انتخابی ' بدانتظامی' کا ذمہ دار کون؟
یہ پاکستان تحریک انصاف کی تنہا سب سے بڑی کامیابی ثابت ہوسکتی تھی جو اسے آگے بڑھنے میں مدد دتی مگر خیبر پختونخوا میں بلدیاتی انتخابات حکمران جماعت کے لیے سب سے بڑی شرمندگی میں تبدیل ہوگئے۔
حزب اختلاف جس نے 2013 کے انتخابات میں شکست کا منہ دیکھا تھا اور اب تک عمران خان کی پی ٹی آئی کے ہاتھوں سے شرمناک شکست کے اثر سے باہر نہیں نکل سکی تھی، اس سے بہتر موقع کی توقع کرہی نہیں سکتی تھی جو بلدیاتی انتخابات میں عظیم ترین بدانتظامیوں کی شکل میں ملا جس کے نتیجے میں کئی جانیں گئیں، انتشار پھیلا اور دھاندلی کے الزامات سامنے آئے۔
اس زخم کی تکلیف میں مزید اضافہ پی ٹی آئی کی دو اتحادی جماعتوں، جماعت اسلامی اور سنیئر وزیر شہرام ترکئی کی عوامی جمہوری اتحاد نے کیا جنھوں نے اس شور میں شمولیت اختیار کرتے ہوئے اپنی گریہ زاری شروع کردی۔
جے آئی تو ایک قدم آگے بڑھ گئی اور اس نے براہ راست پی ٹی آئی پر ہی دھاندلی اور انتخابی نتائج میں ردوبدل کا الزام عائد کردیا۔
پی ٹی آئی پورے خیبر پختونخوا میں واحد بڑی جماعت کے طور پر ابھر جبکہ اپوزیشن جماعتیں اے این پی، جے یو آئی ایف اور مسلم لیگ ن نے بھی 2013 کے مقابلے میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔
حیرت انگیز طور پر بلدیاتی انتخابات کے نتائج، جس پر اپوزیشن احتجاج کررہی ہے اور پی ٹی آئی کی اتحادی جماعتیں دھاندلی کے الزامات عائد کررہی ہیں، درحقیقت پارٹی کی مقبولیت کے عوامی تصور سے میل کھاتے ہیں۔
تاہم دھاندلی کے الزامات اور تشدد کے خلاف ماتم کے اونچے سر اور اپنے اتحادیوں کی جانب سے آنے والوں آوازوں کو دیکھتے ہوئے پی ٹی آئی نے فوری طور پر الزامات کی انگلی الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب اٹھا دی۔
ای سی پی نے جوابی حملہ کرتے ہوئے کے حکومت پر الزام عائد کیا کہ وہ مطلوبہ سیکیورٹی فراہم کرنے میں ناکام ہوگئی۔
ٹھیک ہے ای سی پی کو گنجائش کے مسائل کا سامنا ہے مگر جب اس نے ملک گیر سطح پر انتخابات کا انعقاد کیا، اگرچہ اس کے اختتام پر لگ بھگ اسی قسم کی خامیوں کا وادیلا مچا اور وہ بھی کے پی کے بلدیاتی انتخابات کے مقابلے میں زیادہ بڑے پیمانے پر، مگر حقیقت تو یہ ہے کہ یہ غلطیاں زیادہ بڑی نہیں، دیگر مسائل بشمول کہ اس سطح کے انتخابات ایک دن میں ہونے چاہئے یا نہیں، وہ اتنے بڑے نہیں کہ اتنے بڑے ہنگامے کا باعث بن جائیں۔
مسئلہ کسی اور چیز میں چھپا ہوا ہے۔ سچ حکومت کے اندرونی دستاویزات اور ضلعی ریٹرننگ افسران کے جمع کردہ خطوط میں چھپا ہوا ہے۔
یہ بات حکمران پی ٹی آئی کے لیے بالکل واضح ہے کہ ان انتخابات کا ضلعی انتظامیہ کے تحت انعقاد جسے سیکیورٹی وجوہات کی بناءپر پولیس کا تعاون حاصل تھا، پوری مشق کو سوالیہ نشان بناتے ہیں اور ایسا ہی ہوا۔
پولیس کو 350 ملین روپے انتخابات کے دن سیکیورٹی فراہم کرنے کے لیے دیئے گئے اور فورس نے اپنے اہلکاروں کی تعیناتی کا پلان بھی مرتب کیا جس میں انتہائی حساس، حساس اور عام پولنگ اسٹیشنز پر ضلعی انتظامیہ اور انٹیلی جنس اداروں کے تجزیوں کی بنیاد پر اہلکاروں کی تعیناتی کی شرح دی گئی۔
تاہم تعینات پولیس اہلکاروں کی تعداد ضرورت کے مطابق کم تھی۔ حکومت کے ایک اندرونی تجزیے سے انکشاف ہوتا ہے کہ وادی پشاور کے تمام پانچ اضلاع پشاور، چارسدہ، نوشہرہ، مردان اور صوابی میں تعینات پولیس اہلکاروں کی تعداد مجوزہ منصوبے سے 25 فیصد کم تھی، یہ وہ حقیقت ہے جس کا اعتراف وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے اپنی کثیر الجماعتی کانفرنس کے دوران کیا۔
یہ وہ اضلاع ہیں جہاں تشدد اور دھاندلی کے واقعات کا شور بلند ہوا، پولیس یا تو صورتحال کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہی یا محض راہ گیر کا کردار ادا کرتی رہی۔
ڈپٹی کمشنرز جو کہ ضلعی ریٹرننگ افسران کا کام بھی کررہے تھے، اپنے کام کے ساتھ انصاف کرنے میں ناکام رہے اور وزیراعلیٰ بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے اپنی رپورٹ میں ایک ڈپٹی کمشنر کی کوتاہیوں کی جانب نشاندہی کرتے ہیں جس کا نتیجہ اس کے خلاف فوجداری مقدمے کی شکل میں نکل سکتا ہے۔
اگر وہان خامیاں تھیں، اگر عملہ ناکافی اور غیر تربیت یافتہ تھا اور اگر بیلٹ پیپرز کم پڑگئے یا بروقت پہنچ نہیں سکے، یا اگر سیلز یا نشانات گمشدہ تھے تو ضلعی ریٹرننگ افسران کو ان مسائل کو ای سی پی کے علم میں لانا چاہئے تھا۔
اس کے برعکس ایک بڑے ضلع کے ضلعی ریٹرننگ افسر پولنگ کے روز سوتے ہوئے پائے گئے اور اعلیٰ صوبائی انتظامیہ کو متعدد فون کالز کرکے انہیں تلاش کرنا اور صبح گیارہ بجے اٹھانا پڑا۔
ایسے الزامات ہیں کہ حساس حلقوں میں نشانات دس ہزار روپے فی پیس فروخت ہوئے جبکہ امیدوارون اور بیلٹ پیپرز کی نقول پچیس سے ساٹھ ہزار روپے میں دستیاب تھیں، جبکہ عملے کو ان کی درخواست پر تعینات کیا گیا۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ اگرچہ تیکنیکی طور پر ضلعی ریٹرننگ افسران ای سی پی کے تھت تھے مگر یاد رکھنا چاہئے کہ وہ ڈپٹی کمشنرز بھی تھے جو دباﺅ کے سامنے کمزور ثابت ہوئے۔
کے پی کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک تسلیم کرتے ہیں " یہ ماننا پڑے گا کہ انتخابات میں بدانتظامی ہوئی ہے اور ایسا ایک وجہ سے ہوا کہ انتخابی عمل کے لیے کوئی تیاریاں نہیں تھیں اور کوئی انتظامیہ موجود نہیں تھی"۔
ان کا مزید کہنا تھا "ای سی پی کی جانب سے بھی غلطیاں ہوئیں مگر ضلعی ریٹرننگ افسران کی جانب سے بھی غلطیاں ہوئین جو کہ ڈپٹی کمشنرز بھی تھے، ہم اس معاملے کو دیکھ رہے ہیں اور اس پر ایکشن لیں گے"۔
وزیراعلیٰ غنڈا گردی اور تشدد کا الزام اپوزیشن جماعتوں خاص طور پر اے این پی کے سر پر رکھتے ہیں " یہ سب پہلے سے کی گئی منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے"۔
مگر یہ انتخابات جن کے بارے میں ڈھنڈورا پیٹا جارہا تھا کہ یہ عوام کو اختیارات دینے اور نچلی سطح پر انقلاب دینے کے لیے ہے اور جس کا انعقاد باریک بینی سے تیار کردہ قانون کے ذریعے ہوا، شرمندگی میں تبدیل ہوگئے۔ انتخابی عمل نے پی ٹی آئی کے شفاف چہرے کو دھندلا دیا، جو اگرچہ ابتدا میں الزمات لگانے کے موڈ میں تھی، تاہم اس نے فوری طور پر عدلیہ یا فوج کی زیرنگرانی دوبارہ انتخابات کی پیشکش کردی۔
اس پیشکش کو قبول کرنے کی بجائے اپوزیشن نے کچھ زیادہ ہی جوش میں یہ الزامات لگائے کہ حکومت حکمرانی کے لیے اپنی اخلاقی اتھارٹی سے محروم ہوچکی ہے اور اس کے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا جانے لگا، جو کہ پی ٹی آئی کے اپنے مطالبے کی بازگشت ہے جو انہوں نے اسلام آباد میں کنٹینر کے اوپر وزیراعظم نواز شریف سے استعفیٰ مانگتے ہوئے کیا۔
اے این پی کے رہنماءمیاں افتخار حسین کہتے ہیں " پی ٹی آئی نے ایک چیونگم کو چبالیا ہے، یہ سب روایتی بیانات ہیں اور اس کی جانب سے کسی نئی چیز کی پیشکش نہیں کی گئی"۔
تو کیا یہی وجہ ہے جس نے اپوزیشن کو سخت گیر مﺅقف اپنانے پر مجبور کیا؟ اپوزیشن جماعتوں کا کہنا ہے کہ بلدیاتی انتخابات کے دوران پی ٹی آئی کی بدزبانیوں کا طریقہ کار مخصوص ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے۔
افتخار حسین کے مطابق " پی ٹی آئی بتدریج ایک فاشسٹ پارٹی کی شکل میں ڈھل رہی ہے اور ہم فکر مند ہیں کہ اگر ہم نے اس کی آمرانہ پالیسیوں پر ابھی بریک نہیں لگائے تو دیگر سیاسی جماعتوں کی بقاءداﺅ پر لگ جائے گی"۔
وہ اصرار کرتے ہیں " کیا ہم نے دباﺅ نہیں ڈالا، میرا نہیں خیال کہ پی ٹی آئی نے نئے انتخابات کی پیشکش کی ہے، مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہم ان پر اعتماد کرسکتے ہیں؟ نہیں ہم نہیں کرسکتے"۔
بظاہر یا تو اپوزیشن جماعتیں بلدیاتی انتخابات کے نتائج کو کچھ زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کررہی ہین تاکہ پرویز خٹک کی حکومت کے استعفے کے لیے پچ تیار کی جاسکے یا وہ سیدھے سادے انداز سے پرانی سیاست کا کھیل، کھیل رہی ہے تاکہ حکمران اتحاد کے اقتدار کے باقی ماندہ عرصے کو خراب کیا جاسکے۔
مگر بدھ کی شٹرڈاﺅن ہڑتال کا نتیجہ اگر کچھ سامنے آیا ہے تو وہ یہ ہے کہ کے پی کے عوام جو ایک دہائی سے زائد عرصے سے دہشتگردی، خونریزی اور احتجاجی سیاست سے متاثر رہے ہیں، وہ اس طرح کی کالز پر کان دھرنے کے لیے تیار نہیں، کم از کم ابھی تو بالکل نہیں۔











لائیو ٹی وی