بلوچستان کی تنہائی کا فائدہ پاکستان دشمنوں کو ہوگا

اپ ڈیٹ 16 نومبر 2016
آزادی کے 70 سال بعد بھی صوبے میں ایسا کوئی ہسپتال موجود نہیں جو اتنی بڑی ایمرجنسی سنبھال سکے۔ — اے پی
آزادی کے 70 سال بعد بھی صوبے میں ایسا کوئی ہسپتال موجود نہیں جو اتنی بڑی ایمرجنسی سنبھال سکے۔ — اے پی

دنیا میں ایک ایسا خطہ بھی موجود ہے جو وسائل کے اعتبار سے دنیا کے مالامال ترین خطوں میں سے ہے، مگر اس کے لوگ مسائل کے انبار تلے دبے ہوئے ہیں۔

یہاں کیچڑ فشاں پہاڑ بھی ہیں، جنہیں دیکھنے کے لیے جگہ جگہ سے لوگ آتے ہیں، اور یہاں کے ساحلِ سمندر اب بھی خوبصورت نیلے پانیوں کی وجہ سے مشہور ہیں۔

حیرت کی بات ہے کہ یہاں 2013 میں جب زلزلہ آیا تو کوئی خاص مالی نقصان نہیں ہوا، کیوں کہ انفراسٹرکچر موجود ہی نہیں جو ٹوٹ پھوٹ جائے، ہاں البتہ جانی نقصان سینکڑوں میں ہوا۔

اس دھرتی کا نام بلوچستان ہے۔ گزشتہ کچھ عرصے سے یہاں قدرت کا قہر تو نہیں برسا مگر وحشی درندہ صفت دہشتگردوں نے بہت خون بہایا ہے۔ حال ہی میں یہاں کی مشہور درگاہ مخدوم بلاول شاہ نورانی پر دہشتگرد حملے میں 52 افراد ہلاک ہوئے۔

یوں سمجھ لیجیے کہ بلوچستان ایک ایسا شخص ہے جس کے پاس مال و دولت کی کمی نہیں مگر عدم توجہی اور منافقت نے اس قدر اداسی اور محرومیوں کا شکار کر دیا ہے کہ اب ان غموں کا بوجھ لیے یہ ایک نوحہ خواں بن چکا ہے۔

مگر ایک حقیقت جو کئی لوگ جانتے ہی نہیں، وہ یہ کہ بلوچستان ایک بہت ہی خوبصورت اور دلفریب نظاروں سے بھرا ہوا علاقہ ہے اور یہاں کے لوگ بھی بہت محبت کرنے والے ہیں۔ میں نے کہیں یہ بھی سنا تھا کہ سسئی کو پنھوں کی بلوچی زبان بہت پسند آئی تھی، وہی سسئی جو اپنے پیارے پنھوں کے لیے بلند پہاڑوں کے آگے ڈٹ گئی تھی۔

یہ سب باتیں آہستہ آہستہ معلوم ہوئیں لیکن بلوچی زبان بچپن سے سن رکھی تھی۔ بولنے کی کوشش بھی کی، شاید اس بلوچی سے لگاؤ کی ایک بنیادی وجہ انڈیا سے ہونے والی ہجرت کے بعد شہر کی پرانی آبادی لیاری چاکیواڑہ میں والدین کا قیام تھا۔ وہ لوگ انسان کی قدر کرنا جانتے ہیں۔

کیا غیر یقینی اثرات تھے، کسی آسیب کے نہیں بلکہ ان کی بے پناہ محبت کے۔ میرے دوست کی ہی مثال لیجیے۔ پاکستان امریکن کلچر سینٹر میں جب انگریزی سیکھنے کے لیے داخلہ لیا تو منظور بلوچ سے دوستی ہوئی۔ بات تو بہت پرانی ہے لیکن آج بھی دلوں میں تازہ ہے۔ وہ کراچی تعلیم کی غرض سے آتے جاتے رہتے تھے۔ دوستی بھی خوب نبھائی۔

کم و بیش ایک دہائی کا عرصہ ایسا گزارا کے کوئی رابطہ نہ ہو سکا۔ سی این بی سی میں نیوز بلٹین کی تیاریوں میں مصروف تھا کہ منظور کی کال آگئی، "جوات ہم نے تو مارا آواز سنا تا، اسلام آباد میں سماء کے نمائندے سے نمبر لے کر کال کیا"، یہ تھی دوستی۔

رہی سہی کسر جھل مگسی نے پوری کردی، جنگل میں منگل تھا، ریس کے شرکاء نے نہ صرف گاڑی پر گاڑی رکھ کر شرکت کی، بلکہ کانوائے میں کچن اور ورکشاپ بھی ساتھ لے آئے۔

سابق صوبائی وزیر نادر مگسی نے ریس جیت لی۔ ریس کے پوزیشن ہولڈرز گاڑی سمیت ریمپ پر آتے ٹرافی لیتے اور اپنے تاثرات کا اظہار کرتے، ہر کسی کے حواریوں نے اپنے آتشیں اسلحے سے فتح کا جشن منایا، لیکن جب مگسی صاحب کو ٹرافی ملی تو پہاڑ کی چوٹی پر لگی اینٹی ایئر کرافٹ مشین گن سے بلند ہوتے سرخ شعلوں کا منظر ہی الگ تھا۔

بدقسمتی سے اس سفر سے وابستہ کچھ تلخ حقیقتیں زندگی بھر پیچھا نہیں چھوڑیں گی۔ ایک تو یخ بستہ رات میں بغیر ہوڈ والی موبائل میں لکڑی کی بینچ پر بیٹھا پولیس کا ٹھٹھرتا ہوا جوان جو رات کے آخری پہر اپنی نگرانی میں جھل مگسی جاتے صحافیوں کی رکھوالی کر رہا تھا، اور جھل مگسی میں ہی اک ملنسار نوجوان سے ملاقات جو باہر کی دنیا سے بلکل نابلد تھا۔

یہ تھا میرا ذاتی تجربہ بلوچستان، بلوچ اور بلوچوں سے، مگر بلوچستان کی مکمل بات ایک طویل نوحے سے کم نہیں، ایسا بھی نہیں کہ اس وسیع و عریض میدان میں قدرت مہربان نہیں۔ بہت بخشی ہوئی زمین ہے بس تھوڑی شاہی عنایت کی طلب گار ہے۔

میں سوچتا ہوں کہ پی ٹی آئی کا دھرنا اگر بلوچستان میں ہوتا تو یقیناً وہاں کی پولیس اور ایف سی کی قسمت بھی جاگ اٹھتی اور تنخواہیں بڑھا دی جاتیں، اتنا میڈیا جمع ہوتا اور براہ راست کوریج کے دوران ایک آدھ منٹ وہاں کے لوگوں کے مسائل بھی گنوا دیتا۔ مگر افسوس کہ سیاسی رہنماؤں اور خود کو عوام کی آواز کہنے والے میڈیا سمیت ہر کوئی بلوچستان کی محرومیوں کی تو بات کرتا ہے لیکن وہاں خود جانے کو تیار نہیں۔

بلوچستان کی پسماندگی کا اندازہ یہیں سے لگائیں کہ چاہے سول ہسپتال میں دھماکا ہو، پولیس ٹریننگ سینٹر پر حملہ ہو، یا پھر شاہ نورانی کی درگاہ پر دھماکا ہو، شدید زخمیوں کے علاج کے لیے مریضوں کو کراچی لانا ہی پڑتا ہے کیوں کہ صوبے میں کوئی ایسا ہسپتال نہیں جو اتنی بڑی ایمرجنسی کا سامنا کر سکے، حالانکہ یہ وہی صوبہ ہے جو اس وقت دہشتگردوں کے نشانے پر ہے۔

حد تو یہ ہے کہ شاہ نورانی دھماکے کے بعد ایمبولینسیں اور ڈاکٹر کراچی سے وہاں تک گئے، موبائل کے سگنلز اور بجلی کی عدم دستیابی کی وجہ سے ریسکیو کے کاموں میں شدید تاخیر ہوئی جس کی وجہ سے انسانی جانوں کا نقصان کہیں زیادہ ہوا۔

ہم بلوچستان کو عالمی سازشوں کا مرکز قرار دیتے ہیں، اسے سیکیورٹی اور قومی سلامتی کے حوالے سے حساس ترین خطہ گردانتے ہیں، تو یہاں کے مسائل حل کرنے میں دلچسپی کیوں نہیں لیتے؟

کراچی کی ایک یونیورسٹی میں جیولوجی کے استاد سے ٹی وی کے لیے کچھ وقت مانگا تو انہوں نے معذرت کرلی لیکن ساتھ ساتھ بتایا کہ بلوچستان میں مڈ والکینو ہی نہیں اور بھی بہت کچھ موجود ہے۔ ستم ظریفی کی بات ہے کہ جس خطے میں قدرتی وسائل ہر سو موجود ہیں، وہاں کی 15 لاکھ خاندانوں پر مشتمل آبادی کے نصف لوگ برسرروزگار اور نصف بے روزگار ہیں۔

یہاں بہت زیادہ غربت ہے اور بہت بھوک ہے۔ آواران میں زلزلہ آیا تو انفراسٹرکچر کا کوئی نقصان نہیں ہوا، ہاں جانی نقصان اس لیے ہوا تھا کیوں کہ لوگ جن گھروں میں رہتے ہیں وہ پتھر پر پتھر رکھ کر بنائے جاتے ہیں۔ سوئے ہوئے لوگوں پر پتھر گرنے سے ہی ہلاکتیں ہوئیں۔

ماہرِ معاشیات ڈاکٹر قیصر بنگالی کے مطابق مؤثر حکمت عملی کے ذریعے صوبے میں موجود وسائل کو استعمال کیا جائے تو آئندہ دو سالوں میں بلوچستان میں سات سے آٹھ لاکھ ملازمتیں پیدا کی جاسکتی ہیں جس کے نتیجے میں ہر خاندان کو روزگار میسر ہو پائے گا۔

نیشنل موٹر اسپورٹس کے عہدیداروں کا کہنا تھا کہ جھل مگسی کے پہاڑوں میں موجود جھرنے اور پہاڑ کی چوٹیوں کے خوبصورت مناظر دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں، ضروت صرف پروموشن کی ہے۔

بلوچستان کے مسائل اتنا پیچیدہ نہیں ہیں جتنے کہ دکھائی دیتے ہیں، ایک کامل حکمت عملی کی ضرورت ہے جس کے ذریعے تمام محروم طبقات کی محرومیوں کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ اب تو سی پیک کے تحت تجارتی سرگرمیوں کا آغاز ہو چکا ہے۔ اس خطے کی ہی مرہون منت پاکستان کو اس راہداری کا اعزاز حاصل ہوا۔

آخر میں تمام قلمی اور کیمرائی دوستوں سے التماس ہے کہ پاناما پیپرز اور چار حلقوں سے فرصت مل جائے تو بلوچستان پر بھی توجہ دیں اور یہاں کے مسائل بھی اسی شدت سے بتائیں جیسی دھواں دھار رپورٹنگ ہوٹلوں میں صفائی کے ناقص انتظامات پر کی جاتی ہے۔

متعلقہ ماہرین سے التماس ہے کہ ان مسائل کا حل بتائیں اور حکومت پر ان کے حل کے لیے دباؤ ڈالیں۔ سرکار سے درخواست ہے کہ ان تجاویز کو عملی جامہ پہنائیں اور افواج پاکستان سے اپیل ہے کہ گذشتہ 100 دنوں میں 3 دھماکوں اور سیکڑوں افراد کی ہلاکت کے بعد اپنی حکمتِ عملی کو مزید مضبوط کریں۔

یہاں وسائل بھی ہیں، نظارے بھی، لوگ ملنسار بھی ہیں، بس سرکار سے درخواست ہے کہ نظریں ادھر بھی کریں، ایک جامع منصوبہ بنایا جائے اور بلوچ کو تنہا نہ چھوڑا جائے کیوں کہ پاکستان کا مخالف تنہائی کا فائدہ اٹھانا بخوبی جانتا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (2) بند ہیں

Sharminda Nov 16, 2016 05:00pm
Khuda nay aaj tak us qoam ki halat nahin badli Na ho jis ko khayyal aap apni halat kay badalnay ka
raja kamran Nov 16, 2016 06:57pm
بلوچستان کے بارے میں حسن جواد کی یہ تحریر ان کے صحافیانہ تجربے اور ایک حساس انسان اور پاکستان کے جذبات کی عکاسی کرتی ہے۔ اللہ تعالی حسن جواد کے زور قلم میں اضافہ فرمائے۔