'لوگ کیا کہیں گے؟'

10 مئ 2015
چاہے معاملہ چھوٹا ہو یا بڑا، سماجی ہو یا ذاتی، ہماری زندگیاں لوگوں کی باتوں کے خوف میں گزرتی ہیں۔ Rose Series I by Sumera Jawed
چاہے معاملہ چھوٹا ہو یا بڑا، سماجی ہو یا ذاتی، ہماری زندگیاں لوگوں کی باتوں کے خوف میں گزرتی ہیں۔ Rose Series I by Sumera Jawed

یوں تو فلموں میں کئی طرح کی خوفناک مخلوقات دکھائی جاتی ہیں، لیکن پاکستان میں بھی ہمارے پاس ایسی کچھ مخلوقات ہیں جو کسی بھی مرد، عورت، اور بچے کے دل میں خوف بھر سکتی ہیں۔ یہ مخلوق "لوگ" ہیں، اور ان کا ہتھیار ان کی "باتیں"۔

ہمارے درمیان ایسا کون ہے جو لوگوں کی باتوں سے خوفزدہ نہ ہوا ہو؟

چاہے معاملہ چھوٹا ہو یا بڑا، سماجی ہو یا ذاتی، ہماری زندگیاں لوگوں کی باتوں کے خوف میں گزرتی ہیں۔ "لوگ کیا کہیں گے" کا سوال انسان کی ذاتی خواہشات پر سبقت لے جاتا ہے، یہاں تک کہ انسان اپنی خواہشات سے ہی سمجھوتہ کر لے۔

میری ایک کزن نے اپنی والدہ سے ایک دن کہا کہ وہ ایک ساز بجانا چاہتی ہے۔

جواب آیا: "بیٹا، لوگ کیا کہیں گے؟"، اور بس بات ختم۔

ہماری سماجی زندگی ایک دوسرے پر بہت زیادہ منحصر ہے، اور اس کے قائم رہنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ معاشرے کی جانب سے افراد پر عائد کردہ ذمہ داریاں نبھائی جائیں، اسی لیے کئی بار سماجی مجبوریاں ذاتی خواہشات اور ضروریات کو دبا دیتی ہیں۔

مل جل کر رہنے کے اپنے فوائد ہیں۔ لیکن جن ضوابط کو ماننے کا ہمیں کہا جاتا ہے، وہ بسا اوقات بہت ہی فضول اور بے ضرورت معلوم ہوتے ہیں۔

آخر ایک لڑکی کے ساز بجانے سے معاشرے کو کیا نقصان پہنچ سکتا ہے؟ سوائے اس کے، کہ اسے زیادہ ذاتی آزادی حاصل کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھا جائے، جس کی وجہ سے وہ مستقبل میں شادی نہ کرنے کا فیصلہ کر ڈالے، یا ایسے کریئر کا انتخاب کر لے جو خواتین نہیں اپناتیں۔

سادہ الفاظ میں شاید وہ "اچھے خاندان کی لڑکی" کا اپنا تشخص کھو دے، اس لیے اس کے دماغ میں بچپن سے ہی لوگوں کی باتوں کا خوف بٹھا دینا چاہیے۔

اگر بچے ہوشیار ہوں، اور سماجی طور پر قابلِ قبول شعبوں، جیسے میڈیکل، انجینیئرنگ وغیرہ کا انتخاب کر لیں، تو وہ 'لوگوں کی باتوں' سے بچ جاتے ہیں، جبکہ بزنس ایڈمنسٹریشن وغیرہ کا انتخاب کرنے پر باتیں شروع ہوجاتی ہیں۔

اور جب نوکری مل جائے (سرکاری نوکری سب سے اچھی مانی جاتی ہے)، تو فوراً شادی کر لینے کا دباؤ بڑھتا جاتا ہے۔ لوگوں کی باتیں اس قدر بڑھ جاتی ہیں، کہ پھر انہیں نظرانداز کرنا باقی نہیں رہتا۔

اور یہ باتیں ہوتی کس قدر سخت نوعیت کی ہیں۔ جب میری ایک دوست کو جاب ملی، تو لوگوں نے اس کے والدین کو مشورہ دیا کہ وہ اس کے لیے ایک اچھا شوہر ڈھونڈیں، تاکہ لوگ یہ نہ کہیں کہ بیٹی کی کمائی کھا رہے ہیں۔

اور چھ ماہ کے بعد اس کے والد کو صاف صاف کہ دیا گیا کہ آیا وہ شادی میں تاخیر اس وجہ سے کر رہے ہیں کہ وہ کمائی گھر لا رہی ہے۔

خواتین کو ان کی بڑھتی عمر، نوجوان لڑکوں کو ان کے گرتے بالوں، اور والدین کو ان کی ذمہ داریوں کے بارے میں یاد دلانے والی یہ لوگوں کی باتیں صرف اس لیے ہوتی ہیں، تاکہ ہر شخص کو ایک پہلے سے تعین کردہ راستے پر رکھا جاسکے۔

بہو، داماد، ساس، اور سسر کے سانچے پہلے سے بنے ہوئے ہوتے ہیں، ہمیں صرف ان میں اتر کر اپنے آپ کو اس حساب سے ڈھالنا ہوتا ہے۔

امید ہوتی ہے کہ شادی کے بعد یہ باتیں ختم ہوجائیں گی، لیکن پھر میاں بیوی سے یہ پوچھا جانے لگتا ہے کہ بچے کب پیدا کریں گے۔ بچے ہونے ضروری ہیں، اور ابھی کے ابھی ہونے ضروری ہیں۔

ذاتی سطح پر زیادہ تر لوگ ان سانچوں سے باہر نکلنے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں، لیکن عموماً خود بھی ان لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا نہیں کرتے، جو مختلف انداز میں جینا چاہتے ہیں۔

'لوگ' ہم خود بھی ہوتے ہیں۔ جب ہمارے فیصلوں پر تنقید کی جائے تو ہم فوراً ہی پریشان ہوجاتے ہیں یا تکلیف محسوس کرتے ہیں۔ لیکن جیسے ہی سننے میں آئے کہ پڑوسی کے بیٹے نے آرٹسٹ بننے کا فیصلہ کیا ہے، یا خالہ کی بیٹی پیانو سیکھنا چاہتی ہے، تو ہم ان کے انتخاب اور ان کی اخلاقیات پر سوال اٹھانے لگتے ہیں۔

لوگوں کی باتوں کے خوف سے نکلنا آسان سمجھا جاتا ہے، لیکن یہ اتنا آسان نہیں۔ آپ کے بارے میں دباؤ صرف آپ پر ہی نہیں، آپ کے پیاروں پر بھی ڈالا جاتا ہے۔ اگر ہم معاشرے کی توقعات کے مطابق نہ جی پائیں، تو بہت جلد معاشرہ ہمیں دھتکار بھی دیتا ہے۔

اس دباؤ کو ختم صرف تب کیا جا سکتا ہے، جب ہم سب اپنے اپنے ذہن کھولیں، کہ ہر کوئی ایک ہی طرح کا کام نہیں کر سکتا۔ اپنا ذہن کھولیں، اور اس کی شروعات ایک 35 سالہ غیر شادی شدہ لڑکی کی عزت کر کے، اور ایک بے اولاد جوڑے کو قبول کر کے کریں۔

انگلش میں پڑھیں۔

تبصرے (4) بند ہیں

نجیب احمد سنگھیڑہ May 10, 2015 05:06pm
ثناء صاحبہ نے بہت اہم مسئلے کو بخوبی بیان کیا ہے۔ بلاگ کے مندرجات اور اس کے لہجے سے بظاہر ایسا لگا ہے کہ جیسے غصے کے اخراج کے لیے قلم کا چناؤ کیا گیا ہے۔ میری رائے میں یہ اتنا اہم مسئلہ نہیں ہے کہ غصے سے لال پیلا ہوا جائے۔ وجہ یہ کہ معاشرہ باتونی اور ویہلا ہے اور وقت سے بہتر استفادہ حاصل کرنے کے گُر نہیں جانتا بلکہ لائی بجھائی کرنے میں وقت پاس کرتا ہے۔ اگر اس مسئلے کا حل نکالنا بھی ہو تو اس کے لیے تمام معاشرہ کو جڑ سے تبدیل کرنا ہو گا جو کہ مشکل اور وقت طلب امر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگوں کی باتوں کو انہیں بونگے اور کمزور آئی کیو کا مالک سمجھتے ہوئے نظر انداز کر کے اس مسئلے کو انا کا مسئلہ بننے سے بچا جا سکتا ہے اور یہ سارا کام متاثرہ شخص کو خود ہی کرنا ہو گا۔ اور یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے اگر اینٹ کا جواب پتھر سے دو چار دفعہ دیا جائے تو لوگ سیدھے ہو جاتے ہیں۔ لہذا دل کڑا کر کے رکھا جانا چاہیےکیونکہ کچھ ہوا تیز ہے، بارش کے ہیں آثار، مگر مشعلیں ہاتھ میں تھامے ہوئے چلنا ہے ہمیں
Your Name May 10, 2015 07:08pm
Han Ye bat theek hai k Iog har mamlaY me boltaY hain. Phir bi hamain Mashray me rehnaY k IiYe in k sath chalna Parta hai.
Muhammad Yaseen May 11, 2015 09:22am
معاشرے میں رہنے کے لئے ان تمام چیزوں کو خود نہیں کرسکتے جن کا تعلق خدا سے ہو یا جس کی ذمہ داری اس نے لے لی ہو رہی بات لوگوں کی باتوں کی تو وہ تو اگر کوئی خدا کو بھی پسند ہو تو لوگ اس کےخلاف بھی باتیں کریں گے، طائف کے لوگوں نے تو آپﷺ کو پتھر بھی مارے تھے
fozia May 11, 2015 11:24am
دراصل،ہمارے معاشرے کی پستی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہی سوچ ہے۔ ‘لوگ‘ کسی بھی دوسرے فرد کی ذاتیات میں گھسنے کو اپنا فرض عین سمجھتے ہیں۔