ترک اساتذہ کی ملک بدری:وفاق کی درخواستیں رد کرنے کی استدعا

شائع December 2, 2016

پشاور: وزارت داخلہ نے پشاور ہائی کورٹ سے پاک ترک اسکول اینڈ کالجز کے تُرک اسٹاف کے ویزے کی میعاد میں توسیع نہ کرنے کے فیصلے خلاف دائر کی گئی دو درخواستیں مسترد کرنے کی درخواست کردی۔

درخواست میں وزارت داخلہ کی جانب سے زور دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ کسی غیر ملکی کو ویزا جاری یا منسوخ کرنا حکومت کا استحقاق ہے۔

چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ جسٹس مظہر عالم میاں خیل اور جسٹس محمد ابراہیم خان پر مشتمل بینچ نے، پاک ترک اسکول کے ترک عملے اور ان کے اہلخانہ کی ملک بدری کے خلاف دیئے جانے والے حکم امتناع میں 13 دسمبر تک توسیع کردی تھی۔

بینچ نے وزارت داخلہ کے فیصلے کے حوالے سے درخواست گزاروں کو جواب دائر کرنے کا بھی حکم دیا تھا۔

ڈپٹی اٹارنی جنرل مسرت اللہ خان نے عدالت میں سیکریٹری داخلہ کی جانب سے جواب جمع کراتے ہوئے کہا کہ یہ معاملہ ملک کی خارجہ پالیسی سے متعلق ہے اور اس حوالے سے کوئی بھی فیصلہ کرنا وفاقی حکومت کا اختیار ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پشاور ہائیکورٹ نے پاک ترک اسکولز کے عملے کی ملک بدری روک دی

انہوں نے دعویٰ کیا کہ ترک حکومت نے پاک ترک اسکول کے عملے کے تمام ارکان کے متبادل عملے کو بھیج دیا تھا، جبکہ عملے کے جن ارکان کو پاکستان سے جانے کا حکم دیا گیا ان کے ویزے کی میعاد میں توسیع نہیں کی گئی تھی۔

ڈپٹی اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ’حکومت نے ملک میں کام کرنے والے ترک اسکول کو بند کیے جانے کے حوالے سے کوئی حکم جاری نہیں کیا، جبکہ عملے کے جن ارکان کو ملک سے جانے کا کہا گیا ان میں سے بیشتر ٹیچرز نہیں تھے بلکہ اسکول کی انتظامی پوسٹس پر کام کر رہے تھے۔‘

پاک ترک اسکول کے عملے کی ملک بدری کے فیصلے کے خلاف دائر کی گئی درخواستوں میں سے ایک 68 طلبا کے والدین نے مشترکہ طور پر دائر کی جن میں ایڈووکیٹ شاہ محمد خان اور اسکول کے 10 ترک ٹیچرز بھی شامل تھے، جبکہ دوسری درخواست اسکول کے طلبا کی جانب سے دائر کی گئی۔

معاملے کی اہمیت کے پیش نظر عدالت میں وفاقی حکومت کی جانب سے تین ڈپٹی اٹارنی جنرلز مسرت اللہ خان، ارشد حسین شاہ اور کفایت اللہ نے نمائندگی کی۔

اٹارنی جنرلز نے عدالت میں نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ تقریباً اسی طرح کی درخواست اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھی دائر کی گئی تھی جسے مسترد کردیا گیا۔

مزید پڑھیں: لاہور ہائیکورٹ نے ترک اساتذہ کی ملک بدری روک دی

درخواست گزاروں کی جانب سے نمائندگی کرنے والے وکلا قاضی محمد انور اور خالد تنویر روحیلہ کا کہنا تھا کہ ملک میں پاک ترک اسکول چلانے والی پاک ترک ایجوکیشنل فاؤنڈیشن کی جانب سے وزارت داخلہ میں عملے اور ان کے اہلخانہ کے ویزے کی مدت میں توسیع کی درخواست جمع کرائی گئی تھی، جن میں 10 ایسے اساتذہ بھی شامل تھے جو پاکستان میں اسکول کی 26 مختلف شاخوں میں فرائض انجام دے چکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ درخواست کے جواب میں فاؤنڈیشن کو بتایا کہ ان کی درخوست کا موزوں وقت پر جائزہ لیا جائے گا۔

بعد ازاں فاؤنڈیشن کو وزارت داخلہ کی جانب سے موصول ہونے خط میں لکھا گیا تھا کہ ’ترک شہریت رکھنے والے عملے کے جن اراکین کے ویزے کی مدت میں توسیع نہیں کی گئی انہیں 3 روز کے اندر ملک چھوڑنے کی ہدایت کی جاتی ہے۔‘

عدالت میں وزارت داخلہ کی جانب سے جمع کرائے گئے جواب میں کہا گیا ’پاک ترک ایجوکیشنل فاؤنڈیشن نے اگست 2016 میں اپنے عملے کے ویزے میں توسیع کی درخواست جمع کرائی۔‘

جواب کے مطابق ’عملے کے ان ارکان میں سے تقریباً 90 فیصد کے ویزے کی میعاد ستمبر 2016 میں ختم ہوچکے ہے اور وہ ملک میں ویزے کی توسیع کے بغیر مقیم تھے۔‘

یہ بھی پڑھیں: سندھ: پاک ترک اسکول عملے کے خلاف کارروائی سے گریز کا عدالتی حکم

وزیر داخلہ کی جانب سے جواب میں کہا گیا کہ انہوں نے عملے کے ان ارکان کو قانون کے مطابق افسوس کا خط لکھا، جن کے ویزے کی توسیع کی درخواست مسترد کردی گئی تھی۔

درخواست گزاروں کی جانب سے عدالت سے استدعا کی گئی کہ ’طلبا کا تعلیمی سال مارچ 2017 میں مکمل ہوگا، اس لیے وزارت داخلہ کی جانب سے فاؤنڈیشن کو لکھے گئے قابل اعتراض خطوط کو غیر قانونی قرار دے۔‘

یاد رہے کہ رواں سال جولائی میں ترکی میں فوجی بغاوت کی ناکام کوشش کے بعد ترک صدر رجب طیب اردگان نے اپنے حریف فتح اللہ گولن اور ان کی تحریک کے خلاف عالمی مہم کا آغاز کیا تھا۔

مزید جانیں: پاک ترک اسکولز کے عملے کو ملک چھوڑنے کا حکم

اگست کے اوائل میں اپنے دورہ پاکستان کے دوران ترکی کے وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ’یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ گولن تحریک کے پاکستان اور دیگر کئی ممالک میں ادارے موجود ہیں۔‘

پاک ترک اسکول کی انتظامیہ کی جانب سے گولن تحریک سے کسی طرح کا تعلق ہونے کے انکار کے باوجود، ترک صدر کے حالیہ دورہ پاکستان سے قبل ترک اساتذہ کی ملک بدری کا متنازع خط جاری کیا گیا۔


یہ خبر 2 دسمبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

کارٹون

کارٹون : 21 دسمبر 2025
کارٹون : 20 دسمبر 2025