ترکی میں تین ماہ کیلئے ایمرجنسی نافذ

21 جولائ 2016
ترکی کے صدر رجب طیب اردگان صدارتی محل میں منعقدہ اجلاس کے بعد خطاب کر رہے ہیں۔ فوٹو اے پی
ترکی کے صدر رجب طیب اردگان صدارتی محل میں منعقدہ اجلاس کے بعد خطاب کر رہے ہیں۔ فوٹو اے پی

انقرہ: ترک صدر طیب اردگان نے گزشتہ ہفتے فوجی بغاوت کی ناکام کوشش میں ملوث 'دہشت گرد گروپ' کے خلاف کارروائی کا عزم ظاہر کرتے ہوئے ملک میں تین ماہ کیلئے ایمرجنسی نافذ کر دی۔

انقرہ میں اپنے صدارتی محل میں منعقدہ اجلاس کے بعد عوام سے خطاب میں ایمرجنسی کے نفاذ کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ بغاوت میں ملوث دہشت گرد تنظیم کے افراد سے نمٹنے کیلئے ایمرجنسی نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔

ترک فوج کے ایک دھڑے نے گزشتہ ہفتے حکومت کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے ترکی کے باسفورس پل، استبول ایئرپورٹ اور پارلیمنٹ سمیت سرکاری و نجی میڈیا اداروں اور اہم عمارتوں پر قبضے کی کوشش کی تھی جبکہ اس دوران 300 سے زائد افراد ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہوئے تھے۔

طیب اردگان امریکا میں مقیم اپنے حریف فتح اللہ گولن پر بغاوت کا اصل محرک قرار دینے کے ساتھ ساتھ اس کی منصوبہ بندی کرنے کا الزام عائد کرتے رہے ہیں اور انہوں نے امریکا سے گولن کو حوالے کرنے کا مطالبہ بھی کیا تھا جسے امریکی حکومت نے ثبوت کی فراہمی سے مشروط کر دیا تھا۔

واضح رہے کہ فتح اللہ گولن 1999 سے امریکا میں خود ساختہ جلاوطنی کاٹ رہے ہیں، فوجی بغاوت کی ناکام کوشش کے بعد ترک حکومت نے گولن کے خلاف شواہد پر مبنی چار فائلیں امریکا کے حوالے کی ہیں اور گولن کی حوالگی کا مطالبہ کیا ہے۔

فوجی بغاوت کی ناکام کوششوں کے بعد سے بغاوت میں ملوث افراد کی گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہے اور اب تک نو ہزار سے زائد افراد کو گرفتار کیا گیا ہے جس میں فوجی اہلکار، پولیس اہلکار، ججز، سرکاری افسران اور اساتذہ شامل ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ ترک حکام کی جانب سے کیے جانے والے کریک ڈائون میں اب تک 50 ہزار سے زائد افراد کو نوکریوں سے برطرف یا یا معطل کیا جاچکا ہے جبکہ تعلیمی اداروں پر بندش کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

ان تمام افراد پر الزام ہے کہ یہ ناکام فوجی بغاوت میں بلواسطہ یا بلاواسطہ طور پر ملوث تھے۔

طیب اردگان نے کئی گھنٹوں تک جاری رہنے والے ترک نیشنل سیکیورٹی کونسل اور کابینہ کے اجلاس کی صدارت کے بعد اپنے خطاب میں کہا کہ جمہوریت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ یہ اقدامات کسی بھی طرح جمہوریت، قانون اور آزادی کے خلاف نہیں اور ترکی مالی طور پر مستحکم رہے گا۔

اردگان نے کہا کہ کمانڈر ان چیف کی حیثیت سے یہ میرا فرض بنتا ہے کہ مسلح افواج میں موجود تمام تر وائرس صاف کر دیے جائیں۔

ایمرجنسی کے نفاذ کا اعلان ریاست کے اخبار میں شائع ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی قانون دانوں کی منظوری کے بعد ہی اس کا اطلاق ہوتا ہے۔

ایک آفیشل نے بتایا کہ ایمرجنسی کے نفاذ کے ساتھ ہی حکومت کو اضافی اختیارات حاصل ہو گئے ہیں جس کے نتیجے میں وہ لوگوں کی آزادانہ نقل و حرکت پر پابندی عائد کر سکتی ہے لیکن عالمی قوانین کے سبب مالیاتی اور تجارتی سرگرمیوں پر پابندی عائد نہیں کی جا سکتی۔

ترکی نے 1987 میں ترک شدت پسندوں سے نمٹنے کیلئے جنوب مشرقی صوبوں میں ایمرجنسی نافذ کی تھی جسے 2002 میں ختم کردیا گیا تھا۔

آئین کا آرٹیکل 120 پُرتشدد واقعات کے سبب امن عامہ بگڑے کی صورت میں ایمرجنسی کے نفاذ کی اجازت دیتا ہے۔

ادھر ترک حکام کی جانب سے فوجیوں، ججوں، پولیس اہلکاروں اور اساتذہ سمیت دیگر افراد کی گرفتاری پر عالمی قوتوں نے شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔

اس سے قبل ترک رہنما نے فرانسیسی وزیر خارجہ جین مارک کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اپنے کام سے کام رکھنے کا مشورہ دیا تھا جہاں انہوں نے اردگان کو خبردار کیا تھا کہ وہ بغاوت کی ناکام کوشش کو 'بلینک چیک' کی طرح استعمال نہ کریں۔

امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ جان کیری نے بغاوت کی ناکام کوشش کی مذمت کی تھی لیکن ساتھ ساتھ کہا تھا کہ اس بغاوت کے ردعمل میں اس جمہوریت کا احترام کیا جائے جس کی ہم حمایت کرتے ہیں۔

تاہم اس کے برعکس جرمن چانسلر اینجلا مرکل نے براہ راست ترک حکومت کو مخاطب کرتے ہوئے تھا کہ وہ مستقل اس طرح کے اقدامات کر رہی ہے جو قوانین کی خلاف ورزی ہیں۔

لیکن دوسری جانب ترک صدر کا مستقل اصرار ہے کہ گرفتاریاں اور معطلی قانون کے دائرے میں رہ کر کی جا رہی ہیں۔

بغاوت کے بعد حکومت نے اقدامات کرتے ہوئے جہاں 50 ہزار سے زائد سرکاری ملازمین کو نوکریوں سے برطرف کیا جا چکا ہے جبکہ بڑی تعداد میں اسکول اور ریاست کے خلاف مبینہ سازش میں ملوث اداروں کو بند کرنے کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔

وزارت تعلیم کے مطابق اس نے ریاست کے خلاف جرائم کا ارتکاب کرنے والے 626 نجی اسکولوں اور دیگر اداروں کو بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ترکی نے 1577 یونیورسٹیوں کے ڈینز سے استعفیٰ دینے کا مطالبہ کیا ہے جبکہ ریاست کے زیر انتظام چلائی جانے والی یونیورسٹیوں میں غیر ملکی دوروں اور اسائمنٹس سے روک دیا گیا ہے۔

تعلیمی اداروں پر قدغن لگانے کی اصل وجہ یہ ہے کہ طیب اردگان سمجھتے ہیں کہ امریکا میں مقیم ان کے حریف فتح اللہ گولن کے حامی، جو ملک بھر میں تعلیمی نیٹ ورک کا نیٹ ورک چلا رہے ہیں، وہ دراصل حکومت کے خلاف سازش کر کے اسے گولن کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

حکام کے مطابق اب تک تقریباً نو ہزار افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے جس میں 115 جنرل، 350 افسران، چار ہزار 800 فوج کے دیگر اہلکاروں ملٹری ہائی اسکول کے 60 طلبا شامل ہیں جبکہ ترکی کی وزارت دفاع 262 فوجی عدالت کے ججوں اور پراسیکیوٹرز کو بھی برطرف کر چکی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں