معجزوں کی امید میں دم توڑتی کرکٹ

اپ ڈیٹ 14 مارچ 2016
اس ایشیا کپ نے خطرے کی ان علامات کو واضح کر دیا ہے جنہیں ایک عرصے تک نظرانداز کیا جاتا رہا ہے۔ — اے پی۔
اس ایشیا کپ نے خطرے کی ان علامات کو واضح کر دیا ہے جنہیں ایک عرصے تک نظرانداز کیا جاتا رہا ہے۔ — اے پی۔

میں ہمیشہ سے پاکستان کرکٹ کے ایسے پرستاروں میں سے رہی ہوں جو میچ کے آخری اوور تک کسی معجزے کا انتظار کرتا ہے۔

اکثر و بیشتر ایسے معجزے رونما ہو بھی جاتے ہیں۔ اس لیے ہمیں ناقابلِ پیشگوئی پاکستان کہا جاتا ہے۔ ہم سب کو لفظ ناقابلِ پیشگوئی بہت پسند ہے۔ اور ایسا ہونا بھی چاہیے، کیونکہ ہمارے کھلاڑی یا تو جیتا ہوا میچ ہار جاتے ہیں یا پھر ہارے ہوئے میچ کو شاندار جیت میں بدل دیتے ہیں۔

جو بھی ہو، پاکستانی ٹیم کے اس غیر یقینی پن کی وجہ سے میں ہمیشہ اپنے دوستوں اور گھر والوں کے ساتھ دفاعی انداز میں بحث کرتی ہوں۔

بطور مداح ہمیں ہمیشہ سے یہ ہقین ہے کہ ٹیم آخری منٹ میں جادوئی اسپیل سے کھیل کا پانسہ پلٹ دے گی۔

کم از کم پاکستان ٹیم کی ایشیا کپ 2016 میں خراب کارکردگی کے بعد تو اس نفسیات کا خاتمہ ہوجانا چاہیے۔

اس بات سے میرا دل دکھتا ضرور ہے مگر ہماری ٹیم اس قدر کمزور ہوچکی ہے کہ ٹیم کا کپتان اور اسٹار کھلاڑی ہی اس ٹیم پر سب سے بڑا بوجھ نظر آتا ہے۔

یہ بات سچ ہے کہ شاہد آفریدی نے ملک اور ہماری کرکٹ کے لیے بہت کچھ کیا ہے مگر اس کا صلہ بھی ہم ایک حد تک ہی دے سکتے ہیں۔

آپ کہیں گے کہ وہ ٹی20 انٹرنیشنل میں سب سے زیادہ وکٹیں لے چکے ہیں؛ اور انہوں نے بطور کپتان سب سے زیادہ کیچ پکڑے ہیں۔ اب ان کی خراب قیادت اور ٹیم کو مشکلات سے نکالنے میں ناکامی کے دفاع کے لیے ان گھسے پٹے اعداد و شمار کو بار بار دہرانا بند کر دیں۔

شاہد آفریدی کی ٹی20 میں اوسط 17.77 ہے۔ وہ کافی تعداد میں (اور جذباتی) مداح رکھتے ہیں جن میں سے ایک میں بھی ہوں، لیکن اس وقت ہمیں بیٹھ کر یہ سوچنا ہوگا کہ آخری بار کب انہوں نے لڑکھڑاہٹ کے شکار بیٹنگ آرڈر کو سنبھالا تھا۔

آفریدی کے ساتھ جڑے جذبات کی وجہ سے اچھے خاصے لوگ حقائق پر مبنی دلائل کو ایک طرف رکھ دیتے ہیں؛ اب وقت آچکا ہے کہ ہم اس رویے کو بدلیں۔

ایک دور تھا جب وہ بطور باؤلر بلاشبہ میچ جتوانے والے کھلاڑی تھے۔ مگر بدقسمتی سے وہ یہ معیار بہت پہلے ہی کھو چکے ہیں۔

اس کے علاوہ مجھے وقار یونس کو بحیثیتِ کوچ برقرار رکھنے کی بھی کوئی واضح وجہ نظر نہیں آتی۔

جب وقار یونس جیسے تجربے اور مہارت کے حامل شخص کی تربیت میں مستقل خامیاں دیکھی جائیں، تو 'مایوس کن' بہت نرم لفظ لگتا ہے۔

میں پی سی بی چیئرمین شہریار خان کے انتظامیہ اور سلیکشن کمیٹی پر نظرثانی، اور کوچنگ اور سلیکشن کے مراحل میں ترامیم کے فیصلے سے بالکل متفق ہوں۔

یہ فیصلہ بہت پہلے ہی ہو جانا چاہیے تھا، مگر اب ورلڈ ٹی20 سر پر ہے اور اس قسم کی بڑی تبدیلیاں کرنے کا وقت نہیں اور قیادت کے معاملات میں مداخلت کرنا اور بھی مضحکہ خیز ہوگا۔

مگر اس کے باوجود ہمیں ٹورنامنٹ سے پہلے چھوٹی تبدیلیاں لانا بہت ضروری ہیں اور بیٹنگ آرڈر سے شروعات کرنی ہوگی۔ سری لنکا کے خلاف میچ میں عقلمندانہ لائن اپ دیکھنے کو ملا، جس میں سرفراز احمد کو اوپر لا کر نمبر 3 پر کھلایا گیا (جو ہمیں بہت پہلے ہی کرنے کی ضرورت تھی) جن کے بعد عمر اکمل کو نمبر 4 اور شعیب ملک کو 5 نمبر پر کھلایا گیا تھا۔

ورلڈ ٹی20 میں اسی آرڈر کو برقرار رکھنے کی ضرورت ہے جس کی وجہ واضح ہے کہ: بلے بازوں کو ان کی مرضی کے نمبروں پر کھلانا ہی بہتر ہوگا۔ خاص طور پر اکمل اور سرفراز کو، اور یہ بھی ضروری ہے کہ ہم اس میچ جتوانے والے کامبی نیشن کو انڈیا بھی لے کر جائیں اور دورے کی زبردست شروعات کر سکیں۔

اگر ٹیم خود میں موجود تمام بیٹنگ خامیوں کو دور کر دے اور ہر بلے باز 60 کی اوسط سے رنز بنائے، پھر بھی ایک پاکستانی کرکٹ مداح جارحانہ باؤلنگ اسپیل بھی لازماً دیکھنا چاہے گا، کیونکہ ہمارے شاندار، بین الاقوامی معیار کے حامل باؤلنگ اٹیک نے ہی ہمیں بہت سارے معجزے دکھائے ہیں اور اس کے بغیر پاکستان بہتر طریقے سے مقابلہ نہیں کرسکتا۔

ہم نے ایشیا کپ ٹی20 کا سفر محمد عامر، محمد عرفان، وہاب ریاض اور دوسروں پر بھروسہ کرتے ہوئے شروع کیا۔ لیکن ہم سنگین حقیقت کا سامنا کرتے ہوئے ٹورنامنٹ کے اختتام پر پہنچے — چند کھلاڑی سب کچھ نہیں کر سکتے۔

اس ایشیا کپ نے خطرے کی ان علامات کو واضح کر دیا ہے جنہیں ایک عرصے تک نظرانداز کیا جاتا رہا ہے۔

ٹورنامنٹ میں ناکامی کی ذمہ داری اجتماعی طور پر تمام سینئرز، کپتان، کوچ اور سلیکشن کمیٹی کی ہے۔ یہ شکست کوئی معمولی شکست نہیں، بلکہ باعثِ شرم ہے۔

یہ وقت ہے کہ اب ہم میچ کے آخری منٹ میں ہونے والے معجزوں پر انحصار کرنا چھوڑ دیں اور ہم مسائل کا مستقل حل تلاش کریں۔

امید ہے کہ اس بار آئی سی سی ورلڈ ٹی20 میں پوری قوت کا مظاہرہ کریں گے۔ اگر ہماری ٹیم ورلڈ ٹی20 میں ناکام رہی تو کم از کم مجھے کوئی حیرانی نہیں ہوگی اور اگر ایسا نہیں ہوتا تب بھی مجھے کوئی حیرانی نہیں ہوگی۔

انگلش میں پڑھیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں