کوک اسٹوڈیو: مدھر گیتوں سے شور تک کا سفر

کوک اسٹوڈیو: مدھر گیتوں سے شور تک کا سفر

خرم سہیل

دنیا میں انسانوں نے ایک دوسرے سے مخاطب ہونے کے لیے جو زبانیں ایجاد کیں، انہیں بولنے کے لیے سیکھنا بھی پڑا، مگر دنیا میں ایک زبان ایسی بھی ہے جس میں کچھ بولنا نہیں ہوتا، خاموشی معاونت کرتی ہے اور آپ محوِ گفتگو ہوتے ہیں۔ اسے ’’گفتگو بہ زبانِ موسیقی‘‘ کہا جاتا ہے۔

دنیا کے کسی بھی خطے میں تخلیق کی گئی موسیقی ہو، جب اس کے سُر فضا میں بکھرتے ہیں تو سازوں کی جل ترنگ سے احساسات کو نئی زبان ملتی ہے، سماعتیں سیراب اور روح لذت میں سرشار ہونے لگتی ہے۔ لمحہ لمحہ تصویر بن کر تصور کے پردے پر اترنے لگتا ہے۔

عہدِ جدید کی موسیقی کا احاطہ کیا جائے تو کوک اسٹوڈیو کے تحت تخلیق کی جانے والی موسیقی انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ روایتی اور جدید موسیقی کا سنگم ہے۔ اس انداز کے ذریعے دونوں کے درمیان فاصلے کم ہوئے اور دونوں طرف کے موسیقاروں اور گلوکاروں کو ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر کام کرنے کا موقع ملا۔ دونوں انداز کی آوازوں کے امتزاج نے سماعتوں میں ایسا رس انڈیلا کہ تخیل کی منڈیر پر رنگ برنگے پرندے اترنے لگے۔

روایتی اور جدید موسیقی کے اس حسین ملاپ کا کینوس صرف پاکستان تک ہی محدود نہیں بلکہ لاطینی امریکی ممالک، مشرقِ وسطیٰ، افریقا، بھارت اور پاکستان تک وسیع ہے۔

کوک اسٹوڈیو کے منفرد خیال کی ابتدا

کوک اسٹودیو کی ابتدا لاطینی امریکی ممالک سے شروع ہوئی، جس کا کوئی حوالہ کوک اسٹوڈیو کی ویب سائٹ پر تو نہیں ملتا مگر ذرا باریک بینی سے تحقیق کی جائے تو یہ تفصیلات مہیا ہوجاتی ہیں، البتہ ایشیا میں کوک اسٹوڈیو سب سے پہلے پاکستان میں شروع ہوا۔

جب اس کی مقبولیت میں اضافہ ہوا تو اسے بھارت میں بھی شروع کیا گیا۔ پھر یہ عرب اور افریقی ممالک تک جا پہنچا۔ پاکستان اور بھارت نے تو اپنے مقامی فنکاروں سے کام لیا مگر عربی اور افریقی موسیقی میں مغربی فنکاروں کو بھی شامل کرنا پڑا جس کی وجہ سے مکمل خالص موسیقی تخلیق نہ کی جاسکی۔

نامور موسیقار و گلوکار اے آر رحمان کوک اسٹوڈیو انڈیا میں پرفارم کر رہے ہیں — فوٹو بشکریہ کوک اسٹوڈیو انڈیا۔
نامور موسیقار و گلوکار اے آر رحمان کوک اسٹوڈیو انڈیا میں پرفارم کر رہے ہیں — فوٹو بشکریہ کوک اسٹوڈیو انڈیا۔

پاکستان اور بھارت اس حوالے سے خوش قسمت رہے، البتہ دونوں ممالک میں چند ایک گلوکاروں کو سن کر ایسا لگا کہ ان کی ابھی کوک اسٹوڈیو میں ضرورت نہ تھی۔ مجموعی طور پر گلوکاروں نے بہت لطف لے کر گایا اور ان کی سرشاری میں ناظرین بھی شریک ہوئے، اسی لیے اب یہ آٹھواں برس ہے اور کوک اسٹوڈیو پاکستان میں کامیابیاں سمیٹ رہا ہے، بلکہ اب تو نت نئے تجربات بھی کیے جا رہے ہیں۔

پاکستان میں کوک اسٹوڈیو کا آغاز

پاکستان میں کوک اسٹوڈیو کے 2 ادوار ہیں۔ پہلا دور 2008 سے لے کر2013 تک کے 6 سال پر محیط تھا، جس میں پاکستان کے معروف بینڈ وائٹل سائنز کے سابق رکن اور باصلاحیت موسیقار روحیل حیات نے پاکستان بھر سے کلاسیکی، لوک اور پاپ موسیقی کے ستاروں کو جمع کیا اور ان کی صلاحیتوں کے مطابق کام لیا۔ یہ دلکش دھنیں ایک عرصے تک ہماری سماعتوں میں رس گھولتی رہیں گی۔

کوک اسٹوڈیو کے دوسرے دور کی ابتدا 2013 میں ہوئی۔ اب کی بار پروڈکشن کی یہ نازک ذمہ داری اسٹرنگز بینڈ کے بلال مقصود اور فیصل کپاڑیا نے سنبھالی۔ 2008 سے 2014 تک 7 برس میں 100 سے زائد فنکار اپنے فن کا مظاہرہ کر چکے ہیں۔ روحیل حیات نے روایتی اور جدید موسیقی کا ایسا سنگم تخلیق کیا، جس کی لذت آشنائی سے شائقین موسیقی نہال ہیں اور اب لطیف اور سریلی دھنوں کا یہ سفر فیصل اور بلال کے سنگ جاری ہے۔

کوک اسٹوڈیو کے پہلے دور کے اختتام پر ایک کتاب کا اجرا بھی کیا گیا۔ یہ دور روحیل حیات کے کام کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ کتاب تصویری انداز میں شایع کی گئی، جس میں پہلے دور کے تمام سیزنز میں شامل فنکاروں کی تصاویر نمایاں کر کے شایع کی گئیں۔ اس کتاب سے شائقینِ موسیقی کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا کیوں کہ اس کی قیمت عام آدمی کی قوت خرید سے باہر تھی۔ شاید یہ کتاب کوک اسٹوڈیو والوں نے اپنے لیے شایع کی تھی، جب ہی اس کا ذکر کہیں پڑھنے یا دیکھنے کو نہیں ملا۔

کوک اسٹوڈیو کا احاطہ کرنے والی کتاب۔ — فوٹو بشکریہ کوک اسٹوڈیو پاکستان۔
کوک اسٹوڈیو کا احاطہ کرنے والی کتاب۔ — فوٹو بشکریہ کوک اسٹوڈیو پاکستان۔

برصغیر کے خطے میں موسیقی کا سفر کلاسیکی گائیکی سے شروع ہوا، لوک گانے والوں سے ہوتا ہوا، پاپ اور راک میوزک تک پہنچا، پھر نیم کلاسیکی موسیقی متعارف ہوئی، گیت، غزل اور اب ڈسکو، ری مکس اور فیوژن کے دور میں ہماری موسیقی داخل ہوئی ہے۔ کوک اسٹوڈیو میں ان تمام اصنافِ موسیقی کا احاطہ کیا گیا ہے۔ کلاسیکی، نیم کلاسیکی، غزل، دوہے، گیت، کافی، قوالی، پاپ، راک، میٹل، جیز، بلیوز شامل ہیں۔

ماضی میں کوک اسٹوڈیو کے طے شدہ پیمانے پر جس طرح کی موسیقی ترتیب پا رہی ہے، یہ موسیقی کا ایک نیا سنگِ میل ہے جس کا ابھی نام طے ہونا باقی ہے، مگر یہ تو طے ہے کہ کوک اسٹوڈیو کے ذریعے پاکستانی، بھارتی، عربی اور افریقی موسیقی ایک نئے عہد میں داخل ہوگئی ہے۔ ہم اور آپ اس کے گواہ ہیں کہ سُر کیسے سماعتوں کو لبریز کردیتے ہیں۔ یہ وہ مقام ہے، جہاں سُر تمام ہوجاتے ہیں ایک دوسرے میں مدغم ہو کر۔ یہی وہ مرحلہ بھی ہے جہاں سامع اور سُر یکجا ہوجاتے ہیں۔

سیزن 9: غیرپیشہ ورانہ رویے کا عکاس

13 اگست 2016 کو شروع ہونے والا کوک اسٹوڈیو کا سیزن 9 ستمبر کے آخری ہفتے میں اختتام پذیر ہوا۔ اس سیزن کا مرکزی گیت ’’اے راہِ حق کے شہیدو‘‘ تھا، جس نے ناظرین اور موسیقی کے شائقین کی توجہ اپنی طرف مبذول کی، مگر یہ بھی ماضی کے باصلاحیت موسیقار سلیم اقبال کی دھن ہے، جس کو نسیم بیگم نے انتہائی شاندار طور سے گایا تھا۔

افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اب کوک اسٹوڈیو بتدریج اپنا معیار کھو رہا ہے۔ عالمی سطح پر ماضی میں مختلف ممالک کے کوک اسٹوڈیوز میں پاکستان کا کوک اسٹوڈیو سرفہرست رہا ہے۔ ماضی قریب میں اس کی گزشتہ چند ایک اقساط میں بھی کئی شاندار گیتوں کی دھنیں سماعت کرنے کو ملیں۔ اس کے ساتھ ساتھ صوفیائے کرام کا کلام اور جدید موسیقی کے امتزاج نے بھی اس کو چار چاند لگا دیے۔ گلوکاروں نے بھی اپنے حصے کی محنت کی، مگر اب ایسا لگتا ہے کہ کوک اسٹوڈیو کی مقبولیت کا سفر انتہائی عروج سے ہو کر پستی کی طرف گامزن ہے، جس کی کئی وجوہات ہیں۔

پروڈیوسرز کا ہجوم

کوک اسٹوڈیو میں روحیل حیات نے جتنے بھی سیزن پروڈیوس کیے، ان کی مقبولیت آج کوک اسٹوڈیو کے کام آ رہی ہے۔ وہ ایک حقیقی پروڈیوسر کی طرح اپنی ذمے داریوں سے نبرد آزما ہوا کرتے تھے۔ کب اور کس شاعر کا کلام منتخب ہوگا، اسے کون سا گلوکار گائے گا، اس کے فیوژن میں کون سے ساز اور آلات استعمال ہوں گے، وغیرہ وغیرہ۔

یہی وجہ ہے کہ جب ہم ان کے تخلیق کیے ہوئے سیزنز کی دھنیں سنتے ہیں، تو وہ دھنیں اب بھی مدھر اور سریلی محسوس ہوتی ہیں۔ روحیل حیات کے بعد اب کوک اسٹوڈیو کے مرکزی پروڈیوسر اسٹرنگز بینڈ کے بلال مقصود اور فیصل کپاڑیہ ہیں۔

کوک اسٹوڈیو کے لیے ان کا انتخاب تکنیکی طور پر غلط تھا کیوں کہ یہ ایک ایسا پاپ بینڈ تھا جس کا صوفی اور فیوژن موسیقی کا کوئی پس منظر نہیں، پھر اسٹوڈیو البم کی تخلیق میں بھی انہیں کوئی خاص مہارت نہ تھی۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ ان کی جگہ کسی ایسے موسیقار کو لیا جاتا جس کے کام کی نوعیت اور موسیقی کا امتزاج کوک اسٹوڈیو کے مزاج سے قریب تر ہوتا۔

کون ہوسکتا ہے مثالی موسیقار اور پروڈیوسر؟

مثال کے طور پر اگر ایک نام لیا جائے تو میکال حسن وہ موسیقار ہے جس کو مختلف گلوکاروں کے اسٹوڈیو البمز ریکارڈ کرنے کا وسیع تجربہ ہے۔ صرف یہی نہیں، بلکہ میکال کے تینوں البم سن لیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کوک اسٹوڈیو کے مزاج سے کتنا قریب ہے، بلکہ یوں کہہ لیں کہ کوک اسٹوڈیو اس موسیقار کے مزاج سے قریب ہے کیوں کہ میکال حسن کا پہلا البم 'سمپورن' کوک اسٹوڈیو شروع ہونے سے پہلے کا ہے۔ اس کو بھی سن کر ایسا لگتا ہے کہ جیسے ہم کوک اسٹوڈیو سن رہے ہیں۔

اس طرح کے موسیقار کو روحیل حیات کی جگہ لینی چاہیے تھی، مگر ایسا نہ ہوسکا۔ ممکن ہے کہ ایک وجہ میکال حسن کی روحیل حیات اور کوک اسٹوڈیو پر تنقید بھی ہو۔ 2013 میں جب چھٹا سیزن نشر ہو رہا تھا تو میکال حسن نے روحیل حیات کو سوشل میڈیا پر تنقید کا نشانہ بنایا تھا، اسی لیے روحیل حیات کے جانے کے بعد میکال حسن پر کوک اسٹوڈیو کے دروازے کھلے، مگر وہاں بھی صرف رسم پوری کی گئی۔

عدنان سمیع خان کو بھی کوک اسٹوڈیو پروڈیوس کرنے کی پیشکش کی گئی تھی لیکن انہوں نے مسترد کردی کیوں کہ غالباً انہیں بھارت کوچ کرنا تھا۔

کوک اسٹوڈیو کے رواں سیزن میں اب صورت حال یہ رہی کہ اسٹرنگز کے ان دونوں اراکین نے اپنے علاوہ بھی 6 مزید پروڈیوسر رکھ لیے، جن میں نوری، شانی ارشد، شیراز اپل، جعفر زیدی، شجاع حیدر اور فاخر ہیں۔ سوائے شجاع حیدر کے، کوئی بھی ایسا پروڈیوسر نہیں جس کے کریڈٹ پر کوئی کامیاب البم یا موسیقی کا منصوبہ ہو۔ اس سے زیادہ حیرت اس بات پر ہے کہ بلال مقصود اور فیصل کپاڑیہ کو میکال حسن اور وقار علی جیسے موسیقار دکھائی نہیں دیتے جو کمرشل اور تخلیق، دونوں پہلوؤں سے کامیاب اور مقبول موسیقار ہیں۔

اصل گلوکاروں سے غیر پیشہ ورانہ سلوک

کیا کوک اسٹوڈیو کے پروڈیوسرز شائقین کو بتانا پسند کریں گے کہ وہ کیا پیمانہ ہے جس کی بنیاد پر اس سال مہوش حیات اور گزشتہ برس عائشہ عمر کو بطور گلوکارہ شامل کیا گیا؟ شلپا راؤ کس کوٹے پر انڈیا سے پاکستان کے کوک اسٹوڈیو میں شریک ہوئی ہیں؟ پھر یہ بھی بتائیں کہ ایسا کیوں ہے کہ عمیر جسوال، علی سیٹھی، عاصم اظہر، ہارون رشید، فاخر، میشا شفیع، نوری، قرۃ العین بلوچ، ریچل وکاجی، سارہ حیدر اور زیب النساء بنگش کے ایک سے زیادہ گیت اس سیزن میں ہیں اور گزشتہ کئی برسوں سے ان کو لگاتار موقع دیا جا رہا ہے جبکہ دوسری جانب رفاقت علی خان جیسے گلوکار کو صرف ایک گیت بلکہ آدھا دیا گیا، کیوں کہ شیراز اپل بھی اس میں شریک گلوکار ہیں۔

شام چوراسی گھرانے کے فرزند کو تو آدھا گیت دے کر نمٹا دیا گیا۔ لطف کی بات یہ ہے کہ وہ شاندار قوالی ہے اور رواں سیزن کے مقبول ترین گیتوں کی فہرست میں ہے۔ اب یہ دامیا فاروق، ریچل وکاجی، سارہ رضا، ہارون رشید، مومنہ مستحسن، نتاشا خان، رضوان بٹ اور کاشف علی وغیرہ کیا عابدہ پروین، امجد صابری، نصیبو لعل، احمد جہانزیب اور رفاقت علی خان سے زیادہ اہم گلوکار ہیں جن کو ایک ساتھ کئی گیت دیے گئے اور ہر سال موقع بھی دیا جاتا ہے؟

کہیں کہیں نئے ناموں میں کچھ اچھے اضافے بھی ہیں مثلاً جبار عباس، معصومہ انور، محسن عباس حیدر، نرمل رائے، شہزاد نواز، لیکن مجموعی حیثیت میں یوں محسوس ہوتا ہے کہ کوک اسٹوڈیو میں شمولیت کا پیمانہ آپ کا گلوکار ہونا اور کہنہ مشق ہونا نہیں، بلکہ پروڈیوسرز سے واقفیت ہے۔ اگر ایسا ہی چلتا رہا تو اس کی مقبولیت روز بروز گرتی جائے گی۔

بے ڈھنگی موسیقی تلے دبے ہوئے سریلے فنکار

کوک اسٹوڈیو کے پروڈیوسرز کو کچھ خبر ہی نہیں۔ مثلاً رواں سیزن میں بابا بلھے شاہ کا ایک ہی کلام دو دو گیتوں میں استعمال ہو رہا ہے۔ ایک طرف احمد جہانزیب اور عمیر جسوال کے گیت 'خاکی بندے' میں شامل ہے، وہی پھر رضوان بٹ اور سارہ حیدر کے گیت ’میری میری‘ میں بھی شامل ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ دونوں گیتوں میں اس کلام کو بے ڈھنگے انداز میں گایا گیا ہے۔

اس میں گلوکاروں سے زیادہ رواں سیزن کے پروڈیوسرز کا قصور ہے جنہیں شاید یہ نہیں معلوم کہ کس گلوکار سے کیا چیز گوانی ہے۔ نصیبو لعل سے ایک عام سی دھن گوا لی گئی جبکہ وہ اونچی پچ کی گلوکارہ ہیں۔ پھر انہی کا ایک شاندار گیت 'شاماں پے گئیاں' کو کاشف علی اور ریچل وکاجی سے گوا کر برباد کر دیا۔

دونوں ہی گلوکاروں نے اس گیت کی شاعری کو غلط تلفظ کے ساتھ گایا۔ مثال کے طور پر گیت کے ایک مکھڑے میں پنجابی تلفظ ’شے دائی‘ ہوگا۔ اگر اس کو اردو میں ادا کیا جاتا تو 'شیدائی' ہوتا، مگر کاشف علی نے تو ایک نیا تلفظ ایجاد کیا اور اس لفظ کو 'شَدائی' کر دیا، یعنی شین کے اوپر زبر لگا کر گایا اور ی کھا لیا گیا۔

اب اس گیت کے پروڈیوسر شیراز اپل ہیں، مگر انہوں نے بھی غور نہیں فرمایا جبکہ یہ ان کی مادری زبان ہے، اس سے بڑھ کر یہ صوفیانہ کلام ہے۔ ان کو اگر کوئی بھی نہیں ملا تھا تو نصیبو لعل سے ہی گوا لیتے، ایسے کئی گیت ہیں، جن کو اس سیزن میں برباد کر دیا گیا، یہ بھی ان میں سے ایک ہے۔

صوتی آلودگی پیدا کرنے والے چند گیت

کوک اسٹوڈیو کے پروڈیوسرز میں سے کسی کو یہ غلطیاں سنائی نہیں دیں۔ قارئین کی معلومات کے لیے بتاتا چلوں کہ ان گیتوں کو ریکارڈ کرنے کے بعد اچھی خاصی ملمع کاری کی جاتی ہے، تب سوائے چند گلوکاروں کے دیگر کے گیت سماعت کرنے کے قابل ہوتے ہیں، اس کے باوجود اس سیزن میں کچھ گیت ایسے ہیں جن کو سننا ناقابلِ برداشت ہے۔ کچھ گیت تو ضایع کردیے گئے جیسے کہ مسرت نذیر کا پنجابی گیت 'لونگ گواچہ' اور پشتو گیت ’دلربانہ رازی‘ ہیں۔

کیا پشتو کا لہجہ فاخر سے بہتر رحیم شاہ نہیں ادا کر سکتے؟ پروڈیوسرز نے ایک پشتو گیت گوانے کے لیے ایسے گلوکار کا انتخاب کیوں نہیں کیا جو زبان سے واقفیت رکھتا ہو۔ ’انوکھا لاڈلا‘ جیسے گیت کو دفن کر دیا گیا۔

میری نظر میں اس سیزن کا سب سے گیا گزرا گیت ’میں راستہ‘ تھا جس کو مومنہ مستحسن اور جنید خان نے گایا اورنوری نے اس کا میوزک پروڈیوس کیا۔ رواں سیزن کی آخری دو اقساط تو بالکل ہی معیار سے عاری ثابت ہوئیں۔ ایسے چند مزید گیتوں کی فہرست ملاحظہ کیجیے۔

حقیقی محنت کی عدم موجودگی

جن سامعین نے کوک اسٹوڈیو میں گائے گئے گانوں کے اصل ورژن سن رکھے ہوں گے، وہ اتفاق کریں گے کہ اس سیزن میں جو چند گیت سماعتوں کو اچھے لگ رہے ہیں، وہ کوک اسٹوڈیو کے پروڈیوسرز کی کاوشیں نہیں، بلکہ پہلے سے کمپوز شدہ ہیں لہٰذا اس میں ان کا کوئی کمال نہیں۔

اب بھی وقت ہے کہ بلال اور فیصل اپنے شناسا چہروں سے باہر نکلیں اور دستیاب توانائی اور وسائل کو حقداروں کو سامنے لانے میں خرچ کریں، یہ ان کی اخلاقی اور پیشہ ورانہ ذمے داری بھی ہے۔ میکال حسن جیسے موسیقار گھر سے بیٹھ کر بھی ان سے زیادہ بہتر اور معیاری کام کر رہے ہیں۔ نصرت فتح علی خان کے بعد میکال حسن وہ دوسرے موسیقار ہیں، جنہوں نے حقیقی معنوں میں صوفی کلام اور جدید موسیقی کا امتزاج تخلیق کیا۔ آج اس پیٹرن کو کوک اسٹوڈیو سمیت ہر جگہ نقل کیا جا رہا ہے۔

چند گوہرِ نایاب اوربے شمار کھوٹے سکے

کوک اسٹوڈیو کے سیزن 9 کے چند اچھے گیتوں میں سرِ فہرست شجاع حیدر کا ’خاکی بندے‘ ہے جسے احمد جہانزیب نے بہت عمدہ طریقے سے گایا، البتہ عمیر جسوال کو پھیپھڑوں کا زور لگانے کے بجائے حلق سے گانا سیکھنا ہوگا، جس طرح میشا شفیع کو ناک سے گانے کے بجائے گلے سے کام لینا ہوگا، ورنہ مشکل ہے کہ یہ سماعتوں کو متاثر کر پائیں۔

یہ سمجھ سے باہر ہے کہ استاد نصرت فتح علی خان کی معروف ترین کمپوزیشن ’آفرین آفرین‘ کے میوزک ڈائریکٹر کے خانے میں فاخر کا نام کیسے شامل ہے؟ مومنہ مستحسن اس گیت کو نبھانے کی اہل نہیں تھیں، نجانے انہیں ہی کیوں اس گانے کے لیے منتخب کیا گیا۔ پاپ موسیقی کے بھی کچھ طے شدہ سر اور سریلے ہوتے ہیں، اسی سیزن میں علی عظمت اور شیراز اپل سامنے کی مثالیں ہیں۔

نوری بینڈ کب کوک اسٹوڈیو کی جان چھوڑے گا، یہ پتہ نہیں۔ اتنے سالوں سے کوک اسٹوڈیو میں گانے کے باجود جہاں سے چلے تھے وہیں کھڑے ہیں۔ جاوید بشیر، رفاقت علی خان اور نصیبو لعل جیسے گلوکاروں کو اس سیزن میں بھگتا دیا گیا۔ امجد صابری اور راحت فتح علی خان کا اشتراک اچھا ثابت ہوا۔ عابدہ پروین کو بھی اب لگے بندھے فارمیٹ سے باہر آنا پڑے گا۔ علی سیٹھی کے ساتھ انہوں نے 'یہ سب تمہارا کرم ہے آقا' گایا۔ بقول موسیقی کے شناوروں کے، عابدہ سے کہیں زیادہ بہتر دیگر گلوکاروں نے ماضی میں گایا ہے۔

جاوید بشیر اور معصومہ انور کے گیت 'جھلیا' کو دونوں نے نبھایا ہے اور شہزاد نواز کی آواز کو صداکاری کے طور پر شامل کیا گیا جو ایک بہترین انتخاب ہے، صداکاری کے لیے ایسی ہی آوازوں اورانداز کی ضرورت ہے، نہ کہ گزشتہ برس کی طرح انور مقصود کی جیسی صداکاری کی۔

پاکستان کے کوک اسٹوڈیو کا معیار ماضی میں بہت اچھا رہا ہے، اگر اس پیمانے پر آئندہ سیزن نہ تخلیق کیے گئے، تو یہ اپنی مقبولیت کھو دے گا۔ امید ہے کہ کوک اسٹوڈیو کے پروڈیوسرز تنقید کو منفی انداز میں لینے کے بجائے اس پر غور کریں گے تاکہ پاکستان کی مختلف ثقافتوں کو موسیقی کے ذریعے دنیا بھر میں متعارف کروانے والا یہ منفرد پراجیکٹ اپنے ہر سیزن کے ساتھ مزید ترقی کرتا رہے۔


بلاگر فری لانس کالم نگار اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ ان سے ان کے ای میل ایڈریس [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔