ایک وقت تھا جب موجودہ زمینی پوزیشن (actual ground position line) کے دونوں طرف موجود فوجوں کو سیاچن سے ہٹا کر 1984 سے پہلے کی پوزیشن پر لانے کے معاہدے کو مذاکرات کے مرحلے کا آسان ترین کام سمجھا جاتا تھا۔

مگر جمعے کے روز ہندوستانی وزیرِ دفاع منوہر پاریکر نے ہندوستانی پارلیمنٹ کو بتایا کہ ان کی حکومت سیاچن سے اپنی افواج واپس نہیں بلائے گی، کیونکہ ایسی صورت میں پاکستان ہندوستان کے خالی کردہ علاقوں پر قبضہ کر سکتا ہے جس سے ہندوستان گلیشیائی خطے میں اسٹریٹجک نقصان میں چلا جائے گا۔

پاریکر کا بیان افسوسناک بھی ہے اور غلط بھی۔ پاکستان نے ہمیشہ سیاچن سے نہ صرف باہمی طور پر افواج کی واپسی کو یقینی بنانے کے لیے طریقہ پیش کیا ہے، بلکہ گشت کا ایک مشترکہ نظام بھی پیش کیا ہے جو اس بات کو یقینی بنائے گا کہ کوئی بھی فریق خطے کے حصول یا کسی عسکری فائدے کے لیے دوسرے کے علاقے میں دراندازی نہیں کرے گا۔

پاکستان کا پیش کردہ حل نہ صرف سنجیدہ اور قابلِ فہم ہے، بلکہ کم خرچ، شفاف، اور قابلِ تصدیق بھی ہے۔ مگر ہندوستان نے کبھی بھی اس پر سنجیدگی نہیں دکھائی ہے۔

پڑھیے: 'ہندوستان سیاچن کو خالی نہیں کرے گا'

1984 میں ہندوستان نے سیاچن پر ایسا فائدہ حاصل کیا، جسے اس کی فوج اب بھی قائم رکھے ہوئے ہے اور اس سے دستبردار نہیں ہونا چاہتی۔

1999 کے کارگل تنازعے کو پاکستان کا ڈیڑھ دہائی بعد ہندوستان کو جواب تصور کیا جاتا ہے، مگر یہ ایسا جواب تھا جس نے ہندوستانی فوج کو ملک کے اندر اس معاملے پر اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کا بھرپور موقع فراہم کیا۔

کارگل تنازعے کے بعد ہندوستانی عسکری قیادت نے مؤثر انداز میں ہر حکومت کو یہ باور کروایا ہے کہ سیاچن سے فوجیں واپس بلانا ان ہندوستانی فوجیوں کے خون سے غداری ہوگی جنہوں نے سیاچن کی حفاظت کے لیے اپنی جانیں دی ہیں۔

مگر ہندوستانی فوج کی جانب سے سیاچن پر قبضہ جمائے رکھنے کے اصرار کی ایک واضح وجہ یہ ہے کہ سالہا سال سے گلیشیئر پر انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری نے اسے مناسب اخراجات میں ایک پرکشش بلند تربیتی مقام میں تبدیل کر دیا ہے (تودہ گرنے سے حالیہ اموات کے علاوہ)۔

دوسری جانب اگر 1984 سے پہلے کی پوزیشن پر جائیں، تو یہ پاکستان کے لیے فائدہ مند ہوگا کیونکہ اس سے ہندوستان کو حاصل فائدہ ختم ہوجائے گا۔ اس کے علاوہ اس سے یہاں کیے گئے پاکستان کے فوجی اخراجات کا بھی جواز پیدا ہوسکے گا۔ یہ وہ چیز ہے جو پاکستان کے لیے معنی رکھتی ہے خاص طور پر تب جب اس کا بجٹ ہندوستانی فوج کے مقابلے میں کئی گنا کم ہے۔

مزید پڑھیے: 'کوئی چیز سیاچن کے لیے تیار نہیں کرسکتی'

لیکن پھر بھی، ہندوستانی فوج سیاچن میں کیوں ہر حالت میں رہنا چاہتی ہے، اور پاکستانی فوج کیوں پچھلی پوزیشن پر واپس جانے کو ترجیح دے گی، یہ شاید موضوعِ گفتگو نہیں ہے۔

سیاچن حقیقی اسٹریٹجک فائدے سے زیادہ اناؤں کی لڑائی ہے۔ اگر ہندوستانی حکومت سیاچن تنازعے کے ایک قابلِ فہم حل پر غور تک نہیں کرنا چاہتی، تو دونوں ممالک کے درمیان موجود دیگر بڑے تنازعے کیسے حل ہوں گے؟

ایک اور پریشان کن بات یہ ہے کہ پاریکر کا بیان جامع دوطرفہ مذاکرات کا نتیجہ پہلے سے طے کرنے کی کوشش ہے۔

اگر ہر وہ مسئلہ جس پر پاکستان کی پوزیشن جائز ہے، اسے ہندوستان شروع میں ہی ٹھکرا کر ایک طرف کر دے، تو مذاکرات آگے کیسے بڑھ سکتے ہیں؟

سیاچن ہندوستان کی طاقت یا پاکستان کی کمزوری کی علامت نہیں ہے، بلکہ یہ بے وقوفی اور جنگ کی شدت کی علامت ہے۔

سیاچن کی حقیقی قدر اس بات میں ہے کہ دونوں ممالک کس طرح معنی خیز امن مرحلے کے ذریعے یہاں امن قائم کر پاتے ہیں۔

یہ اداریہ ڈان اخبار میں 28 فروری 2016 کو شائع ہوا۔

انگلش میں پڑھیں۔

تبصرے (0) بند ہیں