• KHI: Partly Cloudy 21.8°C
  • LHR: Clear 14.3°C
  • ISB: Partly Cloudy 10.1°C
  • KHI: Partly Cloudy 21.8°C
  • LHR: Clear 14.3°C
  • ISB: Partly Cloudy 10.1°C

'سرکاری ٹی وی دیکھتا کون ہے'

شائع July 14, 2016

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی انتخابی اصلاحات کے حوالے سے پیش کردہ تجاویز کو غیر اطمینان بخش قرار دیتے ہوئے ہدایت کی ہے کہ وہ سیاسی جماعتوں سے مشاورت کرکے دوبارہ رپورٹ جمع کرائے۔

سپریم کورٹ میں انتخابی اصلاحات کیس کی سماعت چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے کی۔

سماعت کے دورام الیکشن کمیشن کی جانب سے شفاف انتخابات کے حوالے سے تجاویز عدالت میں پیش کی گئیں۔

الیکشن کمیشن نے سفارش کی کہ بل بورڈز، پوسٹرز، پمفلٹس اور وال چاکنگ پر مکمل پابندی ہونی چاہیے، انتخابی جلسوں سے خون خرابہ ہوتا ہے، لہذا ان پر بھی پابندی عائد کی جائے۔

سیاسی جماعتوں کی جانب سے ووٹرز کو ٹرانسپورٹ سہولت فراہم کرنے، ترقیاتی اسکیموں کے اعلان، نجی چینلز پر سیاسی مہم چلانے کی اجازت نہ دینے کی تجویز بھی دی گئی۔

تجاویز کے مطابق سیاسی مہم صرف سرکاری ٹی وی پر چلانے کی اجازت ہونی چاہیے اور انتخابی مہم کے دوران امیدوار کارنر میٹنگز اور اپنا منشور ڈور ٹو ڈور پہنچا سکتا ہے۔

سماعت کے دوران جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ اگر ہر چیز پر پابندی لگانی ہے تو الیکشن کرانے پر بھی پابندی عائد کریں۔

انہوں نے کہا کہ سرکاری ٹی وی دیکھتا کون ہے، بظاہر الیکشن کمیشن کی یہ تجاویز آئین سے متصادم ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ پنجاب یا سندھ کلب کا الیکشن نہیں کہ ہر چیز پر پابندی ہو، یہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے الیکشنز ہیں، اس طرح کا پابندیوں والا الیکشن 1985 میں بھی ہوا تھا۔

عدالت نے الیکشن کمیشن کو انتخابی اصلاحات کی تجاویز پر تمام سیاسی جماعتوں سے مشاورت کرکے رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے مقدمے کی سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردی۔

الیکشن کمیشن کے ارکان کی تقرری کیلئے ڈیڈ لائن

دوسری جانب الیکشن کمیشن کے نئے ارکان کی عدم تقرری کے حوالے سے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے حکومت کو الیکشن کمیشن کے ارکان کی تقرری کے لیے 27 جولائی کی ڈیڈ لائن دے دی۔

یہ بھی پڑھیں: الیکشن کمیشن غیر فعال:چیف جسٹس کا معاملے پر ازخود نوٹس

سپریم کورٹ نے حکومت کو ہدایت کی کہ وہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اُن چار ارکان کی جگہ نئی تقرریاں 27 جولائی تک مکمل کرلے جن کی مدت ملازمت 12 جون کو ختم ہوچکی ہے۔

یاد رہے کہ گزشتہ روز چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس انور ظہیر جمالی نے اس حوالے سے از خود نوٹس لیا تھا اور اٹارنی جنرل کو رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی تھی۔

سماعت کے دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل رانا وقار نے عدالت کو بتایا کہ وزیر اعظم نواز شریف کی علاج کے لیے لندن روانگی کی وجہ سے نئے ارکان کی تقرریوں میں تاخیر ہوئی اس کے علاوہ اپوزیشن جماعتوں سے بھی مشاورت کا سلسلہ جاری ہے۔

اس موقع پر چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ عدالت کو حکومت اور اپوزیشن کی ملاقاتوں اور وزیراعظم کے بیرون ملک ہونے سے کوئی واسطہ نہیں، ہمیں جلد از جلد الیکشن کمیشن میں نئے ارکان کی تعیناتی چاہیے تاکہ ادارہ درست طریقے سے اپنے فرائض انجام دے سکے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ کسی رکن کی مدت ملازمت ختم ہونے کے بعد نئے رکن کی تقرری کے لیے حکومت کے پاس 45 روز کا وقت ہوتا ہے۔

چیف جسٹس نے اس موقع پر کہا کہ الیکشن کمیشن کے چار ارکان کی سبکدوشی سے قومی اور صوبائی اسمبلیوں اور بلدیات کی خالی نشستوں پر ضمنی انتخابات کے انعقاد اور دیگر معاملات میں مشکلات اور تاخیر کا سامنا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کو نئے ارکان کی تقرری کا عمل 12 جون سے قبل ہی شروع کردینا چاہیے تھا تاکہ کسی بھی قسم کی تکلیف سے بچا جاسکے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کو الیکشن کمیشن کے ارکان کی مدت ملازمت مکمل ہونے کی تاریخ کا علم تھا اب سارا کمیشن غیر فعال ہوگیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کسی کو بھی آئین کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

واضح رہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے چار ارکان کی مدت ملازمت 12 جون کو ختم ہوگئی تھی، ان چاروں نے 13 جون 2011 کو عہدے سنبھالے تھے۔

آئین کی 22ویں ترمیم کے مطابق وزیراعظم الیکشن کمیشن کے ارکان کی تقرری اپوزیشن لیڈر کی مشاورت سے کرنے کے پابند ہیں۔


کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2025
کارٹون : 21 دسمبر 2025