شہرِ فاطمہ: بی بی مریمؑ سے منسوب خوبصورت یورپی شہر

پرتگال کے شہر لزبن کے سفر نے مجھے جن ناقابل فراموش جگہوں کو دیکھنے کا موقع فراہم کیا، شہرِ فاطمہ ان میں سے ہی ایک ہے۔ میرے میزبان اور گائیڈ اسلم بھائی اور ان کے دوست مجھے لزبن سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر واقع اس شہر میں لے کر آئے۔

مجھے یہ بتایا گیا کہ اس شہر کو عیسائیت کی رو سے ایک مقدس مقام کی حیثیت حاصل ہے۔ یہاں دور دور سے زائرین مذہبی زیارات کے لیے آتے ہیں اور اپنی منتیں، مرادیں اور دعائیں مانگنے آتے ہیں۔

پہلے تو میرے لیے اس شہر کا نام ہی تشویش کا باعث تھا کہ اس شہر کا نام اسلامی کیوں ہے؟ اگر نام اسلامی ہے تو عیسائیت کے لیے اس کی مقدس حیثیت کس طرح ہے؟

یہ شہر اوورم میونسپلٹی کا حصہ ہے اور کیتھولک عیسائیوں کے لیے مذہبی تقدس کا حامل ہے۔ اس شہر میں موجود ایک میوزیم میں سیاحوں کو گائیڈ کرنے والے ایک نوجوان کے بقول اس شہر کا نام اسلام کے پرتگال میں اثرات کا شاخسانہ ہے۔ اس کے مطابق یہ سارے علاقے فاطمہ نامی شہزادی کے تھے، جن کا تعلق شمالی افریقہ سے تھا، اور جنہیں ایک پرتگالی سپاہی یہاں اغوا کر کے لایا تھا اور بعد میں ان کی شادی ہوگئی تھی۔

مگر عیسائیت میں اس شہر کی مقبولیت کا آغاز 1917 کے بعد ہوا، جب روایات کے مطابق تین نو خیز گڈریوں نے یہاں 6 ماہ کے عرصے میں کئی بار بی بی مریم علیہ السلام کی زیارت کی۔

قلعے سے اوورم کا ایک منظر۔— تصویر رمضان رفیق
قلعے سے اوورم کا ایک منظر۔— تصویر رمضان رفیق

بلندی پر واقع زیتون کے باغ سے شہر کا منظر۔ — تصویر رمضان رفیق
بلندی پر واقع زیتون کے باغ سے شہر کا منظر۔ — تصویر رمضان رفیق

شہر فاطمہ کی ایک سڑک — تصویر رمضان رفیق
شہر فاطمہ کی ایک سڑک — تصویر رمضان رفیق

اس کہانی کے مرکزی کردار گڈریوں میں سے لوسیا نامی بچی ہی لمبی عمر پا سکی تھی اور دوسرے دو بچے نوجوانی سے پہلے ہی وفات پا گئے۔

روایات کے مطابق اس عرصے میں بچوں کو تین راز دیے گئے۔ پہلا راز ایک جہنم کا تصور، دوسرا راز پہلی جنگ عظیم کا خاتمہ اور کمیونیزم کا پھیلاؤ، پھر کمیونزم کا خاتمہ اور چرچ کی فتح کی پیشگوئی تھا۔

تیسرا راز بہت عرصے تک راز رکھا گیا لیکن اس کو جون 2000 میں افشاء کیا گیا. یہ کچھ یوں ہے کہ لوسیا نے بی بی مریم علیہ اسلام کے آنے پر پھیلنے والی روشنی میں کئی پادریوں اور مذہبی شخصیات کو ہلاک ہوتے ہوئے دیکھا تھا۔

کہانیاں یہ بھی بتاتی ہیں کہ شروع میں جب ان بچوں نے بی بی مریم علیہ السلام سے ملاقات کا واقعہ سنایا تو ہر کسی نے ان بچوں کی بات کو ماننے سے انکار کر دیا لیکن جب بی بی مریم ان بچوں سے آخری بار ملاقات کے لیے آئیں تو لوگوں کو ایسا محسوس ہوا جیسے کہ سورج جیسے اپنے ہالے سے باہر نکل آیا ہو اور اپنی جگہ سے ہل رہا ہو۔ مختلف لکھنے والوں کے بقول سورج کے معجزے کو 30 ہزار سے ایک لاکھ لوگوں نے دیکھا تھا، جن میں اخبارات کے نمائندے بھی شامل تھے۔

شہرِ فاطمہ کی سیر

فاطمہ شہر اپنی وضع قطع کے لحاظ سے ایک چھوٹا سا شہر ہے، شہر چھوٹا سہی مگر یہاں اجنبی لوگوں کے لیے تنگ دلی اور تنگ نظری نہیں ملتی، بلکہ ایک خاص قسم کی قبولیت اور اپنائیت کی فضا چھائی رہتی ہے۔ ہمیں ایک گلی میں باآسانی مفت پارکنگ مل گئی۔

موسم کافی خوشگوار تھا۔ فاطمہ کا چرچ ہماری پہلی منزل تھا، سو راستے کی ابھی پہلی گلی میں ہی داخل ہوئے تو جس پہلی چیز پر نگاہ پڑی وہ شوپیس طرز کی چیزیں بیچنے والی بے شمار دوکانیں تھیں. یہ چھوٹی دوکانیں یا گفٹ شاپس بالکل ایسی ہی تھیں جیسے آپ انارکلی لاہور کی جیولری یا تحفے تحائف بیچنے والی دوکانوں کی جانب جا نکلے ہیں۔

شہر فاطمہ میں سووینیئرز، بی بی مریم علیہ السلام کے مجسمے، شوپیسز اور دیگر سامان کے اسٹالز باآسانی نظر آ جاتے ہیں — تصویر رمضان رفیق
شہر فاطمہ میں سووینیئرز، بی بی مریم علیہ السلام کے مجسمے، شوپیسز اور دیگر سامان کے اسٹالز باآسانی نظر آ جاتے ہیں — تصویر رمضان رفیق

شہر فاطمہ کی ایک سڑک پر موجود ایک دوکان — تصویر رمضان رفیق
شہر فاطمہ کی ایک سڑک پر موجود ایک دوکان — تصویر رمضان رفیق

اس وقت ان دوکانوں پر سوائے خود دوکانداروں کے زیادہ لوگوں کا رش نہیں تھا۔ ایسے محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے آج کوئی چھٹی کا دن ہو۔ ان دکانوں پر سب سے نمایاں چیز بی بی مریم علیہ السلام کے خوبصورت مجسمے، موتیوں کی مالائیں، دیواروں پر لگائے جانے والے سووینیئرز، ٹیبل پر رکھے جانے والے شوپیس اور درجنوں طرح کی موم بتیاں وغیرہ شامل تھیں۔

یہاں سال کے ایک خاص حصے میں خصوصی مذہبی تقاریب یا اجتماعات منعقد ہوتی ہیں جن میں دنیا بھار سے ہزاروں لوگو شرکت کرتے ہیں۔شہر کی بہت سی دوکانیں، ہوٹلز، ریسٹورنٹس فاطمہ نام سے منسوب تھے۔

شہر کا گرجا گھر

گرجا گھر کے پاس پہنچے تو ایک بوڑھی عورت اپنے گھٹنوں پر کچھ پیڈ نما چیز چڑھا رہی تھیں. انہوں نے وہ پیڈ گھٹنوں پر چڑھائے اور گھٹنوں کے بل عبادت گاہ کی طرف جانا شروع کر دیا. اس کے بعد میں نے تین دیگر افراد کو بھی گھٹنوں کے بل عبادت گاہ جاتے دیکھا۔

شہر کا گرجا گھر جس  میں اکثر لوگ گھٹنے کے بل چل کر داخل ہوتے ہیں — تصویر رمضان رفیق
شہر کا گرجا گھر جس میں اکثر لوگ گھٹنے کے بل چل کر داخل ہوتے ہیں — تصویر رمضان رفیق

شہر کے ایک میوزیم میں موجود لیڈی آف فاطمہ (بی بی مریم علیہ اسلام) کا ایک تصوراتی تاج — تصویر رمضان رفیق
شہر کے ایک میوزیم میں موجود لیڈی آف فاطمہ (بی بی مریم علیہ اسلام) کا ایک تصوراتی تاج — تصویر رمضان رفیق

ان میں سے کچھ لوگوں نے گھٹنوں کے بل اس عمارت کے گرد چکر بھی کاٹے، اس بارے میں پتہ کرنے پر معلوم ہوا کہ گھٹنوں کے بل چل کر روزری یا تسبیح کرنے سے خداوند کو راضی کیا جا سکتا ہے اور مشکلات کو ٹالا جا سکتا ہے۔

اس کے بعد عبادت گاہ پر موم بتیاں روشن کرنے کا مرحلہ تھا۔ عبادت گاہ کے ایک طرف موم بتیاں روشن کرنے کی ایک خاص جگہ بنائی گئی تھی جہاں لوگ موٹی اور لمبی موم بتیاں روشن کر کے اپنی عقیدت کا اظہار کر رہے تھے۔ پانچ فٹ لمبی موم بتی بھی ہم نے پہلی بار یہیں پر دیکھی۔

اس خصوصی جگہ کے ساتھ ڈیجیٹل موم بتیاں جلانے کا بھی اہتمام کیا گیا تھا، یعنی اگر آپ کو اصلی موم بتی جلانے سے کوئی مسئلہ ہے تو آپ ایک یورو کا سکہ ڈالیں تو بجلی سے جلنے والی موم بتیاں بھی جلا سکتے ہیں۔

برابر میں ایک اور سیکشن تھا جہاں کچھ لوگ موم سے بنے ہوئے جسمانی اعضا جیسے بازو، ٹانگیں، پیر یا پورے پورے جسم کے مجسمے بھی رکھ رہے تھے اور دعائیں مانگ رہے تھے۔

اس حصے کے بارے میں استفسار کرنے پر پتہ چلا کہ جس کسی کے جسم کے کسی حصے میں تکلیف ہو وہ یہاں پر وہ حصہ رکھتا ہے تو اس کی تکلیف رفع ہو جاتی ہے۔

گرجا گھر کا اندرونی منظر — تصویر رمضان رفیق
گرجا گھر کا اندرونی منظر — تصویر رمضان رفیق

موم کے بنے جسمانی اعضا اور پورے جسم۔ عقیدت مند مانتے ہیں کہ جسم کے جس حصے میں تکلیف ہو تو اس کا مومی مجسمہ گرجا گھر میں رکھنے سے تکلیف دور ہو جاتی ہے — تصویر رمضان رفیق
موم کے بنے جسمانی اعضا اور پورے جسم۔ عقیدت مند مانتے ہیں کہ جسم کے جس حصے میں تکلیف ہو تو اس کا مومی مجسمہ گرجا گھر میں رکھنے سے تکلیف دور ہو جاتی ہے — تصویر رمضان رفیق

لوگ گرجا گھر کے ایک خصوصی حصے میں موم بتیاں روشن کرتے ہیں — تصویر رمضان رفیق
لوگ گرجا گھر کے ایک خصوصی حصے میں موم بتیاں روشن کرتے ہیں — تصویر رمضان رفیق

لوسیا کا گھر اور میوزیم

لوسیا ان تین گڈریوں میں سے ایک تھیں جو طویل عرصہ زندہ رہی تھیں۔ ان کے گھر کو ایک میوزیم کا درجہ دے دیا گیا ہے، یہ گھر چار سے پانچ کمروں پر مشتمل، ایک متوسط طبقے کے کسی فرد کا گھر دکھائی دیتا ہے۔

اندر جانے کا ٹکٹ ایک یورو تھا۔ اس گھر کی قدیم حالت برقرار رکھنے کی کوشش کی گئی ہے اس لیے آج بھی یہ گھر 1917 کے زمانے کا محسوس ہوتا ہے۔

مجسموں یا بھس بھرے اجسام سے اس دور کی تصویر کشی کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ کھانے کا کمرہ، سونے کا اہتمام، عبادت کی جگہ، مہمانوں کا کمرہ، اس زمانے کی استری، سلائی مشین، جگ، مگ، برتن اور اس طرز کی تمام گھریلو چیزیں تقریباً اسی انداز میں سجائی گئی ہیں جیسے گھر والے بس ابھی گھر سے باہر گئے ہوں۔

لوسیا کی اس کے گھرانے سمیت ایک تصویر— تصویر رمضان رفیق
لوسیا کی اس کے گھرانے سمیت ایک تصویر— تصویر رمضان رفیق

لوسیا کے گھر کا بیرونی منظر — تصویر رمضان رفیق
لوسیا کے گھر کا بیرونی منظر — تصویر رمضان رفیق

لوسیا کے گھر کی ایک کھڑکی — تصویر رمضان رفیق
لوسیا کے گھر کی ایک کھڑکی — تصویر رمضان رفیق

لوسیا کے گھر کا ایک اندرونی منظر — تصویر رمضان رفیق
لوسیا کے گھر کا ایک اندرونی منظر — تصویر رمضان رفیق

گھر کی دیوار پر لگی لوسیا اور ان کے گھرانے کی تصویر دیکھ کر لگتا ہے کہ اس زمانے میں برقع طرز کے پردے کا رواج تھا، یا کم از کم مذہبی خاندان اس طرز کی پردہ داری کا اہتمام کرتے تھے۔

اس گھر کے ساتھ ہی سیاحوں کے لیے ایک معلوماتی مرکز بھی بنایا گیا ہے، جہاں مختلف زبانوں میں اس شہر کے متعلق معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں۔

لوسیا کا گھر اب ایک میوزیم کی حیثیت رکھتا ہے — تصویر رمضان رفیق
لوسیا کا گھر اب ایک میوزیم کی حیثیت رکھتا ہے — تصویر رمضان رفیق

گھر کو 1917 کے دور جیسا بحال رکھنے کی کوشش کی گئی ہے — تصویر رمضان رفیق
گھر کو 1917 کے دور جیسا بحال رکھنے کی کوشش کی گئی ہے — تصویر رمضان رفیق

گھر کے اندرونی منظر دیکھ کر یوں محسوس ہوتا جیسے آج بھی لوگ یہاں قیام پذیر ہوں — تصویر رمضان رفیق
گھر کے اندرونی منظر دیکھ کر یوں محسوس ہوتا جیسے آج بھی لوگ یہاں قیام پذیر ہوں — تصویر رمضان رفیق

گھر اور میوزیم میں ایک زیر استعمال گھر کا تصور دینے کے لیے بھس بھرے مجسمے بھی رکھے گئے ہیں — تصویر رمضان رفیق
گھر اور میوزیم میں ایک زیر استعمال گھر کا تصور دینے کے لیے بھس بھرے مجسمے بھی رکھے گئے ہیں — تصویر رمضان رفیق

زیتون کا باغ اور فرشتے کی آمد

روایات کے مطابق لوسیا اور دوسرے دو بچے گھر سے کچھ فاصلے پر زیتون کے باغ میں جب روزری میں مصروف تھے تب ان کی بی بی مریم علیہ السلام سے ملاقات ہوئی۔ روزری ایک تسبیح کی مانند شے ہوتی ہے، جس پر تسبیحات پڑھی جاتی ہیں۔

اب بھی اس جگہ پر مذہبی لباس میں ملبوس لوگ روزری پڑھتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ سر جھکائے ہوئے، مذہب سے لگاؤ رکھنے والی روایتی متانت سے مخمور لوگ اس جگہ پر کسی عبادت گاہ کے برابر خلوص چھڑکتے نظر آئے۔ ہر طرف عقیدت مندی کا منظر پھیلا ہوا تھا۔

تیس چالیس لوگوں کا ایک گروہ بھی اس باغ کی زیارت کے لیے آیا ہوا تھا، یہ گروپ مختلف مقامات پر رکتا اور ان کا پادری شاید پرتگیزی زبان میں انہیں کچھ بیان فرماتا جس طرح ہمارے ہاں امام یا مولانا تقریر فرماتے ہیں اور اس کے بعد گروہ اونچی آواز میں ملتے جلتے کلمات دہرانے لگتا، جس طرح دوران حج حجاج کرام صدائیں لگاتے ہیں۔

زیتون کا وہ باغ جہاں بی بی مریم علیہ السلام کی بچوں سے ملاقات ہوئی تھی — تصویر رمضان رفیق
زیتون کا وہ باغ جہاں بی بی مریم علیہ السلام کی بچوں سے ملاقات ہوئی تھی — تصویر رمضان رفیق

وہ مقام جہاں تین بچوں کی ملاقات بی بی مریم علیہ السلام سے ہوئی تھی — تصویر رمضان رفیق
وہ مقام جہاں تین بچوں کی ملاقات بی بی مریم علیہ السلام سے ہوئی تھی — تصویر رمضان رفیق

مجسموں کی مدد سے اس واقعہ کی تصویر کشی کی گئی ہے — تصویر رمضان رفیق
مجسموں کی مدد سے اس واقعہ کی تصویر کشی کی گئی ہے — تصویر رمضان رفیق

اس باغ میں کئی لوگ عقیدت سے سرشار نظر آتے ہیں — تصویر رمضان رفیق
اس باغ میں کئی لوگ عقیدت سے سرشار نظر آتے ہیں — تصویر رمضان رفیق

ایک جگہ پر سنگ مرمر کے مجسموں کی مدد سے ان بچوں کے بی بی مریم علیہ السلام کے روبرو ہونے کے واقعے کی تصویر کشی کی گئی تھی۔ یہی وہ جگہ تھی جہاں بی بی مریم علیہ السلام تشریف لائیں اور بچوں پر تین راز افشاء کیے تھے۔

یورپ کے اس کونے میں مذہب کے رنگوں میں رنگے ہوئے یہ عیسائی مذہب اور روایت سے جڑے ہوئے، اور ایک ان دیکھی ڈور سے بندھ کر ان جگہوں پر ابدی سچ کی تلاش میں سرگرداں نظر آئے۔

شہر فاطمہ کی دوکانوں اور اسٹالز کو دیکھ کر اپنے گاؤں کا ایک میلہ بھی یاد آ گیا۔ جیسے میاں خیرے کے میلے پر کھلونوں کی دوکانیں سجا کرتی تھیں، ویسے ہی ہر دوکان سجی ہوئی تھی، بس چہل پہل ابھی کچھ کم تھی۔ ہو سکتا ہے کہ سال کے کسی حصے میں بہت زیادہ ہوتی ہو۔

اس شہر کی فضا یورپ کے عام شہروں سے کافی الگ ہے، شاید اس لیے بھی کہ یہ ایک چھوٹا سا قصبہ نما شہر ہے، لیکن اس کی انفرادیت اس کا عیسائیت میں تر ماحول ہے، جس میں امن اور اپنائیت کی مہک ہے، جیسے بھاگتی دوڑتی دنیا سے باہر نکل کر انسان پرسکون جنگل میں آ نکلے۔

لوسیا سے منسوب سامان، ان کی سادگی سے گذری ہوئی زندگی، ان کا تصوراتی تاج، ان کے متعلق مختلف زبانوں میں لکھی ہوئی کتابیں، ان کے مجسمے، تسبیح کی لڑیاں، عبادت گاہ، گھٹنوں پر طواف کرتے ہوئے لوگ اس شہر کو کافی پراسرار سا بنا رہے تھے۔

اوورم کا قلعہ

شہر فاطمہ اوورم مونسپلٹی کا ایک حصہ ہے۔ یہاں کے خوبصورت مقامات سے کچھ پندرہ بیس کلومیٹر دور پندرہویں صدی کا ایک قلعہ واقع ہے۔

یہ قلعہ پرتگال کے قومی ورثے کا حصہ ہے، اس کے کھنڈرات اس دور کی شان و شوکت کی کہانی بیان کرتے ہیں، جوں ہی ہم قلعے کے قریب پہنچے تو ہلکی ہلکی بوندا باندی کا آغاز ہو گیا، لیکن یہ زیادہ دیر جاری نہ رہی۔

قلعہ کچھ فاصلے سے۔— تصویر رمضان رفیق
قلعہ کچھ فاصلے سے۔— تصویر رمضان رفیق

اوورم کا قلعہ — تصویر رمضان رفیق
اوورم کا قلعہ — تصویر رمضان رفیق

اوورم کا قلعہ۔ — تصویر رمضان رفیق
اوورم کا قلعہ۔ — تصویر رمضان رفیق

اوورم قلعے کی دیوار — تصویر رمضان رفیق
اوورم قلعے کی دیوار — تصویر رمضان رفیق

یہاں سے اوررم شہر کا نظارہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ ارد گرد پائن کے جنگلات آنکھوں کو نہایت بھلے محسوس ہوتے ہیں۔ یقیناً اس سبزے کے درمیان میں سینہ تانے پتھروں سے سینچا ہوا یہ پرشکوہ قلعہ دیکھنے والے پرسحر طاری کر دیتا ہے۔

قلعے کی تعمیر اور اس کے اندر بنے ہوئے فوارے، سرنگیں، اور گلیاں گزرے وقت کی بے شمار کہانیاں پیش کر رہے تھے۔ اگر وقت کبھی فاطمہ کی زمین تک لے جائے تو اس اوورم کے قلعے کی خوبصورتی سے بھی لطف اندوز ہونا نہ بھولیے گا۔


رمضان رفیق کوپن ہیگن میں رہتے ہیں، اور ایگری ہنٹ نامی ویب سائٹ چلاتے ہیں۔ ان کا بلاگ یہاں وزٹ کریں: تحریر سے تقریر تک


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔