نئی دہلی: ہندوستان کی شمالی ریاست گجرات کی خاتون وزیراعلیٰ آنندی بین پٹیل نے وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت پر بڑھتے ہوئے دباؤ اور دلت برادری کے احتجاج کے پیش نظر اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔

عام آدمی پارٹی (اے اے پی) کے رہنما اور دہلی کے وزیراعلیٰ اروند کیجریوال نے دعویٰ کیا ہے کہ آنندی بین پٹیل کے استعفیٰ نے آئندہ اسمبلی کے انتخابات میں ان کی پارٹی کے لیے چیلنجز میں مزید اضافہ کردیا ہے۔

اس سے قبل کیجریوال نے ایک ویڈیو پیغام میں کہا تھا کہ 'مودی حکومت اپنی کابینہ کو ہی ہراساں کررہی ہے، حیران ہونے کی ضرورت نہیں اگر مجھے قتل کردیا جائے، نریندر مودی اپنا اعتماد کھو چکے ہیں'۔

گجرات کی وزیراعلیٰ آنندی بین پٹیل نے ایک ایسے وقت میں استعفیٰ دیا ہے جب ریاست میں ایک ہندو انتہا پسند گروپ کی جانب سے گائے کی کھال اتارنے پر ایک دلت خاندان کو تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد احتجاجی مظاہرے جاری ہیں۔

یاد رہے کہ گذشتہ دنوں چار دلت نوجوانوں کو ایک مردہ گائے کی کھال اتارنے پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا جس پر دلت برادری میں غم و غصہ پایا جاتا ہے۔

اتوار 31 جولائی کو دلت برادری نے انتہاپسند گروپ کے خلاف ریلی نکالی اور حکمران جماعت بھارتی جنتا پارٹی (بی جے پی) کی اس معاملے پر توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ بی جے پی آئندہ الیکشن کے لیے اس سے ضرور سبق سیکھے گی۔

خیال رہے کہ نریندر مودی وزیراعظم بننے سے قبل گجرات کے وزیراعلیٰ تھے اور 2002 کے گجرات فسادات کے دوران ہی انہوں نے اپنے قدم جمائے۔

رپورٹس کے مطابق آنندی پٹیل کے استعفیٰ نے پارٹی کو مزید مشکلات میں ڈال دیا ہے، اگرچہ 2002 میں گجرات فسادات نے نریندر مودی کو ملک کا وزیراعظم بننے میں مدد دی لیکن 2016 میں حالات مختلف ہیں اور ریاست کی حکومت کو دلت برادری کے احتجاجی مظاہروں کی وجہ سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رپا ہے۔

اس سے قبل پاٹیدار برادری نے ریاستی حکومت کو اپنے مطالبات کے سامنے جھکنے پر مجبور کردیا اور وزیراعلیٰ پٹیل (جو خود بھی پاٹیدار برادری سے تعلق رکھتی ہیں) نے ریاست میں پاٹیدار برادری کے لیے ملازمتوں اور تعلیم کا کوٹا مقرر کرنے کا اعلان کیا تھا۔

دوسری جانب پاٹیدار برادری کے چھوٹے رہنما ہردیک پٹیل جیسے ہی جیل سے رہا ہوئے، وہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیے خطرے کی علامت بن گئے ہیں۔

پاٹیدار برادری کی تحریک کے بعد بی جے پی دلت برادری کے احتجاج سے ریاست کو پہنچنے والے نقصانات کا جائرہ لے رہی ہے، جس کے اثرات اب اتر پردیش تک بھی پہنچ چکے ہیں۔

یہ خبر 2 اگست 2016 کے ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں