اس وقت کوئی کیا کرے جب اس کے والدین کے درمیان مقابلے میں اس کی آزادی اور انتخاب کا حق داﺅ پر لگ جائے؟

یہی وہ دوہری مشکل ہے جس کا زلیخا (مایا علی) اور یوسف (عمران عباس) کو ڈرامہ 'میرا نام یوسف ہے' میں سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

اب تک کی کہانی

پہلی قسط میں یوسف ایک ٹرین میں زلیخا سے ٹکراتا ہے اور پہلی نظر میں ہی عشق ہوجاتا ہے، مسئلہ یہ ہے کہ زلیخا کے والدین کے سامنے ان کی بیٹی کے لیے امیدواروں کی قطار لگی ہوئی ہے اور ہیرو ہیروئین کے خاندانوں کے درمیان برابری بھی نہیں۔

دوسری سے پانچویں قسط تک ڈرامے کی کہانی اچھی رفتار سے آگے بڑھی جس کے دوران معاون کاسٹ کو سامنے لایا گیا جس سے کہانی کو آگے بڑھانے میں مدد ملی۔

کہانی میں اب کچھ نئے اضافے کیے گئے ہیں جن میں بشریٰ، ایک مطلقہ خاتون جو زلیخا کے والد سے شادی کی توقع باندھے ہوئے ہے، یوسف کے دوست کی بہن مدیحہ (جو کہ یوسف میں دلچسپی رکھتی ہے) اور اسکول کا ایک پرانا ساتھی ٹونی، جو اتفاقیہ طور پر زلیخا کا پڑوسی بن گیا، شامل ہیں۔

یہ تمام افراد اہم کردار ادا کررہے ہیں اور کہانی کو کھولنے میں مدد فراہم کر رہے ہیں۔

کہانی کی پیچیدگی

زلیخا کے والد (وسیم عباس) نے اپنی بیٹی کو بہن کے بیٹے عمران معیز سے بیاہنے کا وعدہ کررکھا ہے، جبکہ زلیخا کی والدہ عافیہ بیگم (حنا بیات خواجہ) نے اپنی بہن کلثوم کو کہا ہے کہ وہ اپنے بیٹے علی حمزہ کو سامنے لائے جو زلیخا سے شادی کی درخواست کرسکے۔

یہ واضح ہے کہ ماں اور باپ اپنے مقصد کے حصول میں قربانی کی بکری یعنی اپنی بیٹی کے بارے میں کچھ نہیں سوچ رہے۔

دوسری جانب ہیرو یوسف محبت میں مبتلا ہے اور کوشش کرتا ہے (اب تک تو یکطرفہ طور پر) کہ اپنی محبت کا پیغام زلیخا تک متعدد ذرائع کے ذریعے پہنچا سکے، جیسے اس کے دروازے کے سامنے کھڑے ہو کر، اپنی بچپن کی دوست مدیحہ کو اپنے جذبات زلیخا تک پہنچانے کا کہہ کر، ملاقات کی درخواست کر کے، اور آخرکار زلیخا کے کمرے میں گھس کر اپنی محبت کا اعتراف کرنا چاہتا ہے مگر وہاں زلیخا کی شادی کی باتیں سنتا ہے۔

اب تک تو یکطرفہ محبت کی کہانیاں ہی پلاٹ میں بڑھ رہی ہیں جیسے زلیخا کے لیے یوسف کا پیار، مدیحہ کی یوسف سے محبت، یہاں تک کہ ٹونی کے آئی لو یو کا مدیحہ کی اسکول کی کاپیوں میں لکھا ہونا۔ مدیحہ کا کردار منشا پاشا نے ادا کیا ہے جو پرامید ہے کہ یوسف اس کے پاس آئے گا۔

مدیحہ یوسف کی محبت میں اسکول کے زمانے سے گرفتار ہے اور وہ ہر طرح سے اس کی مدد کرنا چاہتی ہے چاہے اپنا ہی دل کیوں نہ ٹوٹ جائے۔

یکطرفہ ٹریفک میں زلیخا کے خیالات؟

زلیخا اپنے والدین کی جنگ سے بخوبی واقف ہے اور وہ نہیں چاہتی کہ اس کے والدین ایک دوسرے کے مخالف ہوں۔ زلیخا کے والد نور محمد اپنی بیٹیوں پر سخت کنٹرول رکھتے ہیں، ایک بیٹی کو انہوں نے تعلیم مکمل نہیں کرنے دی اور دوسری کی شادی وہ اپنی مرضی کے مطابق کرانا چاہتے ہیں۔

اگرچہ یوسف تو اپنے خواب کی تعبیر کے لیے کوشاں ہے مگر زلیخا کو ابھی بھی اپنا ذہن بنانا ہے۔ ایسا نظر آتا ہے کہ وہ اس حقیقت سے دور ہے کہ اس کی چند ہفتوں میں شادی ایسے شخص سے ہورہی ہے جو اس کا انتخاب نہیں۔

وہ اس فیصلے کے خلاف کھڑی نہیں ہوئی مگر پھر بھی اس توقع ہے کہ اس کی والدہ حالات ٹھیک کردیں گی۔

اپنی بہن ہاجرہ کی جانب سے کھڑے ہونے کی درخواستوں کے باوجود زلیخا کے ارادے غیر واضح ہیں۔ اگر وہ خود اپنے مقاصد سے آگاہ نہیں ہوگی تو وہ کس طرح اپنے اعتماد سے ناظرین کو متاثر کرسکے گی؟ مدیحہ اس تجویز پر ناراض ہوجاتی ہے کہ وہ یوسف سے ملاقات کرے اور یوسف کی احمقانہ جرات پر خوفزدہ ہوجاتی ہے مگر وہ درحقیقت کیا چاہتی ہے؟ بطور کردار وہ اب تک کھل کر سامنے نہیں آسکی ہے۔

اچھی بات یہ ہے کہ ڈرامے کے دیگر کردار احمق نہیں اور دیگر کے ارادوں سے بے خبر نہیں۔ ہاجرہ مدیحہ کے اس بہلاوے میں نہیں آئی کہ وہ زلیخا کی بہت پرانی دوست ہے اور نہ ہی عافیہ بیگم اپنے شوہر کے ارادوں سے بے خبر ہیں کہ وہ بشریٰ کو اپنی دوسری بیوی بنانا چاہتے ہیں۔

اسکرپٹ اور ڈائریکشن

خلیل الرحمان قمر کی تحریر فراست سے بھرپور ہے اور یہ واضح ہے کہ "ان کی کمان میں بہت تیر ہیں۔" کہانی کا انداز اور ہر کردار کی جانب سے کچھ نہ کچھ نیا سامنے آنا پلاٹ کو آگے بڑھا رہا ہے اور ہر کردار کی کہانی کو ترتیب دے رہا ہے۔

مگر پھر بھی کئی بار ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم یہ پہلے بھی دیکھ چکے ہیں۔

ایک پراثر محبت کی کہانی اور خاندان کے اندر کی الجھنیں، خاندانی طاقت وغیرہ 'صدقے تمہارے' میں سامنے آئے جبکہ بہنوں کا آپس میں تعلق فرح اور لبنیٰ کی شکل میں 'پیارے افضل' میں دیکھا گیا۔

میرا نام یوسف ہے کی سب سے متاثر کن چیز مہرین جبار کی مضبوط ہدایات ہیں جنہوں نے تمام تر تفصیلات پر توجہ مرکوز کی ہے اور کاسٹ کو بہترین کردار نگاری پر مجبور کیا ہے۔

تو اگر آپ اس ڈرامے کو دیکھ رہے ہیں تو یہ دیکھنا واقعی دلچسپ ہوگا کہ صدیوں پرانی اس کہانی کو کس طرح کھولا جاتا ہے۔ اس وقت تو گیند زلیخا کے کورٹ میں ہے اور توقع ہے کہ آنے والی اقساط میں اس کے ارادوں و مقاصد پر روشنی ڈالی جائے گی۔

توقع کی جاسکتی ہے کہ خلیل الرحمان قمر کی زلیخا روایتی کردار میں پھنسنے کے بجائے زیادہ بہتر انداز میں نظر آسکے گی۔

انگلش میں پڑھیں۔


صدف صدیقی فری لانس رائیٹر ہیں، ڈراموں کو پسند کرتی ہیں، اور کبھی کبھی خود بھی ڈرامے کر لیتی ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں