میٹرو بس، اورینج ٹرین اور بیوقوف عوام

22 جنوری 2016
میٹرو بس اور اورینج ٹرین وغیرہ کی تعمیر حکومتی ترجیح اس لیے ہے کہ ایسے منصوبے اگلے الیکشن سے پہلے مکمل ہو سکتے ہیں. — اے ایف پی۔
میٹرو بس اور اورینج ٹرین وغیرہ کی تعمیر حکومتی ترجیح اس لیے ہے کہ ایسے منصوبے اگلے الیکشن سے پہلے مکمل ہو سکتے ہیں. — اے ایف پی۔

پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں میٹرو بس، موٹر وے، انڈر پاس اور اب لاہور میں اورینج لائن ٹرین منصوبے کی شروعات کے بعد صرف اپوزیشن جماعتیں ہی نہیں بلکہ عوام بھی ان منصوبوں پر تنقید کر رہے ہیں۔

اپوزیشن جماعتیں حکومت کے خلاف تنقید کر رہی ہیں کہ ان منصوبوں پر پیسہ لگانے کے بجائے حکومت صحت اور تعلیم پر فنڈز خرچ کرے۔ نیوز چینلز پر ہونے والے مباحثوں کو دیکھ دیکھ کر عوام بھی حکومت کو تنقید کا نشانہ انہی دلائل کی بنیاد پر بناتی ہے۔

مگر مسئلہ یہ ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں کے کھوکھلے الزامات پر یقین کرنے والے عوام پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومتی حکمت عملی کو سمجھنے میں ناکام ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں کے رہنما تو حکومتی سوچ اور اگلے انتخابات کے لیے حکومتی پالیسیوں سے اچھی طرح واقف ہوتے ہیں اور نیوز چینل پر بیٹھ کر حکومت کے خلاف بھڑاس نکالنے کا موقع ضائع نہیں ہونے دیتے، مگر نیوز چینلز پر ہونے والے ان مباحثوں میں زیادہ تر الزامات صرف کرپشن اور کک بیکس کے ہی ہوتے ہیں.

پڑھیے: کچھ نئی 'جنگلہ بس' کے بارے میں

جو پہلو کم ہی زیرِ بحث آتا ہے وہ یہ کہ میٹرو بس، اورینج ٹرین، موٹر وے اور اوور ہیڈ پلوں کی تعمیر حکومتی پالیسی کا مرکز اس لیے ہے کہ یہ تمام منصوبے چند مہینوں یا زیادہ سے زیادہ کچھ سالوں میں مکمل ہو جاتے ہیں، جن کی بنیاد پر نواز حکومت اگلے انتخابات میں ووٹ مانگتی ہے۔ دراصل نواز حکومت اقتدار کے ان پانچ سالوں کو اقتدار کے اگلے پانچ سال حاصل کرنے کے لیے استعمال کر رہی ہے، جو کہ اس بات کا ثبوت ہے کہ مسلم لیگ ن کا ویژن پاکستان کی طویل مدتی ترقی نہیں بلکہ اگلا دور اقتدار ہے۔

بصورتِ دیگر صحت اور تعلیم کے منصوبے مکمل ہونے میں کئی سال لگ جاتے ہیں، جس کے بعد ان نئے شروع کردہ منصوبوں کو کامیابی سے چلانا بھی حکومت کی ذمہ داری بن جاتی ہے۔ ایسے حالات میں نواز حکومت ماضی کی طرح ان کم مدت میں تیار ہونے والے منصوبوں پر توجہ دے رہی ہے جو کہ صوبہ پنجاب کو دیگر صوبوں سے بہتر دکھائے۔

مثال کے طور پر لاہور اسلام آباد موٹر وے، لاہور اور راولپنڈی کی میٹرو بسیں، لاہور میں زیر تعمیر اورینج ٹرین اور لاہور اور کراچی کے مابین زیر تعمیر موٹر وے۔

اگر حکومتی منصوبوں پر تنقید کرنے والوں کی ہدایات پر عمل کیا جائے اور مزید اسکول اور ہسپتال بنائے جائیں تو ان کی تعمیر سے عوام کو یہ نہیں دکھایا جاسکتا کہ دیکھیں ہم نے ہسپتال بنا دیے جن میں ہزاروں لوگوں کا علاج ہو رہا ہے، یا ہزاروں اسکول بنا دیے، جن میں لاکھوں بچے زیر تعلیم ہیں.

اس کے علاوہ پاکستان کی موجودہ آبادی کو دیکھتے ہوئے جتنا بھی بڑا اور جدید ہسپتال بنا لیا جائے، وہ عوامی ضروریات پوری نہیں کر سکتا۔ ایسے موقع پر اپوزیشن جماعتیں حکومت کے نئے تعمیر شدہ ہسپتالوں کی خامیاں میڈیا پر آکر بیان کریں گی، جس کی وجہ سے حکومتی جماعت اگلے انتخابات سے قبل اسے بیچ نہیں سکے گی۔

مزید پڑھیے: میٹرو بس یا مریخ؟ ہماری ترجیحات کیا ہیں

تعلیمی منصوبوں میں بھی مسئلہ یہ ہے کہ کسی بھی اسکول سے پڑھنے والا بچہ دس سالوں تک پڑھنے کے بعد میٹرک کرتا ہے اور کسی بھی حکومت کے پاس اتنا وقت ہوتا نہیں کہ وہ ان کے تعمیر کردہ اسکول سے پڑھ کر بڑا آدمی بنے اور جسے حکومت اگلے انتخابات سے قبل جلسوں میں پیش کر کے ووٹ مانگ سکے، خاص طور پر پاکستان جیسے ملک میں، جہاں جمہوری حکومت دوسری بار اپنا پانچ سالہ دور حکومت مکمل کرنے جا رہی ہو، وگرنہ تو ماضی میں حکومتیں دو نہیں تو تین سال تک ہی حکومت کرسکی ہیں۔

ایسے حالات میں تو ایسے منصوبے ہی شروع کیے جائیں گے نا جو کہ جلد سے جلد مکمل ہوجائیں۔ ماضی کو دیکھتے ہوئے مسلم لیگ ن حکومت تختہ پلٹنے کے ڈر سے ایسے منصوبے ہی بناتی ہے جو کہ دو یا تین سالوں میں مکمل ہوجائیں۔

اس کے علاوہ نواز حکومت بجلی کے منصوبوں کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑی ہے اور وہ بخوبی واقف ہے کہ اس وقت ملک کا سب سے بڑا مسئلہ بجلی ہے۔ اسی وجہ سے وزیراعظم آئے روز بجلی کے منصوبوں کا سنگ بنیاد رکھ رہے ہوتے ہیں۔

اگر بجلی کے منصوبوں کے بارے میں کیے جانے والے حکومتی دعووں کو دیکھا جائے تو پتہ لگتا ہے کہ ہر منصوبہ 2017 یا 2018 میں مکمل ہوگا، جو کہ انتخابات کا سال ہوگا۔ لہٰذا حکومتی ہتھکنڈوں کو دیکھ کر یہ کہا جاسکتا ہے کہ مسلم لیگ ن اگلے انتخابات کو ہدف بناتے ہوئے منصوبے شروع کرتی ہے ناکہ پاکستان کی بجلی کی ضروریات کو دیکھتے ہوئے، ورنہ ہر منصوبے کی مدتِ تکمیل انتخابات کا سال ہی کیوں ہو؟

پچھلے دور حکومت میں پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی بجلی کے چند منصوبے شروع کیے، مگر ناقص حکمت عملی کی وجہ سے پیپلز پارٹی ان منصوبوں کو 2013 کے انتخابات سے قبل مکمل نا کر سکی اور ان کے شروع کردہ منصوبے بھی نواز دور حکومت میں مکمل ہوں گے، جس کا فائدہ بھی یقینی طور پر مسلم لیگ ن کو ہوگا۔

پڑھیے: باقی صوبائی حکومتیں بھی کچھ کر لیں

اگر مسلم لیگ ن اپنے پانچ سالہ دور میں بجلی کا مسئلہ حل کر دیتی ہے تو کہا جاسکتا ہے کہ 2018 کے انتخابات میں بھی جیت اس کا مقدر بن سکتی ہے، کیونکہ نا تو تحریک انصاف اور نا ہی پیپلز پارٹی بجلی بنانے کے منصوبوں کے لیے سنجیدہ ہے اور نا ہی دیگر شعبوں میں دونوں جماعتیں کوئی ایسا کارنامہ انجام دے سکی ہیں، جسے بنیاد بنا کر ووٹ مانگے جا سکیں۔ جبکہ بجلی کا بحران ایسا مسئلہ ہے کہ جس کا حل کوئی بھی کرے، تو پاکستانی شاید اس کے ماضی کو بھلا کر اس ایک احسان پر احسان مند ہوجائیں گے۔

اگر بجلی کی دستیابی کے علاوہ لاہور کی اورینج ٹرین اور کراچی تا لاہور موٹر وے اگلے انتخابات سے قبل مکمل ہوجاتے ہیں، تو مسلم لیگ ن پنجاب کی ترقی کو بطورِ مثال پیش کرتے ہوئے اقتدار میں آ جائے گی، اور دوسرے صوبوں کے عوام جو مسلم لیگ ن کے ہر ترقیاتی منصوبے پر معصومانہ سوال اٹھاتے ہیں کہ 'صرف پنجاب کے لیے ہی کیوں؟'، شاید انہیں بھی بطور تبرک کسی نہ کسی ترقیاتی پروجیکٹ کا ذائقہ چکھا دیا جائے۔ لیکن وہاں تک پہنچنے کے لیے شاید ایک اور اقتداری مدت کی ضرورت ہے.

ضرور پڑھیں

تبصرے (3) بند ہیں

Guide Jan 22, 2016 05:58pm
A very good discussion. But unfortunately our people are not aware of it
نجیب احمد سنگھیڑہ Jan 22, 2016 07:57pm
سڑکوں، پلوں، اوورھیڈ برجوں، میٹرو ٹرینوں اور انڈر پاسز کی دیکھتے ہوئے جو عوام ووٹ دیتی ہے اسے بیوقوف عوام نہیں بلکہ غیرسیاسی عوام کہنا زیادہ بہتر ہے۔ بہرحال مادی ترقی نواز حکومت کو انتخابات میں ووٹ تھوڑے اور برائے نام پاتی ہے کیونکہ عوام اتنی بھی کُگھو نہیں ہے۔ نواز لیگ کا اصل ووٹ بینک اس لیے ہے کیونکہ ایک تو یہ تاجروں کو سپورٹ کرتی ہے کہ اس پارٹی کے ھیڈ خود تاجر مشہور ہیں اور دوم اس لیے اس کو ووٹ پڑتے ہیں کیونکہ پاکستانی معاشرہ تھیوکریٹک ہے اور یہ پارٹی تھیوکریسی کو کچھ نہیں کہتی اور اگر کوئی ایشو ہو جائے تو ہوں ہاں سے کام چلا کر تھیو کریسی کی طرفداری کرتی ہے۔ ممتاز قادری کا کیس اس تھیوکریسی سپورٹ کو بخوبی واضح کرتا ہے۔ اسی طرح نیشنل ایکشن پلان پر عملآ بھرپور طریقے سے عملدرآمد نہ کرنا بھی تھیوکریسی سپورٹ کا بتاتا ہے۔ مذہبی جماعتوں کے ہر قسم کے بیانات اور پالیسیوں پر حکومتی خاموشی تھیوکریسی ازم ہی ہے۔ الطاف بھائی کی تقریروں پر پابندی کا نفاذ فوری طور پر جبکہ دوسری طرف لال مسجد مولانا جی کے طالبان اور داعش پسند بیانات و تقاریر کو آڑے ہاتھوں نہ لینا تھیوکریسی کی پوجا کرنا ہے !
AK Jan 22, 2016 08:47pm
Lacks in logics . . . rather looks emotional.