نئے ایٹمی بجلی گھر کراچی کے لیے خطرہ؟

اپ ڈیٹ 19 مارچ 2015
کراچی میں نئے ایٹمی ری ایکٹرز کی تعمیر سے سنگین ماحولیاتی، طبی، اور سماجی مسائل کھڑے ہو سکتے ہیں۔  — رائٹرز/فائل
کراچی میں نئے ایٹمی ری ایکٹرز کی تعمیر سے سنگین ماحولیاتی، طبی، اور سماجی مسائل کھڑے ہو سکتے ہیں۔ — رائٹرز/فائل

1 کروڑ 80 لاکھ آبادی والے شہرِ کراچی سے 40 کلومیٹر دور دو نیوکلیئر ری ایکٹرز کی تعمیر کا حکومتی پلان سائنسدانوں اور حکومت کے دوران تنازع کی وجہ بنا ہوا ہے۔

یہ چائنا نیشنل نیوکلیئر کارپوریشن نے تعمیر کرنے ہیں۔ ہر ری ایکٹر پر 4.8 ارب ڈالر لاگت آئے گی، جبکہ ڈیل میں ایک چینی بینک سے 6.5 ارب ڈالر کا قرضہ بھی شامل ہے۔ یہ ری ایکٹر نہ پہلے کہیں بنائے گئے ہیں، اور نہ کہیں آزمائے گئے ہیں، یہاں تک کہ چین میں بھی نہیں۔ صفِ اول کے ماہرِ فزکس عبدالحمید نیر کا کہنا ہے کہ اگر فوکوشیما یا چرنوبل جیسا کوئی حادثہ پیش آتا ہے، تو کراچی کو خالی کروانا ناممکن ہو جائے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ ان ری ایکٹرز کی تعمیر سے سنگین ماحولیاتی، طبی، اور سماجی مسائل کھڑے ہو سکتے ہیں۔

میں نے اس موضوع پر ان کا انٹرویو کیا تھا۔ آئیں ان سے جانتے ہیں کہ وہ ان بجلی گھروں کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔

سوال: چین پاکستان کو ایٹمی ٹیکنولاجی فراہم کر رہا ہے، جبکہ پاکستان نے ایٹمی عدم پھیلاؤ کے معاہدے (NPT) پر دستخط نہیں کیے ہیں۔

جواب: آپ نوٹ کریں گے کہ کوئی بھی بڑی طاقت اس 'غیر قانونی' قدم کو چیلنج نہیں کر رہی، اور نہ ہی نیوکلیئر سپلائرز گروپ (NSG) کے کسی رکن ملک کو اس پر اعتراض ہے۔ چین اس لیے این ایس جی کی پابندیوں کی خلاف ورزی کر رہا ہے کیونکہ این ایس جی نے پہلے ہی انڈیا کو رعایت دے کر اپنی پوزیشن کمزور کر لی ہے۔ ویسے چین کا کہنا یہ ہے کہ اس نے 2004 میں این ایس جی کے قیام سے پہلے پاکستان سے اس سپلائی کا معاہدہ کیا تھا، اور اس لیے یہ سپلائی غیر قانونی نہیں ہے۔ یہ چشمہ نیوکلیئر ری ایکٹرز کے لیے تو درست ہو سکتا ہے پر کیا یہ کراچی کے ری ایکٹرز کے لیے بھی درست ہے؟ اعتراض کرنے والوں کا کہنا ہے کہ جو ری ایکٹرز پاکستان کو دیے جارہے ہیں وہ 2004 میں ڈیزائن بھی نہیں ہوئے تھے۔ میری رائے میں یہ ساری باریکیاں اب بیکار ہیں۔ پاک چین ایٹمی معاہدہ عالمی قانونی فورمز پر چیلنج نہیں کیا جائے گا۔

سوال: لیکن کیا اوبامہ انتظامیہ انڈیا کے ساتھ 2008 میں کی جانے والے ایٹمی معاہدے کی بحالی کے لیے کوشش نہیں کر رہی تاکہ امریکی کمپنیاں انڈیا کے ایٹمی بجلی گھروں میں سرمایہ کاری کر سکیں؟ انڈیا نے بھی این پی ٹی پر دستخط نہیں کیے ہیں۔

جواب: جی ہاں۔ امریکا اس وقت انڈیا میں ایٹمی مارکیٹ ڈھونڈنے کے لیے بیتاب ہے۔ انڈیا کے پاس پیسہ ہے، اور اسے بڑے ایٹمی بجلی گھروں کی ضرورت ہے، اور امریکی ایٹمی صنعت کے پاس اس وقت خریدار نہیں ہیں۔ صدر بش نے وعدہ کیا تھا کہ بھارت اور امریکہ کے درمیان ایٹمی معاہدہ امریکی ایٹمی صنعت کو دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا کر دے گا جس سے ملازمتیں پیدا ہوں گی۔ لیکن انڈیا کے ذمہ داری کے قوانین کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں ہوا جن کے مطابق کسی بھی حادثے کی صورت میں پلانٹ تیار کرنے اور چلانے والے، دونوں فریقوں پر ذمہ داری آتی ہے۔ اوبامہ نے بہت کوشش کی ہے کہ انڈیا کے اس قانون کو چکمہ دے کر کوئی راستہ نکالا جا سکے۔ یہ اب تک نہیں ہوا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایسا ہوگا؟

سوال: دنیا بھر میں نیوکلیئر ری ایکٹرز سے بجلی پیدا کرنا ایک اچھے آپشن کے طور پر دیکھا جاتا ہے (دنیا بھر میں 31 ممالک ایٹمی بجلی پیدا کر رہے ہیں) تو پھر پاکستان میں ایسا کیوں نہیں ہے؟

جواب: نہیں، عالمی ٹرینڈ ایٹمی توانائی کے حق میں نہیں ہے۔ زیادہ تر ممالک اسے چھوڑ چکے ہیں۔ جرمنی کی مثال سامنے ہے۔ دوسری مثالیں بھی موجود ہیں۔ امریکا میں پچھلے 43 سالوں سے کسی نئے ایٹمی بجلی گھر نے آپریٹ کرنا شروع نہیں کیا ہے۔ کچھ زیرِ تعمیر ہیں لیکن وہ ٹرینڈ نہیں کہلا سکتے۔ چین ایک مضبوط مثال ہے۔ اس نے ایٹمی صنعت کی کئی کارپوریشنز تیار کی ہیں جنہوں نے تکنیکی مہارت کے حصول کے لیے بھاری سرمایہ کاری کی ہے، اور اب وہ نیوکلیئر ٹیکنولاجی دوسرے ممالک کو فراہم کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ پاک چین ایٹمی معاہدے کے بارے میں یہ بات بھی غور طلب ہے کہ نہ تو دنیا کا کوئی اور ملک پاکستان کو نیوکلیئر ری ایکٹر بیچنا چاہتا ہے، اور نہ ہی دنیا کا کوئی ملک چین سے نیوکلیئر ری ایکٹر خریدنا چاہتا ہے۔

سوال: ری ایکٹرز کی تعمیر کی صورت میں آپ کی سب سے بڑی تشویش کیا ہے؟

جواب: ہمیں دو مسائل پر تشویش ہے۔ ایک یہ کہ اگر ان نئے ڈیزائن کے ری ایکٹرز کے ساتھ فوکوشیما یا چرنوبل کی طرز کا کوئی حادثہ پیش آتا ہے، تو کیونکہ زیادہ لوگوں کو اس ڈیزائن کے بارے میں کوئی تجربہ نہیں ہوگا، تو حادثے کو کس طرح مینیج کیا جائے گا۔ دوسرا یہ کہ فوکوشیما حادثے کے اثرات ری ایکٹر سے 30 کلومیٹر دور تک بھی دیکھے گئے تھے۔ کراچی میں جہاں اس ری ایکٹر کی تعمیر کی تجویز دی گئی ہے، اس کے پاس 30 کلومیٹر کا علاقہ گنجان آباد ہے۔ اگر ان ری ایکٹرز میں کوئی خطرناک حادثہ پیش آتا ہے، تو یہ علاقے سالوں کے لیے مکمل طور پر بند کرنے پڑیں گے، جس کا لازمی طور پر پاکستانی معیشت پر برا اثر پڑے گا۔

یہ بات بھی دیکھنے کی ہے کہ فوکوشیما کے پاس 30 کلومیٹر کا علاقہ مکمل طور پر آبادی سے خالی کروایا گیا تھا، اور چار سال گزر جانے کے باوجود وہاں پر لوگوں کو واپس نہیں جانے دیا گیا ہے۔ سوچیں اگر اس طرح کا کوئی حادثہ کراچی میں پیش آجائے، تو کیا کراچی کو خالا کروانا آسان ہوگا؟ اگر ہم 1 کروڑ 80 لاکھ لوگوں کو شہر سے نکالنے میں ناکام رہے، تو وہ ایٹمی ریڈی ایشن کی زد میں آئیں گے۔

سوال: تو آپ کے خیال میں پاکستان کس طرح توانائی بحران پر قابو پا سکتا ہے؟

جواب: یہ ایک اچھا سوال ہے۔ آئیں دیکھتے ہیں کہ ایٹمی توانائی کے علاوہ اور کیا آپشنز ہیں۔ ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ چین، جہاں سے ہم یہ ایٹمی بجلی گھر خرید رہے ہیں، وہ خود ہوا اور سورج کی روشنی سے بجلی پیدا کرنے پر کام کر رہا ہے، اور یہ دونوں ذرائع ایٹمی تنصیبات سے زیادہ بجلی فراہم کر رہے ہیں۔ ایٹمی بجلی کی مجموعی پیداوار 17 گیگاواٹ (1 گیگاواٹ=1000 میگاواٹ) کے مقابلے میں چین نے ہوا سے 76 گیگاواٹ بجلی پیدا کرنے کے لیے تنصیبات کر لی ہیں۔ صرف سال 2014 میں ہی چین نے 20 گیگاواٹ صلاحیت کے ہوا سے بجلی پیدا کرنے کے ٹربائن لگائے ہیں۔ اگر چین اپنے پاس ہوا سے بجلی پیدا کرنے کے لیے اتنے بڑے منصوبوں پر کام کر رہا ہے، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے پاس پن بجلی کے پلانٹس تیار کرنے کے لیے بھی صلاحیت موجود ہے۔ پاکستان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کے پاس ہوا سے 40،000 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ چین سے قرضہ حاصل کر کے پن بجلی کی صنعت کو ترقی دی جا سکتی ہے۔ پن بجلی کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اس کی تنصیب پر ایٹمی بجلی گھر سے آدھی قیمت آئے گی، جبکہ اس میں ایندھن کا کوئی خرچ نہیں ہوگا۔ پن بجلی ایٹمی بجلی سے سستی ہوگی۔ دنیا بھر میں اس حوالے سے کافی کام ہو رہا ہے اور ہر سال 50،000 میگاواٹ صلاحیت کے نئے پلانٹ لگائے جارہے ہیں۔ پاکستان کو تو صرف 10،000 میگاواٹ کی ضرورت ہے تاکہ اپنی تمام ضروریات پوری کر سکے۔

اس کے علاوہ سولر فوٹو وولٹیک ٹیکنولاجی ہے جس کی قیمت حال ہی میں کافی کم ہوئی ہے۔ حکومتِ پنجاب نے حال ہی میں شمسی توانائی سے پانچ میگاواٹ حاصل کرنے کا منصوبہ لگایا ہے جبکہ اسے 1000 میگاواٹ تک لے کر جانا چاہتی ہے۔ اس لیے آپ کے سوال کا جواب سورج کی روشنی اور ہوا سے بجلی پیدا کرنے میں ہے۔

بشکریہ scidev.net

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

Shagufta Mar 19, 2015 04:44pm
Now is the time we should think about these problems at a serious level, the world is shifting to the alternative energy resources and banning atomic and nuclear energy plants because the waste produced produced by these plants is hazardous and cause serious health issues