مجھے وہ زمانہ یاد ہے جب پاکستان چار مختلف کھیلوں کے میدانوں پر حکمرانی کرتا تھا۔

افراتفری سے بھری ملکی تاریخ میں یہ بھلے ہی ایک مختصر دور رہا ہو مگر اس عروج نے ملک کے لوگوں کا سر فخر سے بلند کیا ہوا تھا، اور حقیقت تو یہ ہے کہ اس دور میں جب ٹی وی کھولا جاتا تو خوش ہونے کا کچھ سامان ضرور مل جاتا تھا۔

یہ سب کچھ میڈیا کے اداروں کے تیز اور کرخت آواز میں پاکستان کو اس کی نیند سے جگانے سے کہیں پہلے کی بات ہے۔

ان دنوں عوام میں موجود غریب یہ سوچ کر حیران تھے کہ ٹی وی سیٹ میں ایک (پی ٹی وی) سے زیادہ چینلز کیوں ہیں، اور عوام میں موجود امراء یہ سوچ کر حیران تھے کہ ٹی وی سیٹ میں 4 (پی ٹی وی، اٹاری، وی سی آر اور خاموش راتوں میں دیکھا جانے والا دور درشن) سے زائد چینلز کیوں نہیں ہیں۔

ان چینلز میں سے کم از کم پی ٹی وی ایسا چینل تھا جس پر بھروسہ کیا جاسکتا تھا کہ وہ کچھ ایسا مواد نشر کرے گا جو ذہنی تسکین کا باعث بنتا تھا۔ وہ 1995 کا سال تھا۔ رات نو بجے کا خبرنامہ، جو شاید اس سرکاری چینل کا سب سے زیادہ پرکشش حصہ تھا، وہ خبرنامہ پوری قوم کو ایک ساتھ باندھ لیتا تھا۔

حسن سردار 1986 میں انگلینڈ میں ورلڈ کپ کے دوران ایک روسی کھلاڑی کے پاس سے گیند ڈربل کرتے ہوئے لے جا رہے ہیں۔
حسن سردار 1986 میں انگلینڈ میں ورلڈ کپ کے دوران ایک روسی کھلاڑی کے پاس سے گیند ڈربل کرتے ہوئے لے جا رہے ہیں۔

مجھے یاد ہے کہ میں کھیلوں کی تازہ خبروں کی غرض سے خبرنامہ دیکھتا تھا۔ کھیلوں کی رپورٹس سے قبل چار حصوں بٹی ٹی وی اسکرین پر کچھ جھلکیاں دکھائی جاتی تھیں، ان چاروں حصوں میں پاکستان کی جانب سے چار مختلف کھیلوں میں فتحیاب ہونے کے لمحات دکھائے جاتے تھے۔

پی ٹی وی پر خوشی سے سرشار کرکٹ، ہاکی، اسکواش اور اسنوکر کے کھلاڑی اپنی اپنی فتوحات کا جشن مناتے دکھائے جاتے تھے اور پورے ملک کی کروڑوں عوام ان لمحات کو روزانہ دیکھتے تھے۔

وہ کافی بھلے اور کامیابی کے دن تھے، شاید ایسے دن دوبارہ کبھی دیکھنے کو نہ مل سکیں۔ یہ تو ظاہر ہی ہے کہ چار مختلف کھیلوں میں عالمی ٹائٹلز حاصل کرنا ملک کے عوام کے لیے بے پناہ فخر کا باعث بنا تھا۔ ہم سب کے لیے پاکستانی ہونے کا مطلب، عالمی سطح پر چیمپیئن ہونا تھا۔

ایک گنوایا ہوا موقع

اس دور میں جو بھی ارباب اختیار تھے ان کے پاس یہ ایک بہترین موقع تھا کہ وہ عالمی سطح پر کھیلوں میں ہماری کامیابی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کھیلوں کا بنیادی انفراسٹرکچر مضبوط کرتے۔

پڑھیے: قومی کرکٹ بچانی ہے تو اسکول کرکٹ بحال کریں

ہمیں پروفیشنلز کی زیرِ سربراہی ایسے ادارے تعمیر کرنے چاہیے تھے جو گلی محلوں میں موجود باصلاحیت کھلاڑیوں کو بھی آگے آنے کا موقع فراہم کرتے، اور ان کی بہتر انداز میں تربیت کرتے تاکہ مستقبل میں وہ کھلاڑی ان کھیلوں کے ہیرو بن کر ابھرتے۔

مگر صاف بات ہے کہ ہم نے موقع گنوانے کا کوئی موقع نہیں گنوایا۔

ڈان اخبار کا صفحہء اول 1960 میں روم میں پاکستانیوں کی فتح کا اعلان کر رہا ہے۔
ڈان اخبار کا صفحہء اول 1960 میں روم میں پاکستانیوں کی فتح کا اعلان کر رہا ہے۔

ہم نے ایسے مستحکم ادارے جو ہماری ٹیموں کو مضبوط کرتے اور مسلسل چیمپیئنز پیدا کرتے، بنانے کے بجائے اپنا مکمل وقت انفرادی شخصیات پر توجہ مرکوز کرنے اور ہیروز کی پرستاری میں گنوا دیا۔

نتائج سب کے سامنے ہیں۔ ہم ٹوٹ پھوٹ کے شکار اسپورٹس انفراسٹرکچر کی بہتری کے لیے اب بھی ایسے مسیحا کے شدت سے منتظر ہیں جو کبھی بھی نہیں آئے گا۔

پاکستان کی کرکٹ میں تنزلی قابلِ افسوس بھی ہے اور حیران کن بھی، مگر کرکٹ میں لوگوں کی دلچسپی ابھی اتنی کم نہیں ہوئی کہ یہ ایک غیر مقبول کھیل ہی بن کر رہ جائے۔

مگر ہاکی کا معاملہ مختلف ہے۔

پاکستان کا قومی کھیل

وکی پیڈیا آپ کو بتائے گی کہ ہاکی اب بھی پاکستان کا قومی کھیل ہے۔ اگر آپ نے پاکستان ہاکی ٹیم کی حالیہ مایوس کن کارکردگی دیکھی ہو — وہ ٹیم جو چار بار ورلڈ چیمپئن رہ چکی ہے، حالیہ ورلڈ کپ کھیلنے کے لیے بھی کوالیفائی نہیں کر پائی — تو آپ کو اس پر ہنسنے سے کوئی منع نہیں کر سکتا۔

1978 میں ورلڈ کپ جیتنے والی پاکستان ہاکی ٹیم۔
1978 میں ورلڈ کپ جیتنے والی پاکستان ہاکی ٹیم۔

وہ لوگ جو چاہتے ہیں کہ سبز شرٹس دنیائے ہاکی کے میدان میں ایک بار پھر حکمرانی کریں، تو اس کے لیے اپنا تجزیہ کرنا سب سے زیادہ موزوں رہے گا۔

جب پاکستان میں ہاکی کا عروج تھا تب شہباز اور وسیم عوام میں کافی مقبول تھے۔ وسیم کی جانب سے بائیں جانب مربوط ڈربل کرنے کا منظر دیکھنے لائق ہوتا تھا، اور میں شہباز کو میدان میں گیند بجلی کی مانند شوٹ کرتے کبھی نہیں بھول سکتا جب وہ ایسی صورتحال میں بھی گول اسکور کر لیا کرتے تھے جو کسی دوسرے کے لیے ناممکن ہوتا۔

پاکستانی کپتان اصلاح الدین بیونس آئرس میں ہالینڈ کو 2-3 سے شکست دینے کے بعد ورلڈ کپ جیتنے پر ارجنٹینا کے صدر لیفٹیننٹ جنرل ہورہے رافیل وڈیلا سے ٹرافی وصول کر رہے ہیں۔ 2 اپریل 1978۔ — ڈان اخبار۔
پاکستانی کپتان اصلاح الدین بیونس آئرس میں ہالینڈ کو 2-3 سے شکست دینے کے بعد ورلڈ کپ جیتنے پر ارجنٹینا کے صدر لیفٹیننٹ جنرل ہورہے رافیل وڈیلا سے ٹرافی وصول کر رہے ہیں۔ 2 اپریل 1978۔ — ڈان اخبار۔

سچ بات تو یہ ہے کہ ان دونوں کی صلاحیتوں کا ہی تقاضا تھا کہ شہباز نامی دونوں کھلاڑیوں کو سینئر اور جونیئر میں الگ کرنا ضروری ہو گیا تھا۔ پاکستان کے مایہ ناز گول کیپر منظور احمد اپنی طرف تیزی سے بڑھتے پینلٹی اسٹروکس کو اپنے مضبوط دفاعی ہاتھوں سے باآسانی مکمل طور پر ناکام بنا دیتے تھے۔

ہاکی اسکولوں میں فروغ پا رہی تھی اور بچے گلیوں میں ہاکی کھیلتے دکھائی دے رہے تھے۔ ہاکی میں عوامی دلچسپی کبھی بھی اتنی زیادہ نہیں رہی تھی۔ ہاکی کے ایسے بیج جو ہمارے لیے کامیابی کا مسلسل پھل دینے والے درخت بن سکتے تھے، ہمارے پاس موجود تھے۔ بس انہیں بونے کی ضرورت تھی۔

افسوس کے ساتھ ہم ان کامیابی کے بیجوں کو وہ ماحول ہی فراہم نہ کروا سکے جو انہیں حقیقی کامیابی تک لے جاتا۔ شاید اس کا تعلق مالی وسائل کی کمی ہو، مگر میں اس بات کا سب سے زیادہ ذمہ دار وژن اور پروفیشنلزم کی کمی کو ٹھہراؤں گا۔

اب آگے کیا کیا جائے؟

پوری دنیا میں اب چمک دھمک والی نفع بخش لیگز پر مبنی فرنچائزز کے درمیان مقابلوں کو بیزار کن اور بے رنگ ڈومیسٹک مقابلوں پر ترجیح دی جاتی ہے۔ کئی کھیلوں میں یہ بڑی تبدیلی کافی کامیاب رہی ہے۔

مزید پڑھیے: شکریہ پاکستان سپر لیگ

بزنس کے اصولوں اور ضابطوں کو اپنایا جائے تو کھیل خود ہی نفع اور نقصان کا جوابدہ ہوتا ہے۔ اپنی قدر ثابت کرنے کے لیے کھیلوں کی ایک فرنچائز کو صرف وجود قائم رکھنا نہیں ہوتا— بلکہ مزید آگے بڑھتے رہنا اور اپنی کامیابی کے تسلسل کو قائم رکھنا ہوتا ہے۔

فرنچائز نظام اپنا کر پاکستان ہاکی کو مزید ڈوبنے سے بچایا جا سکتا ہے۔ — اے ایف پی۔
فرنچائز نظام اپنا کر پاکستان ہاکی کو مزید ڈوبنے سے بچایا جا سکتا ہے۔ — اے ایف پی۔

اپنے ملک میں اس طرز کو اپنا کر شاید ہم پاکستان میں ہاکی کو دوبارہ زندہ کر پائیں۔ پی ایس ایل کے پہلے سیزن کی شاندار کامیابی اس بات کی شاہد ہے کہ فرنچائز پر مشتمل پروفیشنل لیگز کا ماڈل پاکستان میں واقعی کامیاب ہو سکتا ہے۔

اگر ہم اپنے فرنچائز سسٹم کو پہلے سے قائم شدہ کسی پروفیشنل ہاکی لیگ کی طرز پر بنانا چاہتے ہیں، تو ہمیں اس حوالے سے کہیں دور دیکھنے کی بھی ضرورت نہیں۔ مثلاً ہاکی انڈیا لیگ پچھلے چار سالوں سے اس ماڈل پر کامیابی سے عمل کرتا چلا آ رہا ہے اور اس طریقے کے تحت ایک اچھی خاصی رقم بھی کما رہا ہے۔

اگر ہندوستان ایسا کر سکتا ہے تو پاکستان کیوں نہیں کر سکتا؟

اگر پروفیشنل فرنچائز پر مشتمل پاکستانی لیگ جڑ پکڑ لیتی ہے اور افزائش پانے لگتی ہے تو پھر یورپیئن فٹ بال کی طرز کی چیمپئنز لیگ جیسی لیگ بننا کوئی دیوانے کا خواب نہیں رہے گا۔ اگر ہم اپنے قومی کھیل کے بارے میں ذہین، منظم اور جذباتی ہو جائیں تو پاکستان میں ہاکی کی بحالی ممکن ہے۔

ہماری لیگ میں پاکستانی ٹیلنٹ شامل کرنے کی خاطر ہم ایک یا اس سے زائد فرنچائز ٹیموں کے لیے کراؤڈ فنڈنگ، یعنی عوام کی جانب سے فرنچائز کی فنڈنگ کرنے، کے خیال پر بھی غور و فکر کر سکتے ہیں۔ اس طرح کا بڑا قدم ہاکی کے مقابلوں میں بڑی سطح پر دلچسپی پیدا کرسکتا ہے۔

اگر پاکستانیوں نے لیگ میں اپنے محنت سے کمائے ہوئے پیسوں سے سرمایہ کاری کی تو اس کھیل میں ایسی ہی دلچسپی پیدا ہوگی جو صرف احساسِ ملکیت سے ہی پیدا ہوسکتی ہے۔

جانیے: پاکستان ہاکی : عروج اور زوال

پہلا قدم ہمیشہ انتہائی مشکل ہوتا ہے۔ پر اگر پاکستان ہاکی میں بھی ویسے ہی منطقی، انتظامی اور مارکیٹنگ کے اقدامات اٹھائے جائیں جس طرح پی ایس ایل اور ایچ آئی ایل نے اٹھائے، جن کی کامیابی کی داستانیں ببانگ دہل سنائی دیتی ہیں، تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ ہمارے ہاکی کی قسمت پلٹ نہ سکے۔

ایسا مضمون جو پاکستان ہاکی کے سنہری دنوں اور ناموں، مشہور گول کیپر منصور کو یاد کرتا ہے، اگر اس مضمون میں ویب پر گردش کرنے والی منصور کی خراب صحت کی اطلاعات کا تذکرہ نہیں ہوتا تو یہ ایک بڑی زیادتی ہوگی۔

پاکستان میں ہاکی کو زندہ کرنے کے لیے جو کچھ بھی کرنا پڑے، کرنا چاہیے، اور اس ضمن میں سب سے بہترین ابتداء یہ ہوگی کہ ہم اپنے ماضی کے ستاروں کو بے یار و مددگار چھوڑ دینے کے بجائے مشکل وقت میں ان کا ساتھ دیں۔

انگلش میں پڑھیں۔

تبصرے (0) بند ہیں