پیارے پاکستانیو! کنواری لڑکی آپ کیلئے مذاق کیوں؟
چند روز قبل میری بہن نے ہنستے ہوئے اپنا فون میری جانب بڑھایا اور مجھے فیس بک پر ایک پوسٹ دکھائی۔
ہماری ایک غیر شادی شدہ سہیلی کو جوڑوں کو ملانے سے متعلق ایونٹ کی ایک پوسٹ میں 'ٹیگ' کیا گیا تھا جو 10 دسمبر کو اسلام آباد کلب میں ہونا تھا۔
پوسٹ میں بڑے حروف میں لکھا تھا 'اپنے شریک حیات کو ڈھونڈنے کے لیے وقت نہیں ہے؟" 'اسلام آباد میں ہونے والے Him & Her Match-making ایونٹ کی محدود نشستیں دستیاب ہیں، آپ کی جیون ساتھی کی تلاش یہاں ختم ہوجائے گی، آج ہی ساتھی پائیں، یہ ایونٹ صرف تعلیم یافتہ اور بزنس کلاس تک محدود ہے"، اس کے بعد وقت اور جگہ کا ذکر تھا۔
ہم دونوں نے قہقہے لگائے اور میں نے کہا 'اگر کوئی اکانومی کلاس کا ہو تو پھر؟ کیا یہ کوئی طیارے کا ٹکٹ ہے؟'۔

اسی رات میں نے اس پوسٹ کو متعدد فیس بک پروفائلز پر دیکھا، جن میں سے بیشتر پروفائلز میرے کنوارے مرد اور خواتین دوستوں کی تھیں۔
خاندان کے افراد، فکر مند انکلز، آنٹیوں، کزنز اور مختلف دفتری ساتھیوں نے اس پوسٹ کو 'لائیک' کرنا شروع کردیا اور جلد ہی یہ مزاح سے زیادہ کچھ اور لگنے لگی، شادی شدہ دوستوں نے اس پوسٹ پر سنگل لوگوں کو ٹیگ کرنا شروع کر دیا اور کہنے لگے 'ہوسکتا ہے آپ یہاں خوش قسمتی سے شریک حیات تلاش کرلیں'، اور میں نے سوچا ' کیوں؟ لوگ اسے غیر شادی شدہ دوستوں کی جانب بھیج رہے ہیں کیونکہ یہ پوسٹر ذہن میں چپک جانے والا ہے یا شاید اس لیے کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ وہ دوست بدقسمت ہیں اور عمر کی دوسری یا تیسری دہائی کے آخر میں بھی اکیلے ہونے پر اداس ہیں؟'
یہ سلسلہ بڑھتا چلا گیا اور میرے سنگل دوستوں کو اس پوسٹ پر ٹیگ کرنے کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ اگلی صبح میرا فون کنوارے دوستوں کے پیغامات سے بھر گیا جن میں پوچھا گیا تھا 'لوگوں کے ساتھ مسئلہ کیا ہے، آخر وہ اپنے کام سے کام کیوں نہیں رکھتے؟'
اس سوال کا جواب مجھے اس نکتے تک لے گیا: اس سے فرق نہیں پڑتا ہے کہ آپ کس طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، ایک مخصوص عمر کے بعد کنوارا رہنا آج کے پاکستان میں چند متنازع ترین طرز زندگی میں سے ایک ہے۔ زخموں پر مزید نمک چھڑکنے کے مترادف، ہر کوئی آپ کی ازدواجی حیثیت پر ایسے تبصرے کرتا ہے جیسے یہ اس کا پیدائشی حق ہو۔
میرا مطلب یہ ہے کہ پاکستان جیسے ایسے دوہرے معیارات والے معاشرے میں جہاں کسی لڑکی لڑکے کا میل جول لگ بھگ توہین مذہب جیسا ہی ہے، کسی اجنبی کی ماں، بہن اور دادی کے لیے سجنا سنورنا اور ٹی ٹرالی کے ساتھ پریڈ ایک روایات کا حصہ ہے، یہ حیرت انگیز ہے ناں؟
میں اُس پوسٹ کی جانب واپس آتی ہوں اور اپنا نقطہ نظر بیان کرتی ہوں، ہوسکتا ہے کہ یہ ایونٹ ان افراد کے لیے اچھا موقع ہو جن کے پاس ممکنہ شریک حیات سے ملنے کے زیادہ راستے نہ ہوں، مگر پھر بھی یہ ان افراد کے لیے انا کو مارنے کا ایک اور تجربہ ہے جو کہ شادی کے حوالے سے مسلسل تجسس اور دباﺅ میں زندگی گزار رہے ہیں۔
میرے چند دوستوں کی 'رشتہ تلاشنے' کی خوفناک کہانیاں میرے ذہن میں تازہ ہیں۔ میں نے اپنے بارے میں سوچا، دوبارہ نہیں، اتنے زیادہ لوگوں کے سامنے تو نہیں۔ رشتے کی تلاش کے دوران شکل و صورت کی بنیاد پر کسی کو مسترد کرنا روایت ہے؛ اور جب معاملہ خواتین کا ہو تو کوئی بھی ان کی تعلیمی یا پیشہ ورانہ قابلیت کو نہیں دیکھتا۔ کیا یہ کوئی ایسی بات ہے جسے ہم مذاق سمجھ کر نظر انداز کر سکتے ہیں؟
ایک بزرگ خاتون جو کہ 3 غیر شادی شدہ بیٹیوں کی ماں تھیں، نے ایک بار مجھے کہا تھا 'میں واقعی جاننا چاہتی ہوں کہ لوگ ایک دلہن میں کیا چاہتے ہیں، آج کے دور میں ہر چیز کا حل موجود ہے، اگر اس کا رنگ سیاہ ہے تو وہ لڑکی رنگت بہتر بنانے والے انجیکشنز کا استعمال کرسکتی ہے، اگر اس کا قد چھوٹا ہے تو وہ ہیلز پہن سکتی ہے، اگر لڑکا ہلکی رنگت کی آنکھیں اور ہلکے بھورے بال چاہتا ہے تو اس کے لیے کانٹیکٹ لینسز اور ہئیر کلرز موجود ہیں، یہ فہرست بہت طویل ہے'۔
اسی طرح ایک اور دوست جو اپنے دیور کے لیے رشتہ تلاش کررہی تھی، نے واضح کیا کہ اس کا (اور دیور کا) انتخاب ہر ایک کی طرح 'غیر روایتی' نہیں اور ہم نے مذاق میں کہا 'اوہ ہاں وہ تو چھوٹے زنانہ بٹوے تھامے انسٹاگرام والی باربی چاہتا ہے، ہم سمجھ گئے'۔
اس رات میں نے فیس بک پر ایک اسٹیٹس لکھا جس میں میں نے بتایا کہ بہت سے غیر شادی شدہ افراد کو ایک ایسے اسٹیٹس میں ٹیگ کرنا کتنا توہین آمیز ہے۔
اس کے ذریعے میں نے اپنے شادی شدہ دوستوں سے کہا کہ وہ اپنے کام سے کام رکھیں اور اپنے کنوارے دوستوں کو سپورٹ کیا اور کہا کہ وہ جیسے چاہیں اپنی زندگی جیئیں، اس کے بعد میں نے اپنی زندگی پر بات کرنا شروع کی، میں خود غیر شادی شدہ ہوں، جو کہ ایک بہترین بات ہے، میرے والدین بہت اچھے ہیں اور میرا ایک کامیاب کریئر ہے، میرے پاس خیال کرنے والے دوست ہیں اور پرجوش سوشل لائف بھی موجود ہے اور ان سب سے بڑھ کر مجھے زندگی گزارنے کی آزادی ہے، میں ایسا نہیں کہہ رہی کہ میں شادی نہیں کرنا چاہتی، لیکن کنوارے پن سے شادی کی زندگی کا آغاز اپنے صحیح وقت پر ہوتا ہے، اس لیے میری گزارش ہے کہ جیسے ہے اسے ویسے ہی رہنے دیں'۔
لیکن معاشرے میں بہت ہی تھوڑے لوگوں کو یہ سہولت یا عیاشی دستیاب ہے کہ وہ جو سوچتے اس کا اظہار کرتے ہیں، ان کی اپنی رائے کو اہمیت ملتی ہے اور انہیں ان کی فیملی کی جانب سے سپورٹ بھی کیا جاتا ہے۔ مجھے ملنے والی آزادی پاکستان میں لڑکیوں کی اکثریت کے پاس نہیں۔
اور یہی وجہ ہے کہ اب شادی کے سوال پر حساس ہونا پہلے سے زیادہ ضروری ہے۔
جہاں امیر طبقے میں رشتہ ڈھونڈنے کا عمل کافی دلچسپ ہے، وہیں معاشرے کے دیگر طبقات میں یہ اس سے برعکس کافی بُرا نظر آتا ہے، ایک صحافی ہونے کے ناطے میرے سامنے عموماً ایسی کہانیاں آتی ہیں جہاں کم عمری میں بغیر رضامندی کے زبردستی شادی کردی جاتی ہے، یا شادی سے انکار کرنے پر تیزاب گردی کا شکار ہونا، یا لڑکیوں کا خودکشی کرلینا، جو معاشرے کی اس خوفناک حقیقت کو سامنے لاتا ہے جب ایک لڑکی اپنی مرضی سے زندگی گزارنے کی خواہش کرتی ہے۔
حال ہی میں اسلام آباد میں ایک ایونٹ کے دوران پاکستان کے 45 اضلاع سے تعلق رکھنے والی خواتین کمیونٹی رہنماؤں نے حصہ لیا، اس دوران خواتین اور لڑکیوں پر زور دیا گیا کہ وہ اپنے حقوق کے لیے کھڑی ہوں اور اپنے خاندان میں تبدیلی لانے کا ذریعہ بنیں، اس ایونٹ میں موجود ڈپارٹمنٹ آف انٹرنینشنل ڈولپمنٹ کی ڈپٹی ہیڈ جوڈتھ ہربرٹسن کا کہنا تھا کہ 2016 کے پاکستان میں اگر لوگ غریب، اقلیت سے یا معذوری کے ساتھ پیدا ہوں تو وہ غیر مساوی ہیں، مگر سب سے بڑا نقصان یہاں ایک لڑکی پیدا ہونا ہے۔
چند بنیادی اعداد و شمار شیئر کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ پاکستان کی 55 فیصد لڑکیوں کو اسکول جانے کی اجازت نہیں، 35 فیصد لڑکیوں کی شادی ان کی 16ویں سالگرہ سے قبل کردی جاتی ہے، 40 فیصد کو تشدد کا سامنا کرنا پڑا، ایونٹ میں موجود مقررین کے مطابق معاشرے میں جسمانی تشدد میں کمی دیکھنے کو ملی جبکہ ذہنی تشدد اب بھی موجود ہے، جو با اختیار خواتین کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
شادی کرنے کے لیے خواتین کو ہراساں کرنا ذہنی تشدد اور بُرے اخلاق کی ہی ایک شکل ہے۔
پاکستان کی 51 فیصد آبادی خواتین پر مشتمل ہے، لہٰذا تبدیلی لانے کے لیے ہماری حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔
پاکستان میں رہنے والی زیادہ تر لڑکیوں کے لیے سماجی دباؤ ایک مستقل مسئلہ اور سنگین تشویش کا باعث ہے، مجھے اس میں کوئی مذاق نظر نہیں آتا۔
اس لیے اگر آپ کی کوئی کنواری دوست ہے تو اس سے مستقل یہ مت پوچھیں کہ وہ شادی کرنے اور گھر بنانے کے لیے کب تیار ہوگی، اس سے کام کے حوالے سے بات کریں یا وہ کون سی کتابیں پڑھتی ہے یا کچھ اور، زندگی میں شادی کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے۔











لائیو ٹی وی
تبصرے (6) بند ہیں