• KHI: Clear 26.4°C
  • LHR: Partly Cloudy 17.6°C
  • ISB: Partly Cloudy 14.2°C
  • KHI: Clear 26.4°C
  • LHR: Partly Cloudy 17.6°C
  • ISB: Partly Cloudy 14.2°C

'حکومت بھارت پر سفارتی دباؤ ڈالنے میں ناکام'

شائع November 25, 2016

اسلام آباد: سابق وزیرِ خارجہ حنا ربانی کھر کا کہنا ہے کہ ہندوستان کی جانب سے مسلسل جارحیت اور سیز فائر معاہدے کی خلاف ورزیوں کے باوجود حکومت اس پر سفارتی دباؤ ڈالنے میں ناکام ہوچکی ہے۔

ڈان نیوز کے پروگرام 'نیوز وائز' میں گفتگو کرتے ہوئے حنا ربانی کھر کا کہنا تھا کہ 'اگرچہ کشمیر کے مسئلہ پر حکومتی پالیسی میں بہت سی خامیاں ہیں، لیکن سرحدی کشیدگی کے مسئلے پر وہ اس طرح سے ناکام ہوچکی ہے کہ جس سے ملک کو بھاری نقصان کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے'۔

انھوں نے کہا کہ 'بدقسمتی سے 3 سال سے زائد وقت گزر جانے کے بعد بھی ایک وزیر خارجہ کا تقرر نہیں ہو سکا جو اس بات کی واضح نشانی ہے کہ حکومت اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں لے رہی'۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیر خارجہ کا منصب اگر وزیراعظم کو اپنے پاس ہی رکھنا ہے تو وہ پوری کابینہ کا کنٹرول خود سنبھال لیں۔

مزید پڑھیں: 'بھارتی جارحیت کی وجہ پاکستان کی غیر فعال خارجہ پالیسی'

حنا ربانی کھر نے کہا کہ جس طرح سے لائن آف کنٹرول (ایل او سی) پر فوجیوں کے ساتھ ساتھ عام شہری بھی اپنی جانیں دے رہے ہیں تو پاکستان کے پاس جواز ہے کہ وہ عالمی برداری کے ذریعے بھارت پر سفارتی دباؤ ڈالے۔

26 نومبر 2011 کو سلالہ چیک پوسٹ پر نیٹو افواج کے حملے کا حوالہ دیتے ہوئے سابق وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ جب بڑی تعداد میں ہمارے فوجی جوانوں کو ہلاک کیا گیا تو ہم نے امریکہ پر ناصرف سفارتی دباؤ ڈالا، بلکہ اُسے معافی مانگنے پر بھی مجبور کیا تھا۔

حنا ربانی کھر کا کہنا تھا کہ بھارت نے اب ہماری ایمبولیس کو بھی نشانہ بنایا، لیکن گذشتہ 6 ماہ سے جو کچھ کشمیر میں ہو رہا ہے انہیں نہیں لگتا کہ اگر پاکستان عالمی برادری کے سامنے یہ مسئلہ لے کر جائے تو وہ ہمارا ساتھ نہیں دے گا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس وقت جو حالات ہیں ان سے یہ بات تو ثابت ہوچکی ہے کہ حکومت کو نہ ملک کی سلامتی کی فکر ہے اور نہ ہی اپنی کارکردگی کی۔

خیال رہے کہ رواں سال لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری پر بھارتی کی جانب سے بلا اشتعال فائرنگ کے واقعات میں نمایاں تیزی دیکھنے میں آئی ہے۔

2016 کے دوران بھارت ایل او سی پر تقریباً 182، جبکہ ورکنگ باؤنڈری پر 38 مرتبہ سیز فائر معاہدے کی خلاف ورزی کرچکا ہے۔

حالیہ واقعہ 23 نومبر کو لائن آف کنٹرول پر پیش آیا جس میں پاک فوج کے کیپٹن سمیت 3 جوان جاں بحق ہوئے۔

اسی روز بھارتی افواج نے ایل او سی کے اطراف پاکستانی علاقے میں ایک بس اور ایمبولینس کو بھی نشانہ بنایا تھا جس میں 10 عام شہری جاں بحق اور 17 زخمی ہوگئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: مظفرآباد: بھارتی فوج کی بس پر فائرنگ، 9 افراد جاں بحق

واضح رہے پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں رواں سال 18 ستمبر کو ہونے والے اڑی حملے کے بعد سے کشیدگی پائی جاتی ہے، جب کشمیر میں ہندوستانی فوجی مرکز پر حملے میں 18 فوجیوں کی ہلاکت کا الزام نئی دہلی کی جانب سے پاکستان پر عائد کیا گیا تھا، جسے اسلام آباد نے سختی سے مسترد کردیا تھا۔

بعد ازاں 29 ستمبر کو بھارت کے لائن آف کنٹرول کے اطراف سرجیکل اسٹرائیکس کے دعوے نے پاک-بھارت کشیدگی میں جلتی پر تیل کا کام کیا، جسے پاک فوج نے سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہندوستان نے اُس رات لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کی اور بلااشتعال فائرنگ کے نتیجے میں 2 پاکستانی فوجی جاں بحق ہوئے، جبکہ پاکستانی فورسز کی جانب سے بھارتی جارحیت کا بھرپور جواب دیا گیا۔

یاد رہے کہ بھارت کی حارحیت صرف ایل او سی اور ورکنگ باؤنڈری تک ہی محدود نہیں، بلکہ رواں ماہ 18 نومبر کو بھارتی بحریہ کی جانب سے بھی پاکستانی سمندری حدود کی خلاف ورزی کی کوشش کی گئی، تاہم پاک بحریہ نے پاکستانی سمندری علاقے میں بھارتی آبدوز کی موجودگی کا سراغ لگا کر انھیں اپنی سمندری حدود میں داخل ہونے سے روک دیا۔

ان واقعات کے بعد حالیہ دنوں میں ہندوستان کے ہائی کمشنر اور ڈپٹی ہائی کمشنر کو دفتر خارجہ طلب کرکے سیز فائر معاہدے کی خلاف ورزی پر احتجاج ریکارڈ کرایا گیا اور بھارتی سفارتکاروں سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ اس بات کی یقین دہانی کرائیں کہ ان واقعات کی تحقیقات کی جائیں گی اور اس کی تفصیلات پاکستان کے ساتھ شیئر کی جائیں گی۔

کارٹون

کارٹون : 18 دسمبر 2025
کارٹون : 17 دسمبر 2025