• KHI: Clear 26.4°C
  • LHR: Partly Cloudy 17.6°C
  • ISB: Partly Cloudy 14.2°C
  • KHI: Clear 26.4°C
  • LHR: Partly Cloudy 17.6°C
  • ISB: Partly Cloudy 14.2°C

'حقوق نسواں بل پر مذہبی اور سیاسی جماعتیں متفق'

شائع October 14, 2016

اسلام آباد: صوبہ پنجاب میں خواتین پر گھریلو، ذہنی اور جسمانی تشدد اور تیزاب گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات کی روک تھام کے لیے بننے والے حقوقِ نسواں بل کو صوبائی اسمبلی سے منظور ہوئے 9 ماہ کا عرصہ ہوچکا ہے، جبکہ حکومت کا کہنا ہے کہ رواں سال دسمبر تک ملتان میں انسدادِ تشدد کا پہلا مرکز اپنا کام شروع کردے گا جو صوبے کے کُل 36 اضلاع کے سینٹرز کا مرکزی ہیڈ کوارٹر ہوگا۔

ایک طرف جہاں اس بل سے معاشرے میں خواتین کو درپیش خطرات میں کمی کی ایک امید پیدا ہوئی، وہیں اس بل کی منظوری کے بعد سے کئی مذہبی جماعتوں کے تحفظات بھی سامنے آئے اور اسلامی نظریاتی کونسل (سی آئی آئی) نے اسے اسلامی اقدار اور آئینِ پاکستان کے خلاف قرار دے دیا تھا۔

مزید پڑھیں: تحفظ نسواں بل آئین کےخلاف قرار

اسلامی نظریاتی کونسل نے یہ بھی کہا تھا کہ پنجاب اسمبلی کی جانب سے کونسل کی رضامندی کے بغیر بل کی منظوری پر صوبائی اسمبلی پر آئین کا آرٹیکل 6 لاگو ہوتا ہے، جو کہ غداری سے متعلق ہے۔

جبکہ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے تحفظ نسواں ایکٹ کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ قوانین 'غیر ملکی ایجنڈے' پر متعارف کروائے جاتے ہیں.

تاہم،اب 9 ماہ گزرنے کے بعد پنجاب حکومت کے اسپیشل مانیٹرنگ یونٹ کے سینئر رکن سلمان صوفی کا دعویٰ ہے کہ اس بل پر تمام مذہبی اور سیاسی جماعتیں متفق ہیں۔

ڈان نیوز کے پروگرام 'نیوز وائز' میں گفتگو کرتے ہوئے سلمان صوفی کا کہنا تھا کہ 'جب اس بل پر مذہبی جماعتوں کے تحفظات سامنے آئے تو وزیراعلیٰ پنجاب نے ایک کمیٹی قائم کی اور ہم نے اُن سب جماعتوں کے لیے اپنے دروازے کھول دیئے کہ وہ آئیں اور اپنے تحفظات کا اظہار کریں'۔

انھوں نے کہا کہ اگرچہ اس بل میں کوئی ایک نکتہ بھی غیر اسلامی نہیں ہے، لیکن ہم نے تمام مذہبی جماعتوں سے ملاقاتیں کی اور اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے انہیں بات کرنے کا موقع فراہم کیا۔

سلمان صوفی کا کہنا تھا کہ 'بدقسمتی سے اس بل پر ایک ابہام تھا کیونکہ جب بل منظور ہوا تو کسی نے تفصیل سے اس کا مطالعہ نہیں کیا تھا جو بعد میں مخالفت کا سبب بنا'۔

ان کا کہنا تھا کہ جب بل کو مکمل طور پر پڑھا گیا تو پھر ان جماعتوں کے تحفظات کو کافی حد تک دور کردیا گیا۔

حقوقِ نسواں بل کی وضاحت کرتے ہوئے اسپیشل مانیٹرنگ یونٹ کے ممبر سلمان صوفی کا کہنا تھا کہ 'یہ بل مرد اور عورت کے درمیان کوئی جنگ نہیں، بلکہ اس کے ذریعے ہر عورت کو بااختیار بنایا گیا ہے کہ وہ اپنی شکایت درج کروا سکتی ہے'۔

ان کا کہنا تھا، 'ظاہر ہے کہ ہر ایک کے گھر کے باہر ایلیٹ پولیس کو تعینات کرنا تو ممکن نہیں، لیکن اس بل میں یہ ضرور کیا گیا کہ اگر کسی بھی خاتون کو کسی شخص سے خطرہ ہے تو وہ درخواست جمع کروائے گی جس پر اُس شخص کو پابند کیا جائے گا کہ وہ اس سے فاصلے پر رہے۔'

بل پر عمل درآمد کے حوالے سے بات کرتے ہوئے سلمان صوفی نے کہا کہ اب تک جو بھی مقامات درج کیے جارہے ہیں وہ پہلے سے موجود قوانین کا حصہ ہیں، لیکن جیسے ہی ملتان میں پہلا مرکز آپریشنل ہوجائے گا تو اس بل پر بھی عملدرآمد شروع کردیا جائے گا۔

انھوں نے کہا کہ یہ جنوبی ایشیاء کا سب سے بڑا مرکز ہوگا جہاں تشدد یا زیادتی کا شکار خواتین کو ایک ہی چھت کے نیچے تمام تر سہولیات فراہم کی جائیں گی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس مرکز کی تعمیر مکمل ہوچکی ہے اور اس کا باقاعدہ افتتاح نومبر کے آخر تک ہوجائے گا۔

پہلے مرکز کی تعمیر میں تاخیر کی وجہ بتاتے ہوئے سلمان صوفی نے کہا کہ چونکہ یہ مرکزی سینٹر ہے، لہذا اس کی تعمیر میں وقت لگا، لیکن دیگر شہروں میں پہلے سے موجود دارالامان کی عمارتوں کو بطور سینٹرز استعمال میں لایا جائے گا۔

خیال رہے کہ 24 فروری 2016 کو پنجاب اسمبلی سے منظور ہونے والے حقوقِ نسواں بل کے تحت گھریلو تشدد، معاشی استحصال، جذباتی و نفسیاتی تشدد، بدکلامی اور سائبر کرائمز قابل گرفت ہوں گے۔

یہ بھی پڑھیں: پنجاب اسمبلی میں تحفظِ خواتین بل منظور

بل کے تحت خواتین کی شکایات کے لیے ٹال فری نمبر قائم کیا جائے گا جبکہ ان کی تحقیقات کے لیے ڈسٹرکٹ پروٹیکشن کمیٹی بنائی جائے گی. پروٹیکشن آفیسر شکایت ملنے کے بعد متعلقہ شخص کو مطلع کرنے کا پابند ہو گا۔

بل کے تحت تشدد کا شکار خاتون کو گھر سے بے دخل نہیں کیا جا سکے گا، جبکہ عدالتی حکم پر مرد، تشدد کی شکار خاتون کو تمام اخراجات فراہم کرنے کا پابند ہو گا اور نان نفقہ ادا کرنے سے انکار پر عدالت تشدد کے مرتکب مرد کی تنخواہ سے کٹوتی کرکے ادا کر سکے گی.

بل میں رکھی گئی ایک دلچسپ شق کے مطابق خواتین پر تشدد کرنے والے مرد کو 2 دن کے لیے گھر سے نکالا جا سکے گا۔

کارٹون

کارٹون : 18 دسمبر 2025
کارٹون : 17 دسمبر 2025