اسلام آباد: اگرچہ ملک میں مردم شماری کے لیے حکومت تقریباً ایک سال قبل ہی مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) سے منظوری لے چکی ہے، لیکن اس کے باوجود یہ عمل مارچ سے بھی آگے بڑھنے کا امکان ہے۔

اس حوالے سے باخبر ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ وزیر اعظم نواز شریف 29 فروری کو ہونے والے مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں تمام وزرائے اعلیٰ کو مردم شماری میں تاخیر کے حوالے سے اعتماد میں لیں گے۔

یاد رہے کہ رواں سال مارچ میں ملک میں مردم شماری کا فیصلہ گزشتہ سال مارچ میں سی سی آئی کے اجلاس میں کیا گیا تھا۔

ملک میں آخری بار مردم شماری 1998 میں کی گئی تھی۔

ذرائع نے کہا کہ مردم شماری کا اگلا شیڈول ممکنہ طور پر سی سی آئی کے اجلاس میں زیر بحث آئے گا اور ابھی یقین کے ساتھ یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ تاخیر صرف چند ماہ کے لیے ہوگی یا اس سے زائد کے لیے ہوگی۔

واضح رہے کہ گزشتہ جمعہ کو پارلیمانی سیکریٹری برائے خزانہ و شماریات رانا محمد افضل خان نے قومی اسمبلی کو بتایا تھا کہ حکومت فوجی اہلکاروں کی عدم دستیابی کے باعث مردم شماری کا انعقاد شیڈول کے مطابق نہیں کرسکتی۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر پاک فوج حامی بھرے تو حکومت اپریل یا مئی میں اس 18 روزہ ملکی مہم کا انعقاد کرسکتی ہے۔

تاہم مردم شماری ڈویژن سے وابستہ موجودہ اور سابق عہدیداروں نے پس پردہ گفتگو میں انکشاف کیا کہ مردم شماری میں تاخیر کی وجہ انتظامی کے بجائے سیاسی ہوسکتی ہے۔

حکومتی عہدیدار نے سوال کیا کہ اگر حکومت مردم شماری کے انعقاد میں واقعی سنجیدہ ہے تو وہ اسے مرحلہ یا صوبے وار کیوں منقعد نہیں کرتی جس سے آرمی اور دیگر حکومتی اداروں کے لیے بھی آسانی پیدا ہوگی۔

انہوں نے اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ نادرا کے پاس شہریوں کا بڑا ڈیٹابیس موجود ہے، جبکہ چند ماہ قبل ہی ملک بھر میں موبائل فون سمز کی بائیومیٹرک تصدیق کا عمل بھی ہوا جسے مردم شماری کے عمل میں بھی استعمال کیا جانا چاہیے۔

شماریات ڈویژن کے ایک اور ریٹائرڈ عہدیدار نے بھی اس بات پر اتفاق کیا کہ جدید طریقوں سے مردم شماری کا عمل بڑی حد تک آسان ہوسکتا ہے، لیکن سب سے پہلے اس کے لیے سیاسی عزم کی ضرورت ہے جو بدقسمتی سے موجود نہیں۔

تمام صورتحال سے باخبر حکمراں جماعت مسلم لیگ (ن) کے ایک قانون ساز نے اصرار کیا کہ مردم شماری ایک حساس معاملہ ہے جس کے حوالے سے بہت احتیاط برتنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم ملک بھر میں مردم شماری ہی مرحلے میں کرنا چاہتے ہیں کیونکہ اگر ایسا نہ ہوا تو سیاسی جماعتیں اس کے نتائج پر اعتراض کریں گی۔

یہ خبر 22 فروری 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (3) بند ہیں

Faisal Hussain Feb 22, 2016 09:44am
One necessary required point to add is"CAST" because its most important on some place and it should be display on CNIC as well.
Taley Zia Feb 23, 2016 03:47am
TELL US SOMETHING NEW..... DID WE EVER HAD ANYTHING ON TIME????
Taley Zia Feb 23, 2016 04:01am
@ We are too much divided already. I will say the cast should be "Pakistani" for everyone.