ میں حدیقہ کے ہاتھوں شکست کے بعد فہد اپنے دوستوں سے حدیقہ کو ہر ممکن طریقے سے نیچا دکھانے کی شرط لگا لیتا ہے۔

اور بعد میں اپنی سادگی کی وجہ سے ہی حدیقہ، فہد کی دوستی کے جال میں پھنس جاتی ہے اور وہ بعد میں اس دوستی کو بذریعہ انٹرنیٹ اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرتا ہے۔

ڈرامے کا اہم کردار حدیقہ کی ملازمہ کی بیٹی سلمیٰ (یمنیٰ زیدی) کا بھی ہے جو حدیقہ کی دوست بنتی ہے اور اپنے مسائل میں گھری حدیقہ، سلمیٰ کی زندگی کو بھی بہتر بنانے کے لیے بھی کوشاں ہوتی ہے۔

منفرد خیال اور کہانی کی بہترین رفتار

فوٹو بشکریہ ڈرامہ فیس بک پیج
فوٹو بشکریہ ڈرامہ فیس بک پیج

درحقیقت یہ اس وقت تمام چینلز پر نشر ہونے والے ڈراموں سے بالکل ہٹ کر پیش کی جانے والی کہانی ہے جس میں موجودہ دور کے اہم ترین مسئلے کو خوبصورت انداز سے دکھایا جا رہا ہے اور سب سے اچھی چیز یہ ہے کہ یہ کہانی سست روی سے نہیں بلکہ پہاڑی چشمے کی رفتار سے ناظرین کو اپنی گرفت میں لیتے ہوئے بڑھ رہی ہے۔

بہترین ہدایتکاری

ڈرامے کی ڈائریکشن سے لے کر کیمرہ ورک اور ایڈیٹنگ تک ہر شعبے میں بہترین کام کیا گیا ہے اور کسی جگہ کوئی جھول نظر نہیں آتا۔ چاہے سلمیٰ کی زندگی کی مشکلات ہوں یا اسکول کے مناظر، سب بہترین انداز سے فلمائے گئے ہیں۔

ڈائریکٹر نے اس بات کا پورا خیال رکھا ہے کہ ناظرین کی دلچسپی ہر قسط کے ساتھ بڑھتی چلی جائے اور رائٹر نے بھی مہارت سے ہر کردار کو بہترین انداز سے پیش کیا ہے۔ اور سب سے اہم چیز کہانی میں تجسس ہر قسط کے ساتھ بڑھتا چلا جا رہا ہے اور اس میں کوئی کمی نہیں آرہی۔

اداکاروں کی بہترین کارکردگی

فوٹو بشکریہ ڈرامہ فیس بک پیج
فوٹو بشکریہ ڈرامہ فیس بک پیج

سجل علی تو باصلاحیت اداکارہ ہیں ہی مگر یمنیٰ زیدی نے بھی اپنے کام سے متاثر کیا ہے۔ تاہم جس نے سب کو حیران کیا ہے وہ آغا علی ہیں جو پہلی بار اس طرح کے منفی کردار میں جچے ہوئے نظر آئے ہیں حالانکہ اس سے پہلے کئی ڈراموں میں بھی وہ منفی کردار کرتے نظر آئے مگر وہ زیادہ متاثر کن ثابت نہیں ہوئے۔

ڈرامے کی کاسٹ میں سجل علی، آغا علی، یمنیٰ زیدی، عیسیٰ چوہدری، ثمینہ احمد، سیمی راحیل، محسن گیلانی، اورنگزیب لغاری اور افتخار ٹھاکر شامل ہیں۔ ڈرامہ معروف مصنف شاہد ندیم نے تحریر کیا ہے جن کے ماضی کے ڈراموں نیلے ہاتھ اور جنجال پورہ وغیرہ آج بھی لوگوں کے ذہنوں میں زندہ ہیں جبکہ اس کی ڈائریکشن کاشف نثار نے دی ہیں۔

یہ ڈرامہ ہر اتوار کی رات 8 بجے پی ٹی وی ہوم پر نشر کیا جاتا ہے اور اس کی اب تک 10 اقساط ٹیلی کاسٹ کی جا چکی ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں