پبلک ٹوائلٹس کی کمی ایک سنگین مسئلہ

اپ ڈیٹ 20 مئ 2016
پاکستان میں اب صحت و صفائی اور مزید ٹوائلٹس کی تعمیر ایک ترجیح بن جانی چاہیے۔ — اے پی/فائل
پاکستان میں اب صحت و صفائی اور مزید ٹوائلٹس کی تعمیر ایک ترجیح بن جانی چاہیے۔ — اے پی/فائل

حال ہی میں یونیسیف نے ایک وارننگ جاری کی ہے کہ پاکستان میں 4 کروڑ 10 لاکھ لوگوں کو ٹوائلٹ کی مناسب سہولت میسر نہیں ہے جس کی وجہ سے انہیں کھلے عام رفعِ حاجت کرنی پڑتی ہے۔ انڈیا اور انڈونیشیا کے بعد پاکستان دنیا کا تیسرا ایسا ملک ہے جہاں لوگوں کی بڑی تعداد کھلے عام رفعِ حاجت کرنے پر مجبور ہے۔

4 کروڑ 10 لاکھ لوگوں کے لیے معمول بن چکے اس معمول کے سنگین طبی اور غذائی نتائج ہیں۔ کھلے عام رفعِ حاجت کے نقصانات اتنے زیادہ ہیں، کہ ہمیں اس مسئلے پر ضرور بات کرنی چاہیے۔

شہرِ لاہور لاکھوں لوگوں کا مسکن ہے، لیکن یہاں صرف 21 پبلک ٹوائلٹس ہیں۔ ان میں سے بھی زیادہ تر کی حالت خراب ہے، اور انہیں مرمت کی ضرورت ہے۔ ایک ایسا ملک جسے ہر سال کروڑوں ڈالر کی امداد ملتی ہے، وہ اپنے شہریوں کو صاف ٹوائلٹ جیسی بنیادی سہولت دینے سے بھی قاصر ہے، جس کی وجہ سے لوگ ٹوائلٹ کی تلاش تک حاجت روکنے پر مجبور رہتے ہیں۔

پڑھیے: آئی ڈی پیز کو صحت کے مسائل کا سامنا

اس سے کئی پیچیدگیاں جنم لیتی ہیں جن پر فوری توجہ دینا ضروری ہے۔

پاخانہ رک جانا

جب بچوں کو مختلف نفسیاتی و سماجی وجوہات کی بنا پر مناسب انداز میں رفعِ حاجت کی سہولت میسر نہیں آتی، تو وہ پاخانہ روکنے لگتے ہیں، اور ایسی کسی بھی جگہ پر رفعِ حاجت کرنے سے انکار کر دیتے ہیں جہاں انہیں شرمندگی محسوس ہو یا وہ مطمئن نہ ہوں۔ اس کے وجہ سے ان میں خود بخود پاخانہ رکنے لگ جاتا ہے۔

بچوں کے لیے کھلے عام رفعِ حاجت کرنا بہت ہی شرمناک اور ذہنی پریشانی کا سبب بنتا ہے جس کی وجہ سے بچوں میں Encorpresis کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے، اور بچوں کے اپنے کپڑے خراب کرنے کی وجہ بنتا ہے۔

بڑی آنت (کولون) عام طور پر پاخانے میں سے پانی نکال لیتی ہے، لیکن آنتوں میں بہت دیر تک پاخانہ باقی رہنے سے قبض ہوجاتی ہے۔ پاخانہ اتنا سخت ہوجاتا ہے کہ اس کا نکلنا مشکل ہوجاتا ہے اور بڑی آنت پھیل جاتی ہے جس کی وجہ سے bowel کی حرکت کا احساس نہیں ہو پاتا۔ اس کے نتیجے میں پتلا پاخانہ اکثر بہہ جاتا ہے اور بچوں کے کپڑے خراب کرنے کا سبب بنتا ہے۔

جیسا کہ سب جانتے ہیں، اس کا ایک فرد کی صفائی پر بہت گہرا اثر پڑتا ہے۔ ہاتھ اور کپڑے خراب ہونے سے کئی بیماریاں بڑی آسانی سے پھیل سکتی ہیں۔

قبض

قبض کے نتائج کافی خطرناک ہوسکتے ہیں اور جن پر عام طور توجہ نہیں دی جاتی۔

مزید پڑھیے: گاجر کے چار حیرت انگیز فوائد

ہماری بڑی آنت میں ایسے بیکٹیریا موجود ہوتے ہیں جو ہماری آنتوں کو صحتمند حالت میں رکھنے میں مدد کرتے ہیں۔ قبض کی وجہ سے خراب بیکٹیریا پروان چڑھتے ہیں جس کی وجہ سے صحت متاثر ہوتی ہے۔ جب سخت پاخانہ بڑی آنت میں زیادہ دیر تک رہے، تو اچھے اور مددگار بیکٹیریا ڈسٹرب ہوتے ہیں۔

قبض کی وجہ سے پیٹ میں درد بڑھتا ہے جبکہ بھوک بھی کم ہوجاتی ہے۔ اگر قبض کا علاج نہ کیا جائے تو زور دینے اور رفعِ حاجت کی کوشش کرنے کی وجہ سے ریکٹم کو نقصان پہنچتا ہے اور خون بھی نکل سکتا ہے۔

بچوں میں بڑھوتری کا رکنا

ایک بچے میں بڑھوتری کے رکنے کو اس طرح ناپا جا سکتا ہے کہ اس کی عمر کے حساب سے اس کا قد ناپا جائے اور باقی آبادی کے اوسط قد سے موازنہ کیا جائے۔ بچے کا قد اپنی عمر کے باقی بچوں کے اوسط قد سے جتنا کم ہوگا، بچے کی بڑھوتری اتنی ہی کم ہے۔

کم قد اور کمزور جسم بچوں میں پروٹین انرجی والی غذائیت کی کمی کا اشاریہ ہے۔

غذائیت کی کمی کو بڑھوتری سے ملایا جا سکتا ہے۔ کھلے عام رفعِ حاجت کرنے کی وجہ سے بچے خود کو صاف نہیں رکھ پاتے اور جس کی وجہ سے پانی بھی خراب ہوتا ہے۔ اس کی وجہ سے بچوں میں شدید ڈائریا جنم لیتا ہے اور کھانے سے غذائیت حاصل کرنے کی قابلیت کمزور پڑتی ہے۔ اس کی وجہ سے ذہنی صلاحیت متاثر ہوتی ہے اور دماغی کمزوری بھی جنم لیتی ہے۔

پاکستان میں اب صحت و صفائی اور مزید ٹوائلٹس کی تعمیر ایک ترجیح بن جانی چاہیے۔

جانیے: پاکستان: ڈائریا سے اموات میں پانچواں نمبر

اپنے بچوں کو زندہ رہنے کے لیے بنیادی ضروریات بھی نہ دے پانا غیر انسانی بھی ہے اور ان کی ذات کے لیے بھی نقصاندہ ہے۔

لوگوں میں ہاتھ دھونے کے حوالے سے شعور اجاگر کرنا اور ٹوائلٹس کی سہولت میسر کروانا اس مسئلے کے خاتمے کی جانب پہلا قدم ہوگا۔

کھلے عام رفعِ حاجت کا خاتمہ کرنا چاہیے، لیکن اس کے لیے بہت کوششیں درکار ہوں گی، رویوں میں تبدیلی لانا ہوگی، بہتر سہولیات فراہم کرنی ہوں گی، اور لوگوں میں صحت و صفائی کے حوالے سے شعور اجاگر کرنا ہوگا۔

انگلش میں پڑھیں۔

تبصرے (5) بند ہیں

محمد ارشد قریشی Mar 17, 2015 12:24am
لوگوں میں اس بارے میں شعور اجاگر کرنا بہت ضروری ہے اور شائید یہی ابتدا ہوگی۔
Adil Mansoor Mar 17, 2015 01:27pm
its very informative - thanks .. however where no one is concenrned about basis necessities to Poor Paksitanies , , who cares for Toilets . Thanks for a wake up call >>>>>>> pevasta reh shajar say ----------- ummeed-e-baharan rakh
wahab Hassan Mar 17, 2015 02:18pm
میں آپ کی اس تجویز سے اتفاق کرتا ہوں کہ جہاں اربوں روپے ڈالرز کی امداد میسر ہو وہاں ملک پر ‘‘قابض‘‘ حکمرانوں کو عوام الناس کے لیے صحت عامہ کے لیے مثبت پالیسیز مرتب کرنی چاہئے اور رفع حاجت کے لیے صاف ستھرے پبلک ٹوائلٹس بنوانے چاہئے۔ مگر ایک بات مجھے بتائیے کہ یہ قوم اس لائق ہے کہ اس کے لیے بین الاقوامی طرزکے پروجیکٹس متعارف کرائے جائیں۔ یہ وہ قوم ہے جو سگنل پر ایک منٹ انتظار نہیں کرسکتی۔ یہ وہ قوم ہے جو بجلی، گیس چوری کرنے کےباوجود لوڈشیڈنگ اور گیس کی بندش کے باعث سراپہ احتجاج ہوتے ہیں اور مشتعل ہوکر اپنی ہی سرکاری املاک کو نقصان پہنچاتے ہیں ۔ مثلاً لاہور میٹرو بس سروس ودیگر۔ اگر مستقبل میں اس طرح کی سہولیات دے بھی دیں تو یہ جلد ہی مشتعل مظاہرین کی نظر ہوجائے گی ۔ لیکن کہیں کوئی قیامت نہیں ڈھائے گی اور یہ سلسلہ روایتی انداز میں جاری و ساری رہے گا۔ قوم بٹ چکی ہے فرقوں میں، مذہبی انتہا پسندی، قومیت میں۔
SMAZ Mar 19, 2015 12:01pm
بہت معلوماتی بلاگ ... خدا آپ کو سلامت رکھے
sakeena shah May 21, 2016 08:54am
I agree with your opinion that there should be awareness programs among people ,but the huge responsibility lies on the government. Unfortunately governments in south Asian region never give heed to such issues.I think the ist priorty of our politicians should be hygiene and health of people. They should work for the cleanliness. The money which they spend on election rallies should be spend on cleanliness.