سوات کا تاریخی و تہذیبی گاؤں ’’گوگدرہ‘‘ اپنے دامن میں پانچ ہزار سال کی تاریخ سموئے ہوئے ہے لیکن اب آثار قدیمہ و ثقافتی ماہرین کو خدشہ لاحق ہے کہ یہاں کے تاریخی و تہذیبی آثار بہت جلد صفحہ ہستی سے مٹ جائیں گے۔
گاؤں گوگدرہ، پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع سوات کے مرکزی شہر مینگورہ سے تقریباً آٹھ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ گوگدرہ کو پہاڑوں کے دامن میں واقع ایک چھوٹی سی خوبصورت وادی بھی کہا جا سکتا ہے۔
گاؤں کی وجہ تسمیہ کے حوالے سے سوات کے نواحی علاقہ درشخیلہ کے محقق وکیل حکیم زئے نے اپنی کتاب ’’دغہ زمونگ کلے دے‘‘ کے صفحہ نمبر اکیاسی پر پشتو زبان میں ذکر کیا ہے، جس کا مفہوم کچھ یوں بنتا ہے:’’گوگدرہ در اصل ’’گوگا درہ‘‘ تھا جو وقت کے ساتھ بگڑ کر اب گوگدرہ بن گیا ہے۔ بدھ مت والے ’’گوگا‘‘ کو اپنا دیوتا مانتے ہیں اور درہ کے معنی وادی کے ہیں۔ اس لحاظ سے ’’گوگا درہ‘‘ کے معنی گوگا کی وادی بنتے ہیں۔‘‘
سنہ 1956 میں اٹلی کے ماہر آثار قدیمہ پروفیسر ٹوچی نے سوات میں آثار قدیمہ کے حوالے سے کئی اہم جگہیں دریافت کیں جن میں سے ایک گاؤں گوگدرہ میں پہاڑ کے دامن میں دیوار نما بڑے پتھروں پر پرانی شبیہوں کی دریافت بھی ہے۔
اس اہم ترین دریافت کا زمانہ سولہ تا چوتھی صدی قبل مسیح گردانا جاتا ہے۔ ایک اور روایت کے مطابق بدھ مت اور ہندو شاہی تہذیب سے پہلے یہاں ’’دارد تہذیب‘‘ (Dardic Civilization) بھی ہو گزری ہے۔
دس سال پہلے اس حوالے سے ایک بڑا قبرستان دریافت کیا جاچکا ہے۔ اس تہذیب کے حوالے سے گمان کیا جا رہا ہے کہ یہ پانچ ہزار سال پرانی ہے۔ باالفاظ دیگر آج کے گوگدرہ کی تاریخ پانچ ہزار سال پرانی ہے۔ اس زمین پر کئی تہاذیب نے پرورش پائی ہے۔اس تاریخی حوالے سے گاؤں کے بیشتر لوگ ناواقف ہیں اور مخصوص ذہنیت کی وجہ سے یہاں پائے جانے والے آثار کو کچھ خاص اہمیت نہیں دیتے۔
گوگدرہ گاؤں میں مین روڈ سے کوئی دو سو میٹر کے فاصلے پر پہاڑ کے دامن میں دیوار نما پتھروں پر کل ایک سو سترہ شبیہ کندہ کی گئی ہیں جن میں تقریباً اکہتر مختلف جانوروں کی ہیں۔ اس کے علاوہ سترہ اس وقت کے عام استعمال کی مختلف چیزوں کی ہیں اورباقی ماندہ انتیس ایسی ہیں جن کی اب تک کوئی پہچان نہیں ہو پائی ہے۔
عجیب بات یہ ہے کہ اس پہاڑی پر اتنی بڑی تعداد میں کندہ شدہ شبیہوں میں سے صرف ایک ایسی ہے جس پر ایک انسان کے ہل چلانے کا گمان ہوتاہے۔ اس کے علاوہ ذکر شدہ ایک سو سترہ شبیہوں میں سے ایک بھی انسان کا نہیں ہے۔
ان شبیہوں کی خاص بات یہ ہے کہ ان کو دیکھنے کے لئے باقی ماندہ آثار کی طرح پہاڑوں پر چڑھنا نہیں پڑتا بلکہ یہ جی ٹی روڈ سے تقریباً دو سو میٹر کے فاصلے پرپہاڑ کے دامن میں واقع ہیں۔ ان کے گرد اٹالین مشن نے لوہے کا ایک جنگلا لگایا ہے مگر اسے ہر چھوٹا بڑا باآسانی عبور کرسکتا ہے۔
اہل علاقہ چوں کہ ان آثار کی اہمیت سے واقف نہیں ہیں اور ان کو اس حوالے سے کوئی خاص آگاہی بھی نہیں دی گئی ہے۔ اس لئے ان کے ارد گرد کوڑا کرکٹ کے علاوہ بھینس، گھوڑوں اور خچروں کی لید وغیرہ پھینکی جاتی ہے جس کی وجہ سے یہاں سانس لینا بھی دشوار ہوتا ہے۔ اس طرح یہ آثار چوں کہ نشیب میں ہیں۔ اس لئے بارش کا پانی جوہڑ کی شکل میں آثار کی حدود میں کھڑا رہتا ہے۔ سوات کے دیگر علاقوں کی طرح گوگدرہ گاؤں میں بھی بارشیں خوب برستی ہیں اور موسم معتدل ہونے کی وجہ سے پانی زیادہ دیر تک کھڑا رہتا ہے۔
گاؤں کا جواں سال رہائشی شمشیر ان آثار کی خستہ حالی اور تعفن بھرے ماحول سے نالاں ہے۔ ان کے مطابق ’’اول اول بچے راہ چلتے ہوئے ان شبیہوں کو پتھر اور شیشے کی بوتلیں مارا کرتے تھے۔ پھر ہم نے زیادہ تر بچوں کو اس کی تاریخی حیثیت سے آگاہ کیا اور ساتھ ساتھ یہ بھی بتایا کہ قرآن شریف میں دوسرے مذاہب کے آثار یا مقدس جگہوں کی حفاظت کا کہا گیا ہے۔‘‘
شمشیر نے ایک ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ بچے تو جیسے تیسے بات مان لیتے ہیں مگر گاؤں کے بڑوں کو کون سمجھائے، جو تمام گاؤں کا کوڑا کرکٹ اور جانوروں کی فضلہ تک اٹھا کر یہاں ڈال دیتے ہیں جس کی وجہ سے یہاں اتنی بدبو ہوتی ہے کہ باہر سے آنے والوں سیاحوں اور آثار قدیمہ سے شغف رکھنے والوں کا سانس لینا تک محال ہوتا ہے۔
’’ہم حکومت وقت سے گزارش کرتے ہیں کہ کم از کم یہاں ایک سیکورٹی گارڈ کی ڈیوٹی لگا دی جائے، جو اِن تاریخی آثار کی حفاظت کے ساتھ ساتھ یہاں گند پھینکنے والوں کو بھی روکا کرے۔ تاکہ مہذب دنیا میں ہمارا تمسخر نہ اڑے۔ یہ آثار اگر کسی یورپی ملک میں ہوتے، تو ان تک پکی سڑک تعمیر کی جاتی، لوگ ٹکٹ خرید کر یہاں آتے، یہاں ہوٹل اور ریسٹورانٹ ہوتے۔ نتیجتاً مقامی لوگ خوشحال زندگی گزارتے۔ مگر افسوس کہ ہمارے ملک کی ترجیحات میں تاریخی آثار کو محفوظ کرنا شامل نہیں ہے۔ ‘‘
سوات کے محقق فضل خالق جنہوں نے حالیہ سوات کے آثار قدیمہ پر انگریزی زبان میں ایک تحقیقی مقالہ ’’اودھیانہ کنگڈم‘‘لکھا ہے، کے مطابق گاؤں گوگدرہ آثار قدیمہ کے لحاظ سے مشہور علاقہ ہے۔ ’’گوگدرہ میں ہزاروں سال پرانی شبیہوں کے علاوہ’’سر کوٹھے‘‘ یا ’’کافرو کوٹھے‘‘ بدھ مت اور ہندو شاہی کے آخری دور کی عکاسی کرتے ہیں۔ یہاں سائنسی بنیادوں پر کھدائی نہیں ہوئی ہے، مگر جو آثار نظر آ رہے ہیں، ان کے ساتھ ایک بڑا چشمہ ہے۔ ساتھ ساتھ بدھ مت دور اور پھر ہندوشاہی دور کا بنایا گیا راستہ بھی ہے۔‘‘
سرکوٹھے اور کافرو کوٹھے پشتو زبان کے الفاظ ہیں جن کے معنی ’’چوٹی پر قائم کوٹھے‘‘ اور ’’کافروں کے کوٹھے‘‘ کے ہیں۔
فضل خالق کے مطابق یہ ایک رہائشی جگہ تھی۔’’اس کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں دو منزلہ ہال آج تک اسی حالت میں موجود ہے۔ اس کے اندر روشنی اور ہوا کے نظام کو دیکھ کر اس بات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ اس دور کی انجینئرنگ کی شاہکار عمارت تھی۔ یہاں بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ سر کوٹھے یا کافرو کوٹھے محض رہائشی عمارتیں تھیں، اس میں کوئی اسٹوپا نہیں تھا یا پھر یہ جگہ خانقاہ نہیں تھی۔ اس لئے اسے زیادہ اہمیت نہیں دی گئی۔ اب یہ آثار چوں کہ لوگوں کی ذاتی ملکیت میں ہیں، اس لئے روز بروز ان کی حالت بگڑتی جا رہی ہے۔‘‘
تبصرے (9) بند ہیں