وہ بچے جو اب بھی باپ کی واپسی کے منتظر

شائع September 11, 2016
ایڈووکیٹ عبداللہ اچکزئی اپنے بیٹے کے ساتھ — فوٹو بشکریہ اچکزئی خاندان
ایڈووکیٹ عبداللہ اچکزئی اپنے بیٹے کے ساتھ — فوٹو بشکریہ اچکزئی خاندان

'میرے والد کراچی گئے ہیں اور میرے لیے گڑیا لے کر آئیں گے'۔

ہر رات پانچ سالہ ملائیکہ اپنے والد محمود خان کی کام سے واپسی کا انتظار کرتے کرتے سو جاتی ہے، وہ نہیں جانتی کہ محمود خان جو کہ ڈان ٹی وی کے کیمرہ مین تھے، ان ستر سے زائد افراد میں سے ایک تھے جو 8 اگست کو سول ہسپتال کوئٹہ میں ایک بم دھماکے میں ہلاک ہوگئے تھے۔

وہ واحد بچی نہیں جو اپنے کسی پیارے کی غیر حاضری سے متاثر ہوئی ہے، اس حملے کے ایک ماہ بعد بھی متاثرہ خاندان تاحال غم کی کیفیت سے باہر نہیں نکل سکے۔ غم و رنج کا غلبہ ہونے کے ساتھ ساتھ متعدد اب بھی خاموشی سے اپنے پیاروں کے لیے تڑپ رہے ہیں۔

آریان، ایڈووکیٹ باز محمد کاکڑ کا بیٹا ہے، جو اپنے مرحوم والد کے بستر کی چادر کو چومتا ہے جس میں اب بھی مرحوم کی مہک موجود ہے۔ اس کی والدہ اکثر اپنے بیٹے کی بے بسی کو دیکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگتی ہیں۔

چار سالہ احمد روزانہ رات کو جاگ جاتا ہے اور اپنے مرحوم والد ایڈووکیٹ بشیر احمد زہری کے لیے رونے لگتا ہے۔

بلوچستان ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر عبدالغنی خلجی بتاتے ہیں " بیوائیں اور غم کی شکار مائیں بے خواب راتیں گزار رہی ہیں"۔

صدمے کا بعد کا تناﺅ

بم دھماکوں، ٹارگٹ کلنگ اور اغوا کے مسلسل واقعات نے کوئٹہ کے عوام پر طویل المعیاد اثرات مرتب کیے ہیں، خاص طور پر 8 اگست کے سانحے کے بعد سے نفسیاتی مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔

ایڈووکیٹ باز محمد خان اپنے بیٹے آریان کے ساتھ — فوٹو کرٹسی مرحوم کا خاندان
ایڈووکیٹ باز محمد خان اپنے بیٹے آریان کے ساتھ — فوٹو کرٹسی مرحوم کا خاندان

ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ مردوں کے مقابلے میں خواتین مریضوں کی تعداد زیادہ ہے، ان میں سے بیشتر خواتین کو روزمرہ کے امور سے نمٹنے کے لیے تنہا چھوڑ دیا گیا ہے۔

ڈاکٹر غلام رسول کے مطابق ایسے خاندانوں کو صدمے کے بعد کے تناﺅ کا تجربہ ہوسکتا ہے اور ڈاکٹروں سے کونسلنگ اشد ضروری ہے خاص طور پر بچوں کے لیے، جب کسی بچے کو والد یا والدہ میں سے کسی کی موت کا سامنا ہوتا ہے تو جذباتی صدمہ تباہ کن ہوسکتا ہے اور اس کے طویل المعیاد اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔

انہوں نے مزید بتایا ' بچوں میں ذہنی بے چینی، مزاج بگڑنا یا مناسب نگہداشت نہ ہونے پر دیگر مسائل کا امکان زیادہ ہوتا ہے'۔

بچے واضح طور پر اتنے بڑے نقصان کے بعد جدوجہد کا شکار ہیں، سانحے میں ہلاک ہونے والے ایڈووکیٹ حفیظ اللہ مینگل ، جو اپنے پیچھے ایک بیوہ، ایک بیٹی اور پانچ بیٹوں کو چھوڑ گئے ہیں، کے کزن خلیل احمد مینگل نے بتایا ' ان کے تمام بچے خاص طور پر آٹھ سالہ ارسلان ہر وقت اپنے باپ کے بارے میں ہی بات کرتا رہتا ہے'۔

جذبات اس وقت زیادہ شدید ہوجاتے ہیں جب خاندان کے اراکین بچوں کو اپنے باپ کا انتظار کرتے دیکھتے ہیں، اس حوالے سے آریان کے والد کے کزن حسیب خان کاکڑ نے بتایا ' میرے لیے آریان کو دیکھنا بہت تکلیف دہ ہوتا ہے'۔

اس حالت سے باہر نکلنا

بولانا میڈیکل کمپلیکس ہسپتال کے سائیکلوجی ڈیپارٹمنٹ کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر حضرت علی اچکزئی کے مطابق رنج و غم کی صورت میں کونسلنگ فوری طور پر ہونی چاہئے' میں نے اپنے بھائی کے قتل کے بعد اپنے خاندان کے افراد کی کونسلنگ کی تھی'۔

ان کے چھوٹے بھائی بیرسٹر امان اللہ اچکزئی جو کہ لاءکالج کوئٹہ کے پرنسپل تھے، کو رواں سال 8 جون کو ہلاک کردیا گیا تھا۔

ہر سانحے کے بعد متاثرین کو پانچ مراحل سے گزرنا پڑتا ہے، یعنی انکار، جارحیت، مفاہمت، ڈپریشن ، قبولیت اور بے حسی کی تیکنیکس۔ اس عمل کے آغاز میں ڈاکٹر اچکزئی متاثرہ خاندانوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہین کہ بچوں کو آگاہ کریں کہ اب ان کے والد ہمارے درمیان نہیں رہے۔

وہ ماﺅں کو بتاتے ہیں کہ اگر بچوں کو یہ بات کسی اور سے معلوم ہوئی تو صورتحال بدتر بھی ہوسکتی ہے۔

اس کا امکان بہت زیادہ ہوتا ہے اور سانحے میں ہلاک ہونے والے نصیر کاکڑ کے خاندان کے ایک فرد نے بتایا " جب بھی بچے اپنے گھروں سے باہر نکلتے، پڑوس کے دیگر بچے انہیں بتاتے کہ ان کے پاپا مرچکے ہیں، جس کے بعد وہ یہ تکلیف دہ سوال گھر واپس جاکر اپنی ماﺅں سے کرتے'۔

بیشتر مائیں اب بھی اس حقیقت کی تردید کر رہی ہوتی ہیں۔

ماہرین زور دیتے ہیں کہ بچوں کو یہ خبر کس طرح معلوم ہوتی ہے، اس کی ہی سب سے زیادہ اہمیت ہے۔ مگر اس مشورے کے باوجود مائیں سوچتی ہیں کہ آخر کس طرح وہ اپنے بچوں کو اس حقیقت کا احساس دلائیں کہ اب ان کے والد گھر پر تحفوں کے ساتھ واپس نہیں آئیں گے بلکہ اب وہ کبھی گھر واپس ہی نہیں آئیں گے۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2025
کارٹون : 22 دسمبر 2025