سلطان خان: شطرنج کی دنیا کا بھلایا ہوا کردار

اپ ڈیٹ 06 اگست 2015
میر سلطان خان مشیل ہیسٹنگز کے ساتھ شطرنج کھیلتے ہوئے۔ 29 دسمبر 1930۔ فوٹو بشکریہ: Luc Winants (Boirs, Belgium).
میر سلطان خان مشیل ہیسٹنگز کے ساتھ شطرنج کھیلتے ہوئے۔ 29 دسمبر 1930۔ فوٹو بشکریہ: Luc Winants (Boirs, Belgium).

شطرنج کا آسٹرین چیمپیئن کموچ اس وقت غصے میں تھا۔ وہ شطرنج کے ایک عالمی مقابلے میں اپنے مخالف کھلاڑی سے تین مرتبہ پوچھ چکا تھا کہ کیا وہ یہ گیم ڈرا کرنا چاہتا ہے، لیکن مخالف کھلاڑی ہر مرتبہ اس کی بات سن کر مسکرا دیتا۔ کموچ چلایا ’آخر تمہارا یہ چیمپیئن کون سی زبان سمجھتا ہے؟‘ ’صرف شطرنج کی‘ میں نے جواب دیا۔ اور پھر کچھ چالوں کے بعد آسٹرین چیمپیئن کموچ کو ہار تسلیم کرنی پڑی۔

(ولیم ونٹر، شطرنج کے عظیم برطانوی کھلاڑی)

کموچ کو ہرانے والے شخص میر سلطان خان (66-1905) تھے جو پنجابی کے علاوہ کسی اور زبان کو مشکل ہی سے سمجھتے تھے۔ میر سلطان خان کا تعلق سرگودھا کے قریب واقع ایک چھوٹے سے گاؤں سے تھا۔ وہ مہاراجہ ملک سر عمر حیات خان کے معمولی ملازم تھے جو ان کی حویلی میں چھوٹے موٹے کام کرتے تھے۔ میر سلطان خان نے 1928 میں ہندوستانی شطرنج کی چمپیئن شپ جیتی اور 1929 میں سر عمر حیات خان انہیں اپنے ساتھ انگلینڈ لے آئے۔

انگلینڈ میں انہوں نے چار سال بتائے اور اس عرصے میں انہوں نے دنیا کے عظیم کھلاڑیوں کو ہرا کر سب کو حیران کر دیا۔ بعد میں وہ اپنے ’مالک‘ کے ساتھ واپس ہندوستان لوٹ آئے اور شطرنج کے کھیل کو ہمیشہ کے لیے خیرباد کہہ دیا۔ میر سلطان خان نہ صرف انگریزی زبان سے ناواقف تھے بلکہ وہ شطرنج کے عالمی قوانین بھی نہیں جانتے تھے۔ اس وقت ہندوستان میں شطرنج مختلف طریقے سے کھیلی جاتی تھی۔ انگریزی سے عدم آگاہی کی وجہ سے انہیں شطرنج کے عالمی قوانین سیکھنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑا اور ان کے مخالفین بتاتے ہیں کہ وہ کبھی بھی چیس نوٹیشن نہیں سیکھ پائے۔

میر سلطان کو انگلستان کا موسم بھی شدید ناپسند تھا۔ برطانیہ میں قیام کے دوران وہ یخ بستہ موسم کے باعث زکام اور بخار وغیرہ میں مبتلا رہتے تھے۔ جب وہ مقابلوں میں شریک ہونے کے لیے آتے تو انہوں نے خود کو سردی سے بچانے کے لیے گلے میں بڑا سا مفلر پہنا ہوتا تھا۔ وہ اکثر سر پر بڑی سی پنجابی پگڑی پہن کر بھی شطرنج کے عالمی مقابلوں میں شریک ہوتے تھے۔

عالمی شطرنج میں سلطان خان کی کامیابیاں آج بھی کسی معمے سے کم نہیں۔ انہوں نے یورپ میں رہتے ہوئے دو مرتبہ برٹش چیس چیمپیئن شپ جیتی۔ عالمی چیس چیمپیئنز الیگزینڈر الیکائن اور کیپا بلانکا کا شمار آج بھی دنیا کے عظیم ترین کھلاڑیوں میں ہوتا ہے۔ میر سلطان نے ان دونوں کو ہرا کر سب کو حیران کر دیا۔ ان حیرت انگیز فتوحات کے باوجود سلطان خان کی عجز و انکساری میں کوئی کمی نہیں آئی۔

ریوبن فائن امریکی گرینڈ ماسٹر اور ماہر نفسیات تھا۔ وہ اپنی ایک کتاب میں میر سلطان خان سے ملاقات کا واقعہ بڑے دلچسپ انداز میں بیان کرتا ہے۔ ’جب ہم مہاراجہ کے گھر میں داخل ہوئے تو انہوں نے مسکرا کر ہمارا استقبال کیا اور کہا کہ آپ بہت خوش قسمت ہیں کہ میں آپ سے ملاقات کر رہا ہوں ورنہ میں یہ وقت اپنے گرے ہاؤنڈز (کتوں) کے ساتھ گزارنا زیادہ پسند کرتا ہوں۔ پھر مہاراجہ نے ہمیں ایک مختصر سا کتابچہ پیش کیا جس میں ان کی زندگی اور کارناموں کے بارے میں تفصیلات درج تھیں۔ اب تک ہمیں اندازہ ہو چکا تھا کہ اس کا سب سے بڑا کارنامہ یہی ہے کہ وہ مہاراجہ بن کر پیدا ہوا ہے۔ اسی اثناء میں میر سلطان خان نمودار ہوا جو ہمارا اصلی میزبان تھا۔ مہاراجہ اس کے ساتھ ایسا سلوک کر رہا تھا جیسا غلاموں کے ساتھ برتا جاتا ہے۔ اور ہم ایک عجیب صورتحال کا سامنا کر رہے تھے جس میں شطرنج کا گرینڈ ماسٹر ہمارے لیے بیرے کے طور پر کام کر رہا تھا۔‘

ریوبن فائن شاید درست کہتے تھے کہ مہاراجہ بن کر پیدا ہونا عمر حیات صاحب کا بڑا کارنامہ تھا، لیکن یہ ان کا واحد کارنامہ نہیں تھا۔ انہوں نے سلطان خان کو شطرنج کے بین الاقوامی منظرنامے پر روشناس کروایا اور اپنی ایک اور ملازمہ فاطمہ کو بھی خواتین کی شطرنج کے عالمی مقابلوں میں شریک ہونے کا موقع دیا۔ فاطمہ 1933 میں برٹش ویمن چیس چیمپین شپ کھیلیں جسے انہوں نے باآسانی جیت لیا۔ فاطمہ سلطان خان کے بارے میں کہتی ہیں کہ جب وہ برطانیہ سے واپس لوٹے تو بہت خوش تھے۔ ان کے نزدیک انگلینڈ کے موسم کی قید سے رہائی مل گئی۔

سلطان خان کے بڑے بیٹے بتاتے ہیں کہ ان کے والد نے نہ صرف خود شطرنج کو خیرباد کہہ دیا تھا، بلکہ وہ اپنے بچوں کو بھی شطرنج سے دور رکھتے تھے۔ وہ انہیں ہدایت کرتے کہ شطرنج کھیلنے کے بجائے انہیں کوئی اچھا کام کرنا چاہیے۔ ہمارے ہاں تو خیر کرکٹ کا کھیل کھیلنے والے کھلاڑیوں کو ہی ہیرو مانا جاتا ہے، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ شطرنج کے عالمی مقابلوں کو جیتنے کے باوجود ورلڈ چیس فیڈریشن نے انہیں گرینڈ ماسٹر کے خطاب سے نہیں نوازا، تاہم ان کے ہم عصر عظیم کھلاڑی انہیں ایشیاء کا پہلا گرینڈ ماسٹر تسلیم کرتے ہیں۔

بشکریہ: پنجاب لوک سجاگ ساہیوال.

تبصرے (4) بند ہیں

Sabahat Aug 06, 2015 05:58pm
Good piece of work. Thoroughly enjoyed reading it. Very different from what we read everyday
Waseem Aug 06, 2015 06:34pm
بہت عمدہ کاشف۔۔ جیتے رہئے۔۔
anees Aug 07, 2015 11:36am
very amazed to know about our legend ! really good work
haroon kamran Aug 07, 2015 01:09pm
ایشیا کے پہلے گرینڈ ماسٹر سر شیخ محمد اکرم (انارکلی لاہور والے ) تھے وہ پاکستان بننے کے بعد بھی پاکستان کے پہلے قومی چیمپئن تھے اور ان کی زندگی میں اُن کو کسی نے نہیں ہرایا تھا، اُن کے بارے میں تحقیق کریں اور لکھیں، کہا جاتا ہے کے جوانی میں وہ ایک حادثے کا شکار ہو کر ہسپتال گئے تھے اور وہاں انہوں نے شطرنج سیکھی اور پھر کیا ہندوستان کیا انگلستان سب جگہ اپنی قابلیت کے جھنڈے گاڑے