گذشتہ 4 سالوں سے میرا یہ معمول رہا ہے کہ ہر اتوار کو میری صبح سائیکل چلانے سے شروع ہوتی ہے۔ وہ بھی اتوار کی ایسی ہی ایک عام سی صبح تھی۔

میں اپنی سائیکل پر سوار ہو کر حسبِ معمول پیڈل مارتے ہوئے اُسی جگہ پہنچی جہاں میرے سائیکلنگ گروپ 'کریٹیکل ماس لاہور' کے باقی ممبر ہر اتوار کی صبح جمع ہوتے ہیں اور شہر کے خوبصورت نظاروں کو دیکھنے نکل پڑتے ہیں۔

مجھے صبح سویرے سائیکل چلانا اس لیے بہت پسند ہے کیونکہ ایک تو سڑک پر ٹریفک نہیں ہوتی اور دوسرا تازہ ہوا میں سانس لینے کا موقع ملتا ہے۔

سفاری پارک لاہور میں سائیکلنگ۔ — تصویر بشکریہ لکھاری۔
سفاری پارک لاہور میں سائیکلنگ۔ — تصویر بشکریہ لکھاری۔

میں صبح کی ٹھنڈی ہوا اور خالی سڑک کا بھرپور مزہ لے رہی تھی کہ میں نے محسوس کیا کہ کچھ لڑکے سفید کلٹس گاڑی میں میرا پیچھا کر رہے تھے۔

پہلے تو میں نے اسے سنجیدہ نہیں لیا کیونکہ ہمارے یہاں مرد عورتوں کو سائیکل چلاتے دیکھ کر اکثر جذباتی ہو جاتے ہیں۔

لیکن ان کے مستقل پیچھا کرنے سے مجھے گھبراہٹ ہونے لگی۔ آخرکار میں نے سب سے قریبی سروس لین میں یہ سوچ کر مڑنے کا فیصلہ کیا کہ شاید اس طرح وہ میرا پیچھا کرنا چھوڑ دیں گے۔

مگر انہوں نے وہاں بھی میرا پیچھا کرنا شروع کردیا۔

میں خود کو بہت خوفزدہ محسوس کر رہی تھی. میں نے مدد کے لیے ادھر اُدھر دیکھا مگر اس وقت پوری سڑک ویران تھی۔

مجھ پر گلا پھاڑ کر جملے کسنے اور مسلسل ہارن بجانے کے بعد جب انہوں نے محسوس کیا کہ وہ میری توجہ حاصل کرنے میں ناکام ہو رہے ہیں تو انہوں نے میری سائیکل کو ٹکر مار دی اور وہاں سے فرار ہو گئے۔

منہ کے بل گرنے کے باعث میرے چہرے پر بھی زخم آئے۔ — تصویر بشکریہ لکھاری۔
منہ کے بل گرنے کے باعث میرے چہرے پر بھی زخم آئے۔ — تصویر بشکریہ لکھاری۔

یہ واقعہ میرے ساتھ صبح تقریباً 7 بجے نِروانا کے قریب ڈی ایچ اے لاہور میں پیش آیا۔

ٹکر اتنی زور دار تھی کہ میں آگے جا کر منہ کے بل گر پڑی۔ خوش قسمتی سے میں نے ہیلمٹ پہنا ہوا تھا جس نے مجھے سر کی شدید چوٹوں سے محفوظ رکھا، لیکن میرے جسم پر کچھ زخم اور خراشیں آئیں۔

گرنے کے بعد میرے حواس خطا ہو گئے تھے، پھر بھی میں نے اُن کی گاڑی کا نمبر یاد کرنے کی کوشش کی لیکن یاد نہیں آیا۔ پورا وقت ان کی گاڑی میرے پیچھے تھی۔ جب میں سڑک پر گری، صرف تب ہی انہوں نے گاڑی میرے آگے روکی اور پھر وہاں سے فرار ہوگئے۔

ہم ''کریٹیکل ماس لاہور'' کے تمام ممبران ایک گھرانے کی مانند ہیں، ہمیشہ ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں اور ضرورت کے وقت ہمیشہ مدد کے لیے تیار رہتے ہیں۔ سائیکلنگ گروپ کے کچھ دوست جلد ہی میری مدد کے لیے آ پہنچے۔

وہ مجھے ہسپتال لے گئے اور تقریباً سارا دن میرے ساتھ ہی گزارا۔

سڑک پر ہراساں کرنے کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں تھا۔ اس طرح کے کئی واقعات میرے ساتھ ہو چکے ہیں مگر میں ان کے بارے میں بات کرنے سے کتراتی تھی، یہاں تک کہ اپنے قریبی دوستوں اور گھر والوں کو بھی نہیں بتاتی، کیونکہ میں ہر دفعہ سائیکل پر سفر کے دوران انہیں فکرمند نہیں رکھنا چاہتی تھی۔

ایکسیڈنٹ کے فوراً بعد اپنے سائیکلنگ گروپ کے دوستوں زائرہ اور ذیشان کے ساتھ۔ — تصویر بشکریہ لکھاری۔
ایکسیڈنٹ کے فوراً بعد اپنے سائیکلنگ گروپ کے دوستوں زائرہ اور ذیشان کے ساتھ۔ — تصویر بشکریہ لکھاری۔

میں یہ بات عوامی سطح پر اس لیے بھی نہیں کرنا چاہتی تھی کیونکہ میں سائیکل چلانے جیسی سرگرمی میں حصہ لینے والی دیگر خواتین کے حوصلے پست نہیں کرنا چاہتی تھی۔

کافی سالوں بعد اب سائیکلنگ گروپ میں خواتین کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے اور میں چاہتی ہوں کہ یہ تعداد بڑھتی رہے۔

میں نے اس پر بہت سوچا اور فیصلہ کیا کہ چپ رہنا اس مسئلے کا حل نہیں۔ مجھے اب اس بارے میں بات کرنے کی ضرورت تھی۔

ہراساں ہونا ایک حقیقت ہے — پاکستان میں پیدا اور بڑی ہونے والی تقریباً تمام لڑکیاں ہر دن اس کا سامنا کرتی ہے اور یہ اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ آپ کو نارمل محسوس ہونے لگتا ہے، ایک ایسی چیز جس کا عادی بننا ضروری ہے۔ ہم اس بات کو زندگی کے ایک حصے کے طور پر اپنانا شروع کر دیتے ہیں۔

پڑھیے: ہراساں کیا جانا جرم تصور کیا جائے

ہمیں اسکولوں، بازاروں، دفاتر میں جنسی طور پر ہراساں کیا جانا عام ہے اور ان جگہوں پر جاتے وقت راستوں پر بھی ہراساں کیا جاتا ہے، چاہے ہم سائیکل پر سوار ہوں یا کسی اور طریقے سے وہاں جا رہی ہوں۔

لیکن اس حادثے کے بعد سائیکل چلانے کا میرا حوصلہ نہ کم ہوگا اور نہ ہی میں دوسری عورتوں کے حوصلے پست ہونے دوں گی۔ اس سوچ کے ساتھ میں نے اس حادثے کو اپنی فیس بک پروفائل پر پبلک پوسٹ کی صورت میں تحریر کردیا۔

مجھے معلوم نہیں تھا کہ میرے اس انکشاف کا رد عمل کیا ہوگا۔ میں کچھ منفی تبصروں کی توقع کر رہی تھی مگر مجھے دنیا بھر سے صرف حوصلہ افزا پیغامات اور تبصرے موصول ہوئے۔

کچھ لوگوں نے مشورہ دیا کہ میں کسی مرد کے ہمراہ سائیکل چلاؤں کیونکہ لڑکیوں کے لیے اکیلے سائیکل چلانا محفوظ نہیں۔ میں ان کی رائے کا احترام کرتی ہوں۔

میں صرف یہ کہنا چاہتی ہوں کہ حالیہ دنوں میں لاہور میں اسٹریٹ کرائم میں اضافہ ہوا ہے، اب آپ سڑک پر پیدل چلتے، سائیکل چلاتے یا ڈرائیونگ کرتے وقت خود کو محفوظ نہیں سمجھتے۔ اگر ایسی صورتحال میں کسی مرد کے ساتھ ایسا کوئی واقعہ پیش آئے، تو اسے بھی کسی کے ساتھ جانے کی تجویز دی جائے گی؟ یا پھر عام افراد اپنے ساتھ مسلح افراد لے کر گھوما کریں؟

نہیں! کسی کو ساتھ رکھنا اس اہم مسئلے کا حل نہیں، بلکہ آج اس معاملے پر بڑی حد تک ثقافتی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ اگر میں صرف اکیلے سائیکل چلانا چاہوں تو پھر؟ اگر میں اپنے ہی شہر میں تحفظ کی خاطر کسی مرد کا ساتھ نہیں چاہتی تو پھر؟

ہمیں نہ صرف خواتین بلکہ مردوں کے لیے بھی اپنے شہروں کو محفوظ بنانے کی ضرورت ہے۔

عوامی مقامات پر خواتین کو بااختیار بنانے کی مہمیں بھی جاری ہیں جیسے 'گلابی رکشہ اسکیم' اور 'ویمن آن ویلز'، لیکن ان میں سے کوئی بھی مہم اس وقت تک عورتوں کو بااختیار نہیں بنا سکتی جب تک کہ مسئلے کی جڑ کو ٹھیک نہیں کیا جاتا۔

اور اس کو حل کرنے کے لیے ہمیں اس پر بات کرنی پڑے گی۔

عورتوں کو ہراساں کرنے والے یہ حرکتیں ایسے معاشرے میں کرتے ہیں جہاں انہیں سزا کا خوف نہیں ہوتا۔ جب تک کہ ان کا مقابلہ نہیں کیا جاتا اور انہیں سزا نہیں دی جاتی، تب تک پاکستان کی گلیوں میں خواتین کو ہراساں کرنے کے واقعات میں بھی ذرہ برابر بھی کمی نظر نہیں آئی گی۔

اور اس لیے میں اپنی سائیکل پر دوبارہ سوار ہونے کے لیے بے تاب ہوں۔

لکھاری اپنی سائیکل کے ساتھ۔ — تصویر بشکریہ لکھاری۔
لکھاری اپنی سائیکل کے ساتھ۔ — تصویر بشکریہ لکھاری۔

انگلش میں پڑھیں۔

تبصرے (8) بند ہیں

Naveed Mar 26, 2016 02:12pm
If this could happened in DHA Lahore, what could happened in downtown I can imagine... Might be those boys don't have Mother or Sister in their Family.
ahmed Mar 26, 2016 05:58pm
akhlaqi toor pay hum maar chukay hain..... hai koi dafnanay wala
ahmaq Mar 26, 2016 06:00pm
Mind you when the incidents are not reported to police it means that the crime did not happen----------------so report it.
حسن امتیاز Mar 26, 2016 07:04pm
نپولین بوناپارٹ کہتا تھا کہ تم مجھے اچھی مائیں دو میں تمہیں اچھی قوم دوں گا۔ ۔۔۔۔۔ اگر ان لڑکوں کے والدہ نے اپنے بچوں کی اچھی تربیت کی ہوتی تو آپ کو یہ پریشانی نہ ہوتی ۔
Dr.Afzaal Malik Mar 26, 2016 07:22pm
واقعی یہ ایک بیمار ذہنیت کی علامت ہے کہ اکیلی لڑکی کو سائیکل چلاتا دیکھ کر آوازے کسے جائیں اور اس کو اتنا تنگ کیا جائے کہ وہ حادثہ کا شکار ہو جائے۔ میرے خیال میں آپ کو اس واقعہ کی پولیس میں رپورٹ ضرور کرنی چاہئے تھی اور جو بھی دستیاب انفارمیشن آپ کے پاس تھیں وہ اپنی درخواست میں ضرور لکھتیں۔ ایک ایک کڑی بھی پولیس کیلئے مجرم کو گرفتار کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔ اب بھی آپ پولیس کے اعلیٰ حکام سے مل کر انکی گاڑی کا نمبر یاد نہیں تو گاڑی کی کوئی نشانی یاد ہو گی کسی کی شکل یاد نہیں تو سٹائل ضرور یاد ہو گا۔ کچھ بھی یاد ہو پولیس کے نوٹس میں ضرور لائیں۔ ہماری پولیس کا بدقسمتی سے منفی چہرہ ہمیشہ میڈیا پر لایا جاتا ہے لیکن مثبت چہرہ بھی ہے ۔ پولیس میں بہت ہی اچھے پروفیشنل افسران موجود ہیں مجھے امید ہے آپ کے حادثہ کے ذمہ دار بگڑے ہوئے رئیس زادے ضرور پکڑے جائیں گے۔ معاشرے میں ایسے سماجی جرائم کی اجازت دی گئی تو ایسے لوگوں کا حوصلہ بڑھے گا۔ یہ لوگ چاہے کوئی بھی ہوں کسی کے بھی بیٹے یا بھائی ہوں ان کیخلاف بلاامتیاز کارروائی ریاست کا فرض ہے۔ خواتین کا احترام معشرتی اخلاقیات کا اعلیٰ معیار ہے
shah Mar 26, 2016 08:02pm
Govt should implement law regarding harassment and these culprits should be punished/fined. In Pakistan, harassment is a major issue
ahmaq Mar 27, 2016 03:24am
@shah you write very good. Now let us know how to implement these especially after model town incident or bakery episode at Lahore........
Umar Farooq Mar 27, 2016 11:08am
Every woman has a right and men are to protect & respect that right no matter what so ever the relation is.