ٹاپ 100 ایشیا میں پاکستان کی کوئی یونیورسٹی نہیں

11 جون 2015
۔ —. فوٹو بشکریہ ٹائمز ہائیر ایجوکیشن
۔ —. فوٹو بشکریہ ٹائمز ہائیر ایجوکیشن

عالمی معیار کی یونیورسٹیوں کے حوالے سے ایک معروف ادارے ٹائمز ہائیر ایجوکیشن (ٹی ایچ ای) نے ایشیا میں یونیورسٹیوں کی درجہ بندی کی فہرست جاری کردی ہے۔

تاہم پاکستان کے لیے بُری خبر یہ ہے کہ اس فہرست میں پاکستان کی کوئی ایک یونیورسٹی بھی جگہ حاصل نہیں کرسکی ہے۔

2015ء کی اس فہرست میں ہندوستان کی 9 یونیورسٹیاں شامل ہیں۔ جبکہ شریف یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی سمیت ایران کی تین یونیورسٹیاں فہرست میں شامل ہیں۔ شریف یونیورسٹی 43ویں نمبر پر ہے۔

پنجاب یونیورسٹی کے رجسٹرار ڈاکٹر شاہد منیر کہتے ہیں ’’یہ رینکنگ اچھی ہے، اس کے معیار کا اصول بھی ٹھیک ہے، لیکن پاکستان کی زمینی صورتحال ٹھیک نہیں ہے۔‘‘

ڈاکٹر شاہد منیر کا کہنا ہے ’’ان خدشات میں سے ایک یہ ہے کہ پاکستان میں وسائل کا فقدان ہے، اور ریسرچ اور ڈیویلپمنٹ کے لیے مشکل سے ہی کوئی رقم مختص کی جاتی ہے۔ اس طرح کی صورتحال میں اداروں کے لیے ریسرچ کا کلچر پیدا کرنا مشکل کام ہے۔‘‘

ٹائمز ہائیر ایجوکیشن کے ایڈیٹر فل باٹے نے پاکستانی یونیورسٹیوں کے لیے فنڈکی کمی کو تسلیم کیا۔ انہوں نے ڈان کو بتایا ٹائمز ہائیر ایجوکیشن کی یونیورسٹیوں کی درجہ بندی میں جگہ حاصل کرنے کے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنا آسان کام نہیں ہے۔ اس کے لیے ایک ادارے کو ٹائمز کے پانچ بنیادی شعبوں میں مضبوط کارکردگی کا مظاہرہ کرنا لازم ہے۔ وہ پانچ شعبے یہ ہیں: تدریس، تحقیق، مثالوں کے اثرات، صنعتوں سے آمدنی اور بین الاقوامی نکتہ نظر۔

تاہم اس خطے کے دوسرے ملکوں کے تجزیہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے بہت سے ملکوں میں اقتصادی ترقی کی حکمت عملی سے یونیورسٹیوں کو منسلک کردینے سے نسبتاً معیار بہتر ہوا ہے۔

ڈاکٹر شاہد منیر کا کہنا ہے کہ پاکستان برین ڈرین سے بھی متاثر ہے۔ ملک کے پی ایچ ڈی اسکالرز ترقی یافتہ ملکوں میں ملازمتوں کے لیے ملک چھوڑ کر جارہے ہیں۔

انہوں نے کہا ’’ہماری (پاکستان کی) طالبعلم کے ساتھ استاد کے تناسب کی شرح بھی کافی کمزور ہے، یہاں 80 طالبعلموں پر ایک استاد ہے۔ جب استاد ہی نہیں ہوگا تو ہم کیسے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرسکتے ہیں؟‘‘

ڈاکٹر شاہد منیر کے مطابق انگریزی زبان ایک اور مسئلہ ہے، جس نے بین الاقوامی منظرنامے پر پاکستانی یونیورسٹیوں کے کام کو محدود کردیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بہت سی پاکستانی یونیورسٹیاں اردو، پنجابی، سندھی اور پشتو زبانوں کے مقامی ادب میں پی ایچ ڈی تیار کررہی ہیں۔

اس سال کا چارٹ ظاہر کرتا ہے کہ چین جاپان کو پیچھے چھوڑ کر براعظم ایشیا میں اعلیٰ تعلیم کا پاور ہاؤس بن گیا ہے۔

یہ درست ہے کہ ایشیا کی نمبر ون یونیورسٹی یونیورسٹی آف ٹوکیو کا تعلق جاپان سے ہے، تاہم اس سال کی فہرست میں اس کی بہت سی یونیورسٹیوں نے اپنا مقام کھودیا ہے۔

اس سال کی فہرست میں جاپان کی 19 یونیورسٹیاں شامل ہیں، جبکہ پچھلے ساتھ یہ تعداد 20 تھی اور 2013ء میں 22۔

جبکہ چین کی تین نئی یونیورسٹیوں نے ٹاپ 100 کی فہرست میں جگہ حاصل کی ہے، اور یہ پہلا موقع ہے کہ اس کی یونیورسٹیوں کی کل تعداد جاپان سے بڑھ گئی ہے۔

اس فہرست میں اب چین کی 21 یونیورسٹیاں شامل ہیں، پچھلے سال یہ تعداد 18 تھی، جبکہ 2013ء میں 15 یونیورسٹیاں۔

ہانگ کانگ یونیورسٹی نے اپنی تیسری پوزیشن برقرار رکھی ہے۔ ہانگ کانگ کی چھ کی چھ یونیورسٹیاں ٹاپ 50 میں شامل ہیں۔

چین کے شہر ماکاؤ نے پہلی مرتبہ اس فہرست میں جگہ حاصل کی ہے۔ یونیورسٹی آف ماکاؤ کو ٹاپ 100 میں چالیسواں درجہ ملا ہے۔

جنوبی کوریا اس فہرست میں 13 نمائندگیوں کے ساتھ تیسرا سب سے بڑا ملک ہے۔

اس فہرست میں ہندوستان کا ایک نیا ادارہ انڈین انسٹیٹیوٹ آف سائنس 37 ویں درجے کے ساتھ شامل ہوا ہے۔ گزشتہ سال پنجاب یونیورسٹی اس درجے پر تھی۔

آئی آئی ٹی روڑکی کی قیادت میں ہندوستان کے پانچ انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی نے مشترکہ طور پر 55 واں درجہ حاصل کیا ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ٹاپ 100 کی فہرست میں 90 نمبر پر ہہے، اور جواہرلعل نہرو یونیورسٹی 96 نمبر پر۔

گوکہ سنگاپور کی صرف دو یونیورسٹیاں ٹاپ 100 کی فہرست میں شامل ہیں، لیکن ان دونوں نے بلند ترین درجے پر ہیں۔ نیشنل یونیورسٹی آف سنگاپور نے اپنا دوسرا درجہ برقرار رکھا ہے، جبکہ نینیانگ ٹیکنالوجیکل یونیورسٹی ٹاپ 10 میں پہلی مرتبہ منتقل ہوئی ہے۔

میں تھائی لینڈ کی اس سال کی فہرست دو نمائندگی ہے۔ اس کا اعلیٰ درجے کا ادارہ کنگ مونگوٹ یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی تھونبوری پانچ درجہ نیچے گر کر 55ویں درجے پر دیگر اداروں کے اشتراک کے ساتھ کھڑی ہے۔

اس کے بعد ماہیڈول یونیورسٹی ہے جو مسلسل زوال کا شکار ہے، اس فہرست میں نو درجے نیچے گر کر 91ویں نمبر پر ہے۔

ترکی کے چھ ادارے اس سال کی فہرست میں شامل ہوئے ہیں، یہ تمام ٹاپ 50 میں شامل ہیں۔

مشرق وسطیٰ کی ٹیکنیکل یونیورسٹی 17 ویں درجے سے بڑھ کر 12 ویں درجے پر آگئی ہے۔اس کی وجہ اس یونیورسٹی کے بے مثال ریسرچ کے اثرات ہیں۔

اسرائیل کی چار یونیورسٹیاں ٹاپ 100 میں شامل ہیں، 2014ء میں یہ تعداد تین تھی۔

سعودی عرب کی اس فہرست میں دو نمائندگی ہے، کنگ فہد یونیورسٹی آف پٹرولیم اینڈ منرلز71 ویں نمبر پر جبکہ کنگ سعود یونیورسٹی اس سے ایک درجہ پیچھے ہے۔

لبنان کی اس فہرست میں واحد نمائندگی امریکن یونیورسٹی آف بیروت کی ہے، جو دو درجے نیچے گر کر 88ویں درجے پر ہے۔

تبصرے (4) بند ہیں

Muhammad Ayub Khan Jun 11, 2015 09:20pm
Almiyah yeh hey ki pehley 2000 meyN bhi koyi Pakistani university shamil naheiyN hey
Muhammad Ayub Khan Jun 11, 2015 09:30pm
mazeed yeh ki blog meyN ghaltiyaN heyN aor durustgi ki zaroorat hey - brahe karam https://www.timeshighereducation.co.uk/world-university-rankings/2014-15/world-ranking/region/asia ko check kareyN
Shakeel Ahmad Jun 12, 2015 01:55am
"ڈاکٹر شاہد منیر کے مطابق انگریزی زبان ایک اور مسئلہ ہے، جس نے بین الاقوامی منظرنامے پر پاکستانی یونیورسٹیوں کے کام کو محدود کردیا ہے۔" ٹاپ یونیورسٹیوں میں جو چینی اور جاپانی یونیورسٹیاں ہیں کیا وہ انگریزی میں تعلیم دیتی ہیں۔۔ حقیقت یہ ہے کہ انگریزی نے ہی ہمری تعلیم کا بیڑہ غرق کیا ہے۔ ہمارے طالب علموں کی آدھی تعلیمی زندگی صرف انگریزی زبان کو سمجھنے میں گزر جاتی ہے۔
Shakeel Ahmad Jun 12, 2015 01:57am
مسئلہ فنڈز کی کمی کا نہیں بلکہ فنڈز کو صحیح جگہ پر لگانا ہے۔ کرپشن اور حکمت عملی نہ ہونا بھی تعلیمی زوال کا ایک سبب ہے۔