'خوبصورت اسلام آباد'... نہیں 'بدصورت اسلام آباد'

اپ ڈیٹ 15 مارچ 2015
شہری انتظامیہ کی سرمایہ کاروں کے ساتھ ملی بھگت دیکھ کر یہ پتہ چل جاتا ہے کہ ریاستی اداروں میں کرپشن کس قدر عام ہے۔ — فوٹو کلبِ علی
شہری انتظامیہ کی سرمایہ کاروں کے ساتھ ملی بھگت دیکھ کر یہ پتہ چل جاتا ہے کہ ریاستی اداروں میں کرپشن کس قدر عام ہے۔ — فوٹو کلبِ علی

اپنے وجود کے زیادہ تر عرصے تک پاکستان کے دار الحکومت اسلام آباد کو 'خوبصورت' قرار دیا گیا ہے۔

یہاں کے رہنے والوں، اور اندرون و بیرون ملک سے آنے والے لوگوں نے بار بار اسے یہ نام دیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جب ایوب خان نیا دار الحکومت بسانے کے لیے جگہوں پر غور کر رہے تھے، تو ان کا خواب تھا کہ دار الحکومت کو ایسا پرسکون اور سرسبز و شاداب ہونا چاہیے کہ لوگ اسے لندن اور پیرس جیسے شہروں پر ترجیح دیں۔

اور اپنی عمر کے زیادہ تر عرصے میں اس نوجوان شہر نے یہ وعدہ نبھایا ہے، اور مرگلہ کی خوبصورت پہاڑیوں کے دامن میں ہوتی شہری ترقی نے ایک حسین امتزاج بنایا (ہاں اس کے کمرشل ایریاز کے بدذوق طرزِ تعمیر کی بات الگ ہے۔)

یہاں پودوں، درختوں، اور حیاتیات کو بہتر بنایا گیا۔ اس کے علاوہ میونسپل ادارے اور شہری بھی اس کے حسن کو خراب ہونے سے بچائے رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے تھے۔

پڑھیے: ورثہ خطرے میں

لیکن بدقسمتی سے ملک کے باقی حصوں کی طرح اسلام آباد کے بھی حالات پلٹے، اور یہ 2007 میں شروع ہوا۔

اگر آپ اب شہر میں گاڑی ڈرائیو کریں، تو اگر میٹرو بس پراجیکٹ کی وجہ سے ہونے والی بے ترتیبی آپ کے راستے میں نہ آئے، تب بھی یہ شہر ایک یتیم شہر لگتا ہے جس کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔

ماحولیاتی تحفظ کے لیے ذمہ دار کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کہیں نظر نہیں آتی۔ چاہے گڑھوں سے بھرپور سڑکیں ہوں، کمرشل ایریاز میں تجاوزات ہوں، یا چاہے تمام پبلک پارکس اور اسپورٹس سہولیات کی تباہی و بربادی ہو، اسلام آباد ایک مکمل طور پر غیر فعال انتظامیہ کی نااہلی کی قیمت چکا رہا ہے۔ اس کے منتخب نمائندے بھی اس حوالے سے فکرمند نہیں، اور نااہل ہیں۔

سیکٹر F-10 مرکز کے مین روڈ پر ایک افغانی برگر آؤٹ لیٹ قوانین کی مکمل خلاف ورزی کرتے ہوئے کھلا ہوا ہے۔ ذمہ دار افسران و اہلکار وہاں سے گزرتے ہیں لیکن نوٹس نہیں لیتے۔

یہ مجرمانہ لاپرواہی ایک عام شہری کو خوف اور غصے میں مبتلا کر رہی ہے۔

ہمارے آس پاس کے ممالک نے شہری ترقی سیکھی اور اس میں آگے بڑھے، جبکہ ہمارا سب سے خوبصورت شہر اب اپنی تنزلی کی جانب گامزن ہے، اور لگتا ہے کہ کسی کو بھی اس کی فکر نہیں ہے۔

کیا سی ڈی اے کے افسران کبھی اپنے ٹھنڈے ٹھار کمروں سے باہر نکل کر یہ دیکھنے کی زحمت کرتے ہیں کہ شہر کن مشکلات میں گھرا ہوا ہے؟ F-11 میں ایک غیر قانونی لیکن مصروف آٹو موبائل مارکیٹ، جس نے سڑک کے دونوں جانب قبضہ جما لیا ہے، کسی کی نظروں سے نہیں بچ سکتی۔

مزید پڑھیے: اسلام آباد: منافع کیلئے تاریخی آثار کی تباہی

یہ تمام غیر قانونی تعمیرات صرف نااہلی کا نتیجہ نہیں، بلکہ اس میں کرپشن کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔

کمرشل مراکز میں اوورفلو ہوتی پانی کی ٹنکیاں، بجلی کی بے ہنگم تاریں، اور فقیروں کے غول شاپنگ کو ناقابلِ برداشت بنا دیتی ہیں۔ جناح سپرمارکیٹ کسی زمانے میں ایسا ہوا کرتا تھا جہاں لوگ اپنی فیملیز کے ساتھ سڑک کنارے چائے کافی پیتے نظر آتے۔ اب یہ گوالمنڈی کی سستی نقل میں تبدیل ہو چکا ہے۔

کوئی باضمیر لبنانی اگر ہمیں دیکھ لے کہ ہم یہاں پر کتنے غیر صحت بخش کھانے کو شوارما کہہ کر بیچتے ہیں اور شوارما لفظ کی بے عزتی کرتے ہیں، تو وہ ہم پر مقدمہ ہی کر ڈالے۔

ہم نے اس مارکیٹ کو سیاحوں کے لیے پرکشش جگہ بنانے کے بجائے اسے کچرے کے ڈھیر میں تبدیل کردیا ہے۔

شہری انتظامیہ کی سرمایہ کاروں کے ساتھ ملی بھگت اور ان کو دیے گئے زمین کے ٹکڑوں کو دیکھ کر یہ پتہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ ریاستی اداروں میں کرپشن کس قدر عام ہے۔ F-7 میں شاپنگ مال بناتے وقت اس بات کا بالکل بھی خیال نہیں رکھا گیا کہ وہاں ٹریفک کا کیا ہوگا یا پارکنگ کس طرح ممکن ہوگی۔

جانیے: میونسپل اداروں پر اعتماد کیسے بحال ہو؟

اور اب جناح ایوینیو پر ایک اور شاپنگ مال تعمیر ہورہا ہے اور ڈویلپر کو ناظم الدین روڈ پر مٹی اور ملبہ پھیلانے کی کھلی چھوٹ دی جا چکی ہے۔

کیا پاکستان میں ایسے کوئی بھی تعمیراتی قوانین موجود نہیں جو ڈویلپرز کو دورانِ تعمیر ماحول کا خیال رکھنے کا پابند بنائیں؟

امید ہے کہ بااختیار افراد میں سے کوئی اس کا نوٹس لے گا اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے۔ ہمیں یاد ہے کہ سی ڈی اے کے ایک اچھے چیئرمین نے کس طرح شہر میں روح پھونک دی تھی، اور کس طرح سڑکوں اور پارکس کی صورتحال بہتر بنائی تھی، اور ایک پرفارمنگ آرٹس اور تھیٹر کی بھی بنیاد رکھی تھی۔

مجھے امید ہے کہ ہماری تیزی سے تباہ ہوتی ہوئی بیوروکریسی میں سے کوئی اقدامات کرے اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے۔ اور تب تک سی ڈی اے اس کا نام خوبصورت اسلام آباد سے تبدیل کر کے 'بدصورت اسلام آباد' رکھ دے۔

آخری بات: اس سب میں صرف ایک ہی امید افزا بات ہے، اور وہ اس شہر کا صفائی کا عملہ ہے۔ وہ ان لوگوں کی پھیلائی ہوئی گندگی کو صاف کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں جو صفائی کو نصف ایمان کہتے تو ہیں پر مانتے نہیں۔

انگلش میں پڑھیں۔

تبصرے (0) بند ہیں