• KHI: Fajr 5:27am Sunrise 6:46am
  • LHR: Fajr 5:04am Sunrise 6:27am
  • ISB: Fajr 5:11am Sunrise 6:36am
  • KHI: Fajr 5:27am Sunrise 6:46am
  • LHR: Fajr 5:04am Sunrise 6:27am
  • ISB: Fajr 5:11am Sunrise 6:36am
شائع November 30, 2015

سوات کا تاریخی و تہذیبی گاؤں ’’گوگدرہ‘‘ اپنے دامن میں پانچ ہزار سال کی تاریخ سموئے ہوئے ہے لیکن اب آثار قدیمہ و ثقافتی ماہرین کو خدشہ لاحق ہے کہ یہاں کے تاریخی و تہذیبی آثار بہت جلد صفحہ ہستی سے مٹ جائیں گے۔

گاؤں گوگدرہ، پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع سوات کے مرکزی شہر مینگورہ سے تقریباً آٹھ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ گوگدرہ کو پہاڑوں کے دامن میں واقع ایک چھوٹی سی خوبصورت وادی بھی کہا جا سکتا ہے۔

مقامی پہاڑی سے گاؤں گوگدرہ کی لی گئی ایک تصویر — تصویر لکھاری
مقامی پہاڑی سے گاؤں گوگدرہ کی لی گئی ایک تصویر — تصویر لکھاری
سوات میں ہندو شاہی کے آخری دور کی ایک عمارت جو اپنی خستہ حالی پر نوحہ کناں ہے — تصویر لکھاری
سوات میں ہندو شاہی کے آخری دور کی ایک عمارت جو اپنی خستہ حالی پر نوحہ کناں ہے — تصویر لکھاری

گاؤں کی وجہ تسمیہ کے حوالے سے سوات کے نواحی علاقہ درشخیلہ کے محقق وکیل حکیم زئے نے اپنی کتاب ’’دغہ زمونگ کلے دے‘‘ کے صفحہ نمبر اکیاسی پر پشتو زبان میں ذکر کیا ہے، جس کا مفہوم کچھ یوں بنتا ہے:’’گوگدرہ در اصل ’’گوگا درہ‘‘ تھا جو وقت کے ساتھ بگڑ کر اب گوگدرہ بن گیا ہے۔ بدھ مت والے ’’گوگا‘‘ کو اپنا دیوتا مانتے ہیں اور درہ کے معنی وادی کے ہیں۔ اس لحاظ سے ’’گوگا درہ‘‘ کے معنی گوگا کی وادی بنتے ہیں۔‘‘

دو منزلہ ہال کا منظرجو اپنے وقت کی انجینئرنگ کی شاہکار عمارت گردانی جاتی ہے — تصویر لکھاری
دو منزلہ ہال کا منظرجو اپنے وقت کی انجینئرنگ کی شاہکار عمارت گردانی جاتی ہے — تصویر لکھاری
ہال کا اندرونی منظر جس کی چھت اور عین سامنے روشنی اور تازہ ہوا کے لئے بنائی گئی جگہ صاف دکھائی دے رہی ہے — تصویر لکھاری
ہال کا اندرونی منظر جس کی چھت اور عین سامنے روشنی اور تازہ ہوا کے لئے بنائی گئی جگہ صاف دکھائی دے رہی ہے — تصویر لکھاری
روشنی اور ہوا کے لئے بنائی گئی جگہ  — تصویر لکھاری
روشنی اور ہوا کے لئے بنائی گئی جگہ — تصویر لکھاری

سنہ 1956 میں اٹلی کے ماہر آثار قدیمہ پروفیسر ٹوچی نے سوات میں آثار قدیمہ کے حوالے سے کئی اہم جگہیں دریافت کیں جن میں سے ایک گاؤں گوگدرہ میں پہاڑ کے دامن میں دیوار نما بڑے پتھروں پر پرانی شبیہوں کی دریافت بھی ہے۔

اس اہم ترین دریافت کا زمانہ سولہ تا چوتھی صدی قبل مسیح گردانا جاتا ہے۔ ایک اور روایت کے مطابق بدھ مت اور ہندو شاہی تہذیب سے پہلے یہاں ’’دارد تہذیب‘‘ (Dardic Civilization) بھی ہو گزری ہے۔

دس سال پہلے اس حوالے سے ایک بڑا قبرستان دریافت کیا جاچکا ہے۔ اس تہذیب کے حوالے سے گمان کیا جا رہا ہے کہ یہ پانچ ہزار سال پرانی ہے۔ باالفاظ دیگر آج کے گوگدرہ کی تاریخ پانچ ہزار سال پرانی ہے۔ اس زمین پر کئی تہاذیب نے پرورش پائی ہے۔اس تاریخی حوالے سے گاؤں کے بیشتر لوگ ناواقف ہیں اور مخصوص ذہنیت کی وجہ سے یہاں پائے جانے والے آثار کو کچھ خاص اہمیت نہیں دیتے۔

وہ دیوار نما پتھر جس پر ہزاروں سال پرانی شبیہوں کو کندہ کیا گیا ہے — تصویر لکھاری
وہ دیوار نما پتھر جس پر ہزاروں سال پرانی شبیہوں کو کندہ کیا گیا ہے — تصویر لکھاری
کسی جانور کی بنائی گئی شبیہ — تصویر لکھاری
کسی جانور کی بنائی گئی شبیہ — تصویر لکھاری

گوگدرہ گاؤں میں مین روڈ سے کوئی دو سو میٹر کے فاصلے پر پہاڑ کے دامن میں دیوار نما پتھروں پر کل ایک سو سترہ شبیہ کندہ کی گئی ہیں جن میں تقریباً اکہتر مختلف جانوروں کی ہیں۔ اس کے علاوہ سترہ اس وقت کے عام استعمال کی مختلف چیزوں کی ہیں اورباقی ماندہ انتیس ایسی ہیں جن کی اب تک کوئی پہچان نہیں ہو پائی ہے۔

عجیب بات یہ ہے کہ اس پہاڑی پر اتنی بڑی تعداد میں کندہ شدہ شبیہوں میں سے صرف ایک ایسی ہے جس پر ایک انسان کے ہل چلانے کا گمان ہوتاہے۔ اس کے علاوہ ذکر شدہ ایک سو سترہ شبیہوں میں سے ایک بھی انسان کا نہیں ہے۔

پہاڑی کے دامن میں ایک بڑے پتھر پر کندہ شدہ شبیہ — تصویر لکھاری
پہاڑی کے دامن میں ایک بڑے پتھر پر کندہ شدہ شبیہ — تصویر لکھاری
ایک پتھر پر کندہ شدہ مجسمے جو سوات میں ہندوشاہی کے آخری دور کی نشانی ہیں — تصویر لکھاری
ایک پتھر پر کندہ شدہ مجسمے جو سوات میں ہندوشاہی کے آخری دور کی نشانی ہیں — تصویر لکھاری

ان شبیہوں کی خاص بات یہ ہے کہ ان کو دیکھنے کے لئے باقی ماندہ آثار کی طرح پہاڑوں پر چڑھنا نہیں پڑتا بلکہ یہ جی ٹی روڈ سے تقریباً دو سو میٹر کے فاصلے پرپہاڑ کے دامن میں واقع ہیں۔ ان کے گرد اٹالین مشن نے لوہے کا ایک جنگلا لگایا ہے مگر اسے ہر چھوٹا بڑا باآسانی عبور کرسکتا ہے۔

اہل علاقہ چوں کہ ان آثار کی اہمیت سے واقف نہیں ہیں اور ان کو اس حوالے سے کوئی خاص آگاہی بھی نہیں دی گئی ہے۔ اس لئے ان کے ارد گرد کوڑا کرکٹ کے علاوہ بھینس، گھوڑوں اور خچروں کی لید وغیرہ پھینکی جاتی ہے جس کی وجہ سے یہاں سانس لینا بھی دشوار ہوتا ہے۔ اس طرح یہ آثار چوں کہ نشیب میں ہیں۔ اس لئے بارش کا پانی جوہڑ کی شکل میں آثار کی حدود میں کھڑا رہتا ہے۔ سوات کے دیگر علاقوں کی طرح گوگدرہ گاؤں میں بھی بارشیں خوب برستی ہیں اور موسم معتدل ہونے کی وجہ سے پانی زیادہ دیر تک کھڑا رہتا ہے۔

ایک اور شبیہ جس کی پہچان مشکل ہے — تصویر لکھاری
ایک اور شبیہ جس کی پہچان مشکل ہے — تصویر لکھاری
ایک اور جانور کی بنائی گئی شبیہ — تصویر لکھاری
ایک اور جانور کی بنائی گئی شبیہ — تصویر لکھاری

گاؤں کا جواں سال رہائشی شمشیر ان آثار کی خستہ حالی اور تعفن بھرے ماحول سے نالاں ہے۔ ان کے مطابق ’’اول اول بچے راہ چلتے ہوئے ان شبیہوں کو پتھر اور شیشے کی بوتلیں مارا کرتے تھے۔ پھر ہم نے زیادہ تر بچوں کو اس کی تاریخی حیثیت سے آگاہ کیا اور ساتھ ساتھ یہ بھی بتایا کہ قرآن شریف میں دوسرے مذاہب کے آثار یا مقدس جگہوں کی حفاظت کا کہا گیا ہے۔‘‘

شمشیر نے ایک ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ بچے تو جیسے تیسے بات مان لیتے ہیں مگر گاؤں کے بڑوں کو کون سمجھائے، جو تمام گاؤں کا کوڑا کرکٹ اور جانوروں کی فضلہ تک اٹھا کر یہاں ڈال دیتے ہیں جس کی وجہ سے یہاں اتنی بدبو ہوتی ہے کہ باہر سے آنے والوں سیاحوں اور آثار قدیمہ سے شغف رکھنے والوں کا سانس لینا تک محال ہوتا ہے۔

پتھر میں کندہ شدہ شبیہ واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہیں — تصویر لکھاری
پتھر میں کندہ شدہ شبیہ واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہیں — تصویر لکھاری
ایک اور شبیہ جس کی بھی پہچان مشکل ہے — تصویر لکھاری
ایک اور شبیہ جس کی بھی پہچان مشکل ہے — تصویر لکھاری

’’ہم حکومت وقت سے گزارش کرتے ہیں کہ کم از کم یہاں ایک سیکورٹی گارڈ کی ڈیوٹی لگا دی جائے، جو اِن تاریخی آثار کی حفاظت کے ساتھ ساتھ یہاں گند پھینکنے والوں کو بھی روکا کرے۔ تاکہ مہذب دنیا میں ہمارا تمسخر نہ اڑے۔ یہ آثار اگر کسی یورپی ملک میں ہوتے، تو ان تک پکی سڑک تعمیر کی جاتی، لوگ ٹکٹ خرید کر یہاں آتے، یہاں ہوٹل اور ریسٹورانٹ ہوتے۔ نتیجتاً مقامی لوگ خوشحال زندگی گزارتے۔ مگر افسوس کہ ہمارے ملک کی ترجیحات میں تاریخی آثار کو محفوظ کرنا شامل نہیں ہے۔ ‘‘

دوسرے پتھر پر کندہ شدہ شبیہ — تصویر لکھاری
دوسرے پتھر پر کندہ شدہ شبیہ — تصویر لکھاری

سوات کے محقق فضل خالق جنہوں نے حالیہ سوات کے آثار قدیمہ پر انگریزی زبان میں ایک تحقیقی مقالہ ’’اودھیانہ کنگڈم‘‘لکھا ہے، کے مطابق گاؤں گوگدرہ آثار قدیمہ کے لحاظ سے مشہور علاقہ ہے۔ ’’گوگدرہ میں ہزاروں سال پرانی شبیہوں کے علاوہ’’سر کوٹھے‘‘ یا ’’کافرو کوٹھے‘‘ بدھ مت اور ہندو شاہی کے آخری دور کی عکاسی کرتے ہیں۔ یہاں سائنسی بنیادوں پر کھدائی نہیں ہوئی ہے، مگر جو آثار نظر آ رہے ہیں، ان کے ساتھ ایک بڑا چشمہ ہے۔ ساتھ ساتھ بدھ مت دور اور پھر ہندوشاہی دور کا بنایا گیا راستہ بھی ہے۔‘‘

سرکوٹھے اور کافرو کوٹھے پشتو زبان کے الفاظ ہیں جن کے معنی ’’چوٹی پر قائم کوٹھے‘‘ اور ’’کافروں کے کوٹھے‘‘ کے ہیں۔

زیر نظر تصویر میں کئی شبیہوں کو ایک ساتھ دیکھا جاسکتا ہے — تصویر لکھاری
زیر نظر تصویر میں کئی شبیہوں کو ایک ساتھ دیکھا جاسکتا ہے — تصویر لکھاری

فضل خالق کے مطابق یہ ایک رہائشی جگہ تھی۔’’اس کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں دو منزلہ ہال آج تک اسی حالت میں موجود ہے۔ اس کے اندر روشنی اور ہوا کے نظام کو دیکھ کر اس بات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ اس دور کی انجینئرنگ کی شاہکار عمارت تھی۔ یہاں بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ سر کوٹھے یا کافرو کوٹھے محض رہائشی عمارتیں تھیں، اس میں کوئی اسٹوپا نہیں تھا یا پھر یہ جگہ خانقاہ نہیں تھی۔ اس لئے اسے زیادہ اہمیت نہیں دی گئی۔ اب یہ آثار چوں کہ لوگوں کی ذاتی ملکیت میں ہیں، اس لئے روز بروز ان کی حالت بگڑتی جا رہی ہے۔‘‘

امجد علی سحاب

امجد علی سحابؔ روزنامہ آزادی اسلام آباد اور باخبر سوات ڈاٹ کام کے ایڈیٹر ہیں۔ اردو بطور مضمون پڑھاتے ہیں، اس کے ساتھ فری لانس صحافی بھی ہیں۔ نئی دنیائیں کھوجنے کے ساتھ ساتھ تاریخ و تاریخی مقامات میں دلچسپی بھی رکھتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (9) بند ہیں

Noor Nov 30, 2015 07:27pm
یہ تو ہمارا گاؤں ہے۔ کتنا پیارا لگ رہا ہے!
احسان علی خان Nov 30, 2015 07:41pm
زبردست سر۔۔ آپ نے گوگدرہ کی ایسی تاریخ کا ذکر کیا ہے جس کا مجھ سمیت خود گوگدرہ کے مکینوں کو علم نہیں۔
Bilal Nov 30, 2015 09:20pm
Highly informative. Have seen the place.
Aman uddin Khan Nov 30, 2015 09:29pm
سوات مختلف تہذیبوں کا مرکز رہ چکا ہے۔لیکن حکومتوں کے کم فہمی اور خودغرضی کیوجہ سے اج یہ تاریخی ورثی تباہی کے دہانے پر ہیں۔میں دنیانیوز کا اور خصوصا امجدعلی سحاب کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ ہم جیسے کم علم اور تاریخ سے لاپرواہ لوگوں کو اج ایک بار پھر سوات کے تاریخ کے ایک عظیم باب سے اشنا کرایا۔ سوات کے اس سپوت کو اس تحقیق اور تحریر لکھنے پر خراج تحسین پیش کرتا ہوں اور توقع رکھتا ہوں کہ حسب سابق سوات کے تاریخ اور کلچر کے حوالے سے اپناتحقیق اور تحریر جاری رکھ کر ہم جیسے تاریخ کے طالب علموں کا اپنے تحریروں اور تحقیقوں سے پیاس بجاتا رہیگا۔
Muhammad Waqas Nov 30, 2015 10:40pm
بہت زبردست جناب۔ سوات کے ایک اور تاریخی مقام کے بارے میں ایک سیر حاصل معلوماتی اور چشم کشا تحریر۔ اس جیسے پتہ نہیں کتنے ان گنت پہلو باقی ہیں جس سے ہم فیض حاصل نہیں کررہے۔ شکریہ امجد علی سحاب آپ کا اور آپ کے ٹیم کا۔
[email protected] Dec 01, 2015 07:44am
@Bilal welcome dear any time
[email protected] Dec 01, 2015 07:45am
Some time I am thinking
Hamza Rahman Dec 01, 2015 11:26am
Really Nostalgic views Dear Sir.. While studying the above mention info was kinda walking through that historical period.. :) Really absorbed and enjoyed.. :)
Javid Ahmad Dec 01, 2015 02:52pm
میری دیس کی مٹی سونا۔ شکریہ ڈان اور شکریہ سحاب صاحب۔