قومی ٹیم کے کپتانوں کا جائزہ۔ کون کامیاب اور کون ناکام!

تاریخِ پاکستان کرکٹ میں کپتانوں کی ریٹنگز

ندیم ایف پراچہ

دو مختلف کپتانوں میں ایک جیسی صفات ممکن نہیں۔

شاندار: ★ ★ ★ ★
بہتر: ★ ★ ★
اوسط: ★ ★
بری: ★


عبدالحفیظ کاردار ★ ★ ★ ★

آل راؤنڈر۔ بائیں ہاتھ کے بلے باز؛ بائیں ہاتھ اسپن باؤلر

دورِ کپتانی: 58-1952

تعلق: لاہور

طرزِ کپتانی: حاکمانہ; الگ تھلگ; متاثر کن; ضدی.

کپتانی کا عروج: 1954 میں انگلینڈ کی سرزمین پر پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان کھیلے جانے والی پہلی ٹیسٹ سریز کے دوران سریز کو ڈرامائی انداز میں ایک ایک سے برابر کیا۔

عمدہ حکمت حملی: ہوٹل میں کھلاڑیوں کے کمرے میں کاغذ کے ٹکڑوں پر ہدایات اور متاثر کن اقوال لکھ کر چھوڑ جاتے تھے۔

تنازعات: ٹیم میں باصلاحیت بیٹسمین رئیس محمد کو شامل کرنے کے بجائے اپنے دوست مقصود احمد کو شامل کیے رکھنے کا الزام لگا۔

کپتانی کا ریکارڈ: 23 ٹیسٹ میں 6 جیتے، 6 ہارے اور 11 ڈرا ہوئے

1954 میں ٹیم کے سب سے پہلے دورہ انگلینڈ کے دوران عبدالحفیظ کاردار پاکستان ٹیم اسکواڈ کے ہمراہ لندن میں موجود ہیں۔
1954 میں ٹیم کے سب سے پہلے دورہ انگلینڈ کے دوران عبدالحفیظ کاردار پاکستان ٹیم اسکواڈ کے ہمراہ لندن میں موجود ہیں۔

فضل محمود ★ ★

دائیں ہاتھ کے سوئنگ باؤلر؛ لور آرڈ بیٹسمین

دورِ کپتانی: 61-1958

تعلق: لاہور

طرز کپتانی: سخت; تنہائی پسند; شکی.

عمدہ حکمت عملی: کچھ بھی نہیں

تنازعات: 1960 میں دورہ ہندوستان کے دوران بے تحاشہ مدافعانہ رویہ اختیار کرنے اور پریکٹس سے زیادہ اپنا وقت پارٹیوں میں صرف کرنے کی وجہ سے انہیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔

کپتانی کا عروج: 1959 میں مضبوط ویسٹ انڈین ٹیم کے خلاف ملکی سیریز میں فتح دلوائی۔

کپتانی کا ریکارڈ: 10 ٹیسٹ میں 2 جیتے، 2 ہارے اور 6 ڈرا ہوئے۔

1960 میں پاکستان کے دورہ ہندوستان کے دوران فضل فلم اداکار راج کپور کے ہمراہ
1960 میں پاکستان کے دورہ ہندوستان کے دوران فضل فلم اداکار راج کپور کے ہمراہ

امتیاز احمد ★

وکیٹ کیپر-بیٹسمین.

دورِ کپتانی: 62-1961

تعلق: لاہور

طرز کپتانی: بے لطف; دفاعی.

عمدہ حکمت عملی: کچھ بھی نہیں

تنازعات: کچھ بھی نہیں

کپتانی کا عروج: کچھ بھی نہیں

**کپتانی کا ریکارڈ: 4 ٹیسٹ میں 0 جیتے، 2 ہارے اور 2 ڈرا ہوئے۔ **

جاوید برکی ★

دائیں ہاتھ کے بیٹسمین

دور کپتانی: 1962

تعلق: لاہور

طرز کپتانی: سخت; ناتجربہ کار; گھمنڈی; خشک مزاجی.

عمدہ حکمت عملی: کچھ بھی نہیں

تنازعات: 1962 میں دورہ انگلینڈ کے موقع پر سینئر کھلاڑیوں سے اختلافات پیدا ہوگئے تھے۔ جن کھلاڑیوں سے ان کے اختلافات پیدا ہو گئے تھے ان سے براہ راست رابطہ نہیں کرتے تھے بلکہ بات پہچانے کے لیے کھلاڑیوں کا ایک گروہ تشکیل دیا تھا۔

کپتانی کا عروج:وہ اُس وقت پاکستان کے سب سے کم عمر (24 برس) کپتان تھے۔

کپتانی کا ریکارڈ: 5 ٹیسٹ میں 0 جیتے، 4 ہارے اور 1 ڈرا ہوا۔

حنیف محمد ★ ★

دائیں ہاتھ کے بیٹسمین

کپتانی کا دور: 67-1963

تعلق: کراچی

طرز کپتانی: دفاعی; کم گو; الگ تھلگ.

عمدہ حکمت عملی: کچھ بھی نہیں

تنازعات: ایسے اشارے دیے گئے تھے کہ 1967 میں اِنہیں ’لاہور لابی کی سیاست’ کے باعث کپتانی سے ہٹا دیا گیا تھا۔ لاہور میں تماشائیوں نے اُن پر برہمی کا اظہار کیا۔

کپتانی کا عروج: 1964 میں نیوزی لینڈ کے خلاف سریز میں دو صفر سے فتح

کپتانی کا ریکارڈ: 11 ٹیسٹ میں 2 جیتے، 2 ہارے اور 7 ڈرا ہوئے۔

(1967) محمد حنیف ملکہ برطانیہ کو پاکستان ٹیم کا تعارف کر وا رہے ہیں۔
(1967) محمد حنیف ملکہ برطانیہ کو پاکستان ٹیم کا تعارف کر وا رہے ہیں۔

سعید احمد ★

دائیں ہاتھ کے بیٹسمین.

کپتانی کا دور: 1968

تعلق: لاہور

طرز کپتانی: الگ تھلگ; سرکش; خود غرضانہ; اپنی من مانی.

عمدہ حکمت عملی: کچھ بھی نہیں

تنازعات: بطور کپتان اپنے پہلے ٹیسٹ کے دوران سلیکٹرز سے ٹکراؤ۔ مبینہ طور پر حنیف محمد کو کپتانی سے ہٹانے کی سازش کی۔

ٹیم کے دیگر کھلاڑی اُنہیں ’خود غرض‘ تصور کرتے تھے۔ کراچی میں تماشائیوں نے اُن پر برہمی کا اظہار کیا۔

کپتانی کا عروج: کچھ بھی نہیں

کپتانی کا ریکارڈ: 3 ٹیسٹ میں 0 جیتے، 0 ہارے اور 3 ڈرا ہوئے

انتخاب عالم ★ ★

آل راؤنڈر۔ دائیں ہاتھ کے اسپنر؛ لور مڈل آرڈر بیٹسمین

کپتانی کا دور: 76-1974; 73-1969

تعلق: لاہور

طرز کپتانی: قابل رساں؛ پروفیشنل؛ دفاعی

عمدہ حکمت عملی: کچھ بھی نہیں

تنازعات: 1976 میں اپنی کپتانی برقرار رکھنے اور مشتاق محمد کو اپنی جگہ کی خاطر پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیف عبدالحفیظ کاردار کے ساتھ دوستی بڑھانے کی کوشش کی۔

کپتانی کا عروج: 1974 میں اُس وقت کی سب سے مضبوط ٹیسٹ ٹیم انگلینڈ کے خلاف سیریز (انگلینڈ میں) ڈرا کی۔

پاکستان کے سب سے پہلے ایک روزہ میچ سیریز کی کپتانی بھی کی۔

کپتانی کا ریکارڈ: 17 ٹیسٹ میں 1 جیتے، 5 ہارے اور 11 ڈر ہوئے، جبکہ 3 ایک روزہ میچوں میں 2 جیتے اور 1 میں شکست ہوئی۔

انتخاب ملکہ برطانیہ کو ٹیم کھلاڑیوں کا تعارف کر وا رہے ہیں۔ (لندن 1971)
انتخاب ملکہ برطانیہ کو ٹیم کھلاڑیوں کا تعارف کر وا رہے ہیں۔ (لندن 1971)

ماجد خان ★

دائیں ہاتھ کے بیٹسمین; غیر مستقل آف بریک باؤلر؛ غیر مستقل وکٹ کیپر.

کپتانی کا دور: 1973

تعلق: لاہور

طرزِ کپتانی: الگ تھلگ; خشک مزاجی; دفاعی.

عمدہ حکمت عملی: کچھ بھی نہیں

تنازعات: کچھ بھی نہیں

کپتانی کا عروج: کچھ بھی نہیں

کپتانی کا ریکارڈ: 3 ٹیسٹ میں 0 جیتے، 0 ہارے اور 3 ڈرا ہوئے جبکہ 2 ایک روزہ میچوں میں 1 جیتے اور 1 ہارے۔

مشتاق محمد ★ ★ ★ ★

آل راؤنڈر؛ دائیں ہاتھ کے بیٹسمین؛ دائیں ہاتھ کے لیگ اسپنر

کپتانی کا دور: 79-1978; 77-1976

تعلق: کراچی

طرز کپتانی: پیش قدم; جارحانہ; متاثرکن; تخلیقی.

عمدہ حکمت عملی: وہ دانستہ طور پر ٹیم کے گرم مزاج اور موڈی کھلاڑیوں پر غصہ کرتے تھے تاکہ میدان پر اور بھی زیادہ گرم جوش کھیل کا مظاہرہ کرسکیں۔

تنازعات: 1976 میں آسٹریلیا کے خلاف سریز کے دوران اور پھر 1978 میں ہندوستان کے خلاف سریز کے دوران انہوں نے اپنے کھلاڑیوں کو حریف کھلاڑیوں کو اشتعال میں لاکر اُن کے اشتعال سے فائدہ اُٹھانے پر اکسایا۔

1978 میں ہندوستان کے خلاف ایک روزہ میچ کے دوران اپنے فاسٹ باؤلرز کو باؤنسر کرنے اور بیٹسمین کو زخمی کرنے کو کہا۔

انہوں نے الزام لگایا کہ 1979 میں اُنہیں کپتانی سے ہٹانے کے لیے اُن کے نائب کپتان آصف اقبال نے ’سازشیں’ کی تھیں۔

کپتانی کا عروج: 1976: آسٹریلیا کے خلاف آسٹریلیا میں سریز ایک ایک سے برابر کی۔

1978: ہندوستان کو 0-2 سے شکست دی۔

عمران خان کو ایک زبردست فاسٹ بالر بننے میں مدد کی۔

جاوید میانداد کو متعارف کروایا۔

کپتانی کا ریکارڈ: 19 ٹیسٹ میچوں میں 8 جیتے، 4 ہارے اور 7 ڈرا ہوئے۔ اِسی طرح 4 ایک روزہ میچوں میں 2 جیتے اور 2 ہارے۔

کھلاڑی محمد مشتاق کا بہت عزت احترام کرتے تھے.
کھلاڑی محمد مشتاق کا بہت عزت احترام کرتے تھے.

وسیم باری ★

وکیٹ کیپر; لور آرڈر بیٹسمین.

کپتانی کا دور: 78-1977.

تعلق: کراچی

طرز کپتانی: دفاعی; بے تخیل; خشک مزاج

عمدہ حکمت عملی: کچھ بھی نہیں

تنازعات: کچھ بھی نہیں

کپتانی کا عروج: کچھ بھی نہیں

کپتانی کا ریکارڈ: 6 ٹیسٹ میں 0 جیتے، 2 ہارے اور 4 ڈرا ہوئے جبکہ 5 ایک روزہ میچوں میں 1 جیتے اور 4 ہارے۔

آصف اقبال ★

دائیں ہاتھ کے بیٹسمین; غیر مستقل دائیں ہاتھ کے میڈیم پیس باؤلر

** کپتانی کا دور: ** 1975 (صرف ایک روزہ میچ کے لیے)؛ 1979

تعلق: کراچی

طرز کپتانی: بہادرانہ; الگ تھلگ; سخت.

عمدہ حکمت عملی: کچھ بھی نہیں

تنازعات: اِن پر الزام عائد ہوا کہ انہوں نے 'مشتاق محمد کو کپتانی سے ہٹانے کی راہیں ہموار کیں'۔

1979 میں طویل دورہ ہندوستان کے دوران بطور کپتان وہ کافی کنفیوژن کا شکار نظر آئے جہاں میدان میں بُری کارکردگی کو مزید بڑھاوا اُس وقت ملا جب کھلاڑیوں کی نازیبہ پارٹیوں میں راتیں گزارنے کی رپورٹس سامنے آئیں۔

انہوں نے سرفراز نواز کو ہندوستان لے جانے سے انکار کردیا جس کی وجہ یہ بتائی کہ ’وہ بے قابو ہیں۔’

کپتانی کا عروج: 1979 کے ورلڈ کپ سیمی فائنل میں عالمی چیمپئن ویسٹ انڈیز کے خلاف فتح کے انتہائی قریب لاچکے تھے۔

کپتانی کا ریکارڈ: 6 ٹیسٹ میں 0 جیتے، 2 ہارے اور 4 ڈرا ہوئے، جبکہ 6 ایک روزہ میچوں میں 2 جیتے اور 4 میں شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔

1979 میں پاکستان بمقابلہ ہندوستان کے آخری ٹیسٹ میں آصف ہندوستانی کپتان سنیل گواسکر کے ساتھ ٹاس کے لیے آرہے ہیں۔
1979 میں پاکستان بمقابلہ ہندوستان کے آخری ٹیسٹ میں آصف ہندوستانی کپتان سنیل گواسکر کے ساتھ ٹاس کے لیے آرہے ہیں۔

جاوید میانداد ★ ★ ★

سیدھے ہاتھ کے بیٹسمین. غیر مستقل لیگ اسپنر.

کپتانی کا دور: 82-1980; 86-1984; 1987 (ایک سریز کے لیے); 1988 (ایک سریز کے لیے); 1990 (ایک سریز کے لیے); 93-1992.

تعلق: کراچی.

طرز کپتانی: جارحانہ; جھگڑالو; جلد باز; تخلیقی; کسی بھی صورتحال سے نمٹنے کی صلاحیت

عمدہ حکمت عملی: حریف بیٹسمینز کو پریشانی میں مبتلا کرنے اور مشتعل کرنے کے لیے کھلاڑیوں کو اکسایا۔

1981 میں پاکستان کے دورہ آسٹریلیا کے دوران آسٹریلوی فاسٹ باؤلر ڈینس للی کے ساتھ ہاتھا پائی ہوئی۔ اِس وجہ سے للی پر جرمانہ عائد ہوا۔

اُسی دورے کے دوران ماجد خان سے اختلافات۔ جس کے بعد دونوں کھلاڑی نے آپس میں بات نہیں کی، یہاں تک کہ ایک ساتھ بیٹنگ کرتے وقت بھی آپس میں بات نہیں کی۔

1982 اور پھر 1993 میں کھلاڑیوں کی بغاوت کا سامنا کیا۔

انہوں نے الزام لگایا کہ 1993 کی بغاوت میں عمران خان کا ہاتھ تھا حالانکہ عمران خان 1992 میں ریٹائرڈ ہوچکے تھے۔

کپتانی کا عروج 1985 میں ایک روزہ کرکٹ کے دورہ آسٹریلیا کے موقع پر انہوں نے پاکستان کو فائنل تک رسائی دلوائی۔

1990 میں نیوزی لینڈ کے خلاف سریز کو 0-3 سے کلین سوئیپ کیا۔

1992 میں انگلینڈ میں انگلینڈ کے خلاف سریز میں 0-2 سے فتح حاصل کی۔

انہوں نے آف اسپنر توصیف احمد اور فاسٹ باؤلر وسیم اکرم کو متعارف کروایا۔

کپتانی کا ریکارڈ: 35 ٹیسٹ میچوں میں 14 جیتے، 5 ہارے اور 14 ڈرا ہوئے۔ اِسی طرح 62 ایک روزہ میچوں میں 26 جیتے اور 33 میں شکست ہوئی۔

وسیم اکرم اور وقار یونس کے ہمراہ جاوید میانداد
وسیم اکرم اور وقار یونس کے ہمراہ جاوید میانداد

ظہیر عباس ★ ★

دائیں ہاتھ کے بیٹسمین

کپتانی کا دور: 84-1983.

تعلق: کراچی

طرز کپتانی: دفاعی; الگ تھلگ; کم گو.

عمدہ حکمت عملی: کچھ بھی نہیں

تنازعات: پاکستان میں ہونے والی نیوزی لینڈ کے خلاف 1984 کی سریز کے دوران نیوزی لینڈ کے کپتان نے برملا تنقید کی کہ پاکستان کے مفاد میں جانبدارانہ امپائرنگ کا مظاہرہ کیا گیا۔

پاکستان سریز میں 0-2 سے کامیاب ہوا۔

نیوزی لینڈ کے کپتان جیریمی کونے نے یہ بھی اشارہ دیا کہ جب پاکستان نیوزی لینڈ کا دورہ کرے گا تب اُنہیں بھی ایسی ہی امپائرنگ کا سامنا کرنا پڑے گا۔

ظہیر عباس 1985 میں ہونے والے پاکستان کے دورہ نیوزی لینڈ سے قبل ہی کپتانی سے مستعفی ہوگئے اور جب وہ دورے پر تھے تو بطور نائب کپتان ظہیر نے لیگ اسپنر عبدالقادر کو سائیڈ گیم کے دوران ہدایات ماننے سے انکار پر واپس گھر بھیج دیا۔

کپتانی کا عروج: 1984 میں نیوزی لینڈ کے خلاف 0-2 سے کامیابی۔

کپتانی کا ریکارڈ: 14 ٹیسٹ میں 3 جیتے، 1 ہارے اور 10 ڈرا ہوئے جبکہ 13 ایک روزہ میچوں میں 7 جیتے اور 5 ہارے۔

عمران خان ★ ★ ★ ★

آل راؤنڈر۔ سیدھے ہاتھ کے بیٹسمین؛ سیدھے ہاتھ کے فاسٹ باؤلر

کپتانی کا دور:92-1988; 87-1986 ; 84-1982

تعلق: لاہور.

طرز کپتانی: جارحانہ; حاکمانہ; تخلیقی; پر کشش.

عمدہ حکمت عملی: اُنہیں سریز سے قبل اپنے کھلاڑیوں کے بارے میں بڑھا چڑھا کے بیان دے کر حریف ٹیم کو کنفیوژ کرنا بہت پسند تھا۔

مثلاً:

1982 میں پاکستان کے دورہ انگلینڈ سے کچھ عرصہ قبل انہوں نے عمدہ اسپنر عبدالقادر کی تعریف میں کہا کہ وہ 'بال کے جادوگر’ ہیں مگر اُن کا مزاج ایسا نہیں تھا، اِس لیے عمران خان نے عبدالقادر کو نمایاں داڑھی رکھنے کو کہا تاکہ وہ کسی جادوگر کی طرح نظر آسکیں۔

1989 میں دورہ آسٹریلیا کے دوران عمران خان نے آسٹریلوی پریس کو بتایا کہ منظور الٰہی دنیا میں سب سے ’جارحانہ بیٹسمین’ ہیں۔ حالانکہ منظور الٰہی ایک بہترین اوسط آل راؤنڈر تھے۔ مگر جب وہ بیٹنگ کے لیے آئے تو آسٹریلوی کپتان نے اپنی ٹیم کو یہ مانتے ہوئے پورے میدان میں پھیلا دیا کہ وہ زور دار ہٹ داغیں گے۔ بجائے اِس کے انہوں نے دور کھڑے کھلاڑیوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے آسانی سے ایک ایک رنس حاصل کرتے رہے۔ بہرحال آخرکار ایک چھکا بھی داغنے میں کامیاب ہوئے تھے۔

1988 میں شارجہ کے ایک روزہ کرکٹ دورے کے دوران ہندوستان کے خلاف میچ سے پہلے عمران خان نے کہا کہ کشمیر کا مسئلہ کرکٹ کے میدان میں حل ہونا چاہیے۔ پاکستان وہ میچ جیت گیا تھا۔

تنازعات: عمران خان نے منصور اختر کو اُن کی کئی ناکامیوں کے باوجود بھی ٹیم میں شامل رکھا۔

انہوں نے اقبال قاسم کو ٹیم سے باہر ہی رکھا مگر 1987 میں دورہ ہندوستان کے موقع پر نائب کپتان جاوید میانداد کے اسرار پر صرف اُسی سیریز میں شامل کیا۔

قاسم عمر اور یونس احمد نے الزام عائد کیا کہ عمران خان نے اپنے کھلاڑیوں کو اپنے 'ہوٹل کے کمروں میں ایک رات کے لیے لڑکیوں کو لانے' پر اکسایا۔

عمران خان نے پاکستان میں اکتوبر میں منعقد ہونے والی دو سیریز کھیلنے سے انکار کردیا تھا کیونکہ ’وہ پاکستان میں سال کا سب سے گرم ترین مہینہ تھا۔’

میدان پر موجود اناڑی کھلاڑیوں کو اکثر ڈانٹا کرتے۔

کپتانی کا عروج: 83-1982 میں پاکستان میں ہونے والی سیریز میں آسٹریلیا کو 0-3 سے اور ہندوستان کو 0-3 سے شکست دی۔

1987 میں انگلینڈ کو انگلینڈ میں اور ہندوستان کو ہندوستان میں ہرایا۔

1989 میں دورہ ہندوستان میں بین الاقوامی ایک روزہ میچ میں فتح حاصل کی۔

1992 کا ورلڈ کپ جیتا۔

عبدالقادر کو دوبارہ ٹیم میں شامل کیا۔

وسیم اکرم کی تربیت کی۔

وقار یونس، سلیم جعفر اور عاقب جاوید کو متعارف کروایا۔

کپتانی کا ریکارڈ: 48 ٹیسٹ میچوں میں 14 جیتے، 8 ہارے اور 26 میچ ڈرا ہوئے۔ 139 ایک روزہ میچوں میں 75 جیتے اور 59 میں شکست ہوئی۔

عمران خان اپنے تین فاسٹ باولرز شاگردوں وسیم اکرم، وقار یونس اور عاقب جاوید کے ہمراہ (1989)
عمران خان اپنے تین فاسٹ باولرز شاگردوں وسیم اکرم، وقار یونس اور عاقب جاوید کے ہمراہ (1989)

عمران خان کا غصہ میدان میں ظاہری طور پر نظر آتا تھا۔
عمران خان کا غصہ میدان میں ظاہری طور پر نظر آتا تھا۔

وسیم اکرم ★ ★ ★

آل راؤنڈر. بائیں ہاتھ کے فاسٹ بالر; بائیں ہاتھ کے بیٹسمین.

کپتانی کا دور: 94-1993; 96-1995; 99-1997.

تعلق: لاہور

طرزِ کپتانی: جارحانہ; پرکشش; جھگڑالو.

عمدہ حکمت عملی: کچھ بھی نہیں۔

تنازعات: میدان میں کھڑے ٹیم کھلاڑیوں سے بدکلامی۔

1994 میں کھلاڑیوں کی بغاوت کا سامنا کیا۔

1993 میں دورہ ویسٹ انڈیز کے دوران ساحل سمندر پر عوامی جگہ پر چرس پینے پر تین دیگر کھلاڑیوں سمیت گرفتار کیا گیا۔

1996 کے ورلڈ کپ میں ہندوستان کے خلاف اہم کوارٹر فائنل سے پہلے اسکواڈ سے نکال دیا گیا۔ میچ ہارنے کے بعد اُن کے گھر پر حملہ بھی کیا گیا تھا۔

اُن کے اپنے ساتھی فاسٹ فاسٹ باولر وقار یونس اور کوچ جاوید میانداد کے ساتھ تعلقات تناؤ کا شکار رہے۔

کپتانی کا عروج: 1996 کی سیریز میں انگلینڈ کو انگلینڈ میں شکست دی۔

1999 کے ورلڈ کپ کے فائنل تک پاکستان کو رسائی۔

1999 میں پاکستان اور ہندوستان کے درمیان انتہائی کشیدگی کے دوران ہندوستان میں ایک سیریز برابر کی اور پھر ایشئن ٹیسٹ چیمپئن شپ میں فتح حاصل کی۔

کپتانی کا ریکارڈ: 25 ٹیسٹ میں 12 جیتے، 8 ہارے اور 5 ڈرا ہوئے۔ 109 ایک روزہ میچوں 66 جیتے اور 41 ہارے۔

ناخوش وسیم اکرم
ناخوش وسیم اکرم

سلیم ملک ★ ★

دائیں ہاتھ کے بیٹسمین.

کپتانی کا دور: 95-1994

تعلق: لاہور

طرز کپتانی: پُرسکون; الگ تھلگ; غیر اظہار پسند.

عمدہ حکمت عملی: کچھ بھی نہیں

تنازعات: میچ فکسنگ میں پڑنے کی وجہ سے کھیلنے پر تاحیات پابندی.

کپتانی کا عروج: 1994 (کراچی) میں آسٹریلیا کے خلاف ایک مشکل میچ میں ایک وکٹ سے کامیابی۔

کپتانی کا ریکارڈ: 12 ٹیسٹ میچوں میں 7 جیتے، 3 ہارے اور 2 ڈرا ہوئے۔ 34 ایک روزہ میچوں میں 21 جیتے اور 11 ہارے۔

رمیز راجہ ★ ★

سیدھے ہاتھ کے بیٹسمین.

کپتانی کا دور: 1997 ;96-1995.

تعلق: لاہور

طرز کپتانی: پرسکون; دفاعی.

عمدہ حکمت عملی: کچھ بھی نہیں.

تنازعات: 1997 میں ایک روزہ کرکٹ کے دورہ ہندوستان کے دوران ’اپنے ہی کھلاڑیوں کے خلاف تنقیدی مضامین لکھنے’ پر بورڈ کی جانب سے سرزنش ہوئی۔

کپتانی کا ریکارڈ: 5 ٹیسٹ میں 1 جیتے، 2 ہارے اور 2 ڈرا ہوئے۔ 22 ایک روزہ میچوں میں 7 جیتے اور 13 ہارے۔

سعید انور ★

بائیں ہاتھ کے بیٹسمین

کپتانی کا دور:1999; 1997.

تعلق: کراچی.

طرز کپتانی: شرمیلا; شائستہ; جارحانہ.

عمدہ حکمت عملی: کچھ بھی نہیں

تنازعات: کچھ بھی نہیں

کپتانی کا عروج: کچھ بھی نہیں

کپتانی کا ریکارڈ: 7 ٹیسٹ میچوں میں 1 جیتے، 4 ہارے اور 2 ڈرا ہوئے۔ 11 ایک روزہ میچوں میں 5 جیتے اور 6 ہارے۔

عامر سہیل ★

بائیں ہاتھ کے بیٹسمین. غیر مستقل بائیں ہاتھ کے اسپنر

کپتانی کا عروج: 1998

تعلق: لاہور

طرز کپتانی: ہٹ دھرم; خشک مزاج; جھگڑالو.

عمدہ حکمت عملی: کچھ بھی نہیں

تنازعات: سلیکٹرز پر اپنی مرضی کی ٹیم فراہم نہ کرنے کا الزام کیا۔ غصے میں مستعفی ہوئے۔

کپتانی کا عروج: کچھ بھی نہیں

کپتانی کا ریکارڈ: 6 ٹیسٹ میچوں 1 جیتے، 2 ہارے اور 3 ڈرا ہوئے۔ 22 ایک روزہ میچوں 9 جیتے اور 12 ہارے

معین خان ★ ★

وکٹ کیپر- بیٹسمین

کپتانی کا دور: 1-2000; 1999; 1997

تعلق: کراچی.

طرز کپتانی: کسی بھی صورتحال سے نمٹنے کی صلاحیت.

عمدہ حکمت عملی: کچھ بھی نہیں

تنازعات: کچھ بھی نہیں.

کپتانی کا عروج: کچھ بھی نہیں

کپتانی کا ریکارڈ: 13 ٹیسٹ میچوں میں 4 جیتے، 2 ہارے اور 7 ڈرا ہوئے۔ 34 ایک روزہ میچوں 20 جیتے اور 14 میں شکست ہوئی۔

وقار یونس ★ ★ ★

دائیں ہاتھ کے فاسٹ بالر; لور آرڈر بیٹسمین

کپتانی کا دور: 2003-2001

تعلق: ویہاڑی.

طرز کپتانی: جارحانہ.

عمدہ حکمت عملی: کچھ بھی نہیں

2003 میں آسٹریلیا کے خلاف پاکستان کے میچ میں بیٹسمین کو سر سے اوپر گیند پھنکنے کی وجہ سے امپائرز نے بالنگ سے روک دیا۔ جس کی وجہ سے انہوں نے میچ ہارنے کے بعد اختتامی تقریب میں شریک ہونے سے انکار کردیا تھا۔

کپتانی کا عروج: 2001 میں انگلینڈ میں انگلینڈ کے خلاف سیریز کو مشکل حالات میں ڈرا کرنے میں کامیاب رہے۔

کپتانی یا ریکارڈ: 17 ٹیسٹ میچوں میں 10 جیتے، 7 ہارے اور 0 ڈرا ہوئے۔ 62 ایک روزہ میچوں 37 جیتے اور 23 ہارے

وقار یونس اپنے فاسٹ بالر ساتھی وسیم اکرم کو مشورہ دے رہے ہیں۔
وقار یونس اپنے فاسٹ بالر ساتھی وسیم اکرم کو مشورہ دے رہے ہیں۔

راشد لطیف ★ ★

وکیٹ کیپر - بیٹسمین

کپتانی کا دور: 4-2003; 1998.

تعلق:کراچی'

عمدہ حکمت عملی: کچھ بھی نہیں۔

طرز کپتانی: جھگڑالو; جذباتی.

تنازعات: 2004 میں بنگلہ دیش کے خلاف ٹیسٹ سیریز کے دوران کیچ کی غلط اپیل کرنے پر پابندی کا سامنا کرنا پڑا (اور پھر کپتانی سے ہٹا دیا گیا)۔

کپتانی کا عروج: یاسر حمید اور محمد حفیظ کو متعارف کروایا۔

کپتانی کا ریکارڈ: 6 ٹیسٹ میچوں میں 4 جیتے، 1 ہارے اور 1 ڈرا ہوا۔ 25 ایک روزہ میچوں میں 13 جیتے اور 12 ہارے۔

انضمام الحق ★ ★ ★

دائیں ہاتھ کے بیٹسمین

کپتانی کا دور: 2007-2003 ;2001

تعلق: ملتان

طرز کپتانی: کم بیانی; ڈپلو میٹک; ‘شفیق.’

عمدہ حکمت عملی: بدلتے مزاج والی ٹیم کو قابو میں رکھنے کے لیے مذہبی خطابات اور رسومات کا استعمال۔

تنازعات: انہوں نے مبینہ طور پر مصباح الحق کو ٹیم سے باہر رکھا کیونکہ وہ اُن سے زیادہ 'پڑھے لکھے اور شائستہ مزاج تھے اور وہ 'کپتانی کے لیے خطرہ' ثابت ہوسکتے تھے۔

شعیب اختر سے اُن کا بار بار ٹکراؤ ہوتا تھا جس کہ وجہ یہ تھی انہوں نے انضمام الحق کی 'مذہبی حکمت عملی' سے موافق ہونے سے انکار کردیا تھا۔

کپتانی کا عروج: 05-2004 میں (ہندوستان میں) ہندوستان کے خلاف ایک میچ ہارنے کے بعد سیریز برابر کردی۔

کپتانی کا ریکارڈ: 31 ٹیسٹ میچوں میں 11 جیتے، 11 میں شکست ہوئی اور 9 بغیر کسی نتیجے کے ختم ہوگئے۔ 87 ایک روزہ میچوں میں 51 جیتے، 33 ہارے جبکہ واحد ٹی ٹوئنٹی میچ میں کامیابی حاصل ہوئی۔

ماضی کے راولپنڈی ایکسپریس شعیب اختر سے تعلقات تناؤ کا شکار رہے.
ماضی کے راولپنڈی ایکسپریس شعیب اختر سے تعلقات تناؤ کا شکار رہے.

شعیب ملک ★ ★

دائیں ہاتھ کے بیٹسمین; دائیں ہاتھ کے آف بریک بالر

کپتانی کا دور: 2008-2007

تعلق: سیالکوٹ.

طرز کپتانی: غیر واضح مزاج; جھگڑالو.

عمدہ حکمت عملی: کچھ بھی نہیں

تنازعات: کرکٹ بورڈ کے ساتھ ٹکراؤ کے بعد مستعفی ہوگئے.

کپتانی کا عروج: مصباح الحق کی واپسی.

پاکستان کو 2007 کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے فائنل تک پہنچایا۔

**کپتانی کا ریکارڈ: 3 ٹیسٹ میچوں میں 0 جیتے، 2 ہارے اور 1 برابر ہوا۔ 36 ایک روزہ میچوں میں 24 جیتے، 12 ہارے جبکہ 17 ٹی ٹوئنٹی مقابلوں میں 12 میں کامیابی جبکہ 4 میں شکست کا سامنا ہوا۔ **

یونس خان ★ ★

دائیں ہاتھ کے بیٹسمین

کپتانی کا دور: 2009-2008; 2006; 2004.

تعلق: مردان

طرز کپتانی: جذباتی.

عمدہ حکمت عملی: کچھ بھی نہیں۔

تنازعات: کھلاڑیوں کے ایک گروپ کی جانب سے تعاون نہ کرنے کا دعویٰ کرنے کے بعد وہ مستعفی ہوگئے۔

کپتانی کا عروج: 2009 کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں فتح۔

کپتانی کا ریکارڈ: 9 ٹیسٹ میچوں میں 1 جیتے، 3 ہارے اور 5 ڈرا ہوئے۔ 21 ایک روزہ میں 8 جیتے اور 13 میں شکست ہوئی، جبکہ 8 ٹی ٹوئنٹی مقابلوں میں 5 میں کامیابی ملی اور 3 ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔

محمد یوسف ★

دائیں ہاتھ کے بیٹسمین

کپتانی کا دور: 2010-2009;2005

تعلق: لاہور

طرز کپتانی: خشک مزاج; دفاعی; غیر متاثرکن.

عمدہ حکمت عملی: کچھ بھی نہیں

تنازعات: 10-2009 میں آسٹریلیا کے خلاف سیریز کے دوران جب کپتان تھے تب اُن کے چند کھلاڑیوں نے مبینہ طور پر ٹیسٹ میچ کو ’ہاتھوں سے گنوایا’ تھا۔

وہ ایک بار 2009 میں دورہ نیوزی لینڈ کے موقع پر کپتان ڈینیل وٹوری کے پاس گئے اور مذہبی بیان سننے کی دعوت دی۔ وٹوری نے بڑی ہی شائستگی کے ساتھ انکار کردیا۔

کپتانی کا عروج: کچھ بھی نہیں

کپتانی کا ریکارڈ: 9 ٹیسٹ میں 2 جیتے، 6 ہارے اور 1 ڈرا ہوا۔ 8 ایک روزہ میچوں میں 2 جیتے اور 6 میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

شاہد آفریدی ★ ★

آل رائونڈر. دائیں ہاتھ کے بیٹسمین; دائیں ہاتھ کے لیگ اسپن بالر

کپتانی کا دور: 15-2013; 2009.

تعلق: قبائلی علاقہ، خیبر.

طرز کپتانی: اظہاریہ/جذبات انگیز; جذباتی; جلد باز.

عمدہ حکمت عملی: کچھ بھی نہیں

تنازعات: 2009 میں آسٹریلیا کے خلاف ایک روزہ میچ کے دوران بال ٹیمپرنگ کرنے پر پابندی عائد کردی گئی۔

2010 میں آسٹریلیا کے خلاف سریز کے دوران کپتانی سے مستعفی ہوگئے۔

اکثر کوچ وقار یونس کے ساتھ تکرار ہوتی رہی۔

کپتانی کا عروج: 2011 کے ورلڈ کپ میں خستہ حال ٹیم کو سیمی فائنل تک پہنچایا۔

**کپتانی کا ریکارڈ: 1 ٹیسٹ میچ میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ 38 ایک روزہ میچوں میں قیادت کی جس میں 19 جیتے اور 18 ہارے جبکہ 30 ٹی ٹوئنٹی مقابلوں میں 15 میں کامیابی ملی اور اتنے ہی میچوں میں ناکامی۔ **

سلمان بٹ ★

بائیں ہاتھ کے بیٹسمین.

کپتانی کا دور: 2010

تعلق: لاہور

طرز کپتانی: غیر اظہار پسند.

عمدہ حکمت عملی: کچھ بھی نہیں

تنازعات: 2010 میں انگلینڈ کے خلاف ٹیسٹ میں ’اسپاٹ فکسنگ‘ کرنے پر 7 سال کی پابندی اور جیل کی سزا سنائی گئی۔

کپتانی کا عروج: 2010 میں مضبوط ٹیم آسٹریلیا کے خلاف مشکل ٹیسٹ میں کامیابی۔

کپتانی کا ریکارڈ: 5 ٹیسٹ میچوں میں 2 جیتے اور 3 ہارے

مصباح الحق ★ ★ ★ ★

دائیں ہاتھ کے بیٹسمین

کپتانی کا دور: 2016-2011

تعلق: میانوالی

طرز کپتانی: ڈپلومیٹک; کم گو; دفائی; پرسکون.

عمدہ حکمت عملی: فیلڈ اور باولنگ لائن کو اِس طرح سیٹ کرنے کی کوشش کرنا کہ رنز گھٹائے جائیں اور پھر ایک وکٹ حاصل کرلی جائے۔

تنازعات: کچھ بھی نہیں۔

کپتانی کا عروج: 2012 میں انگلینڈ کو 3 صفر سے شکست.

2014 میں سری لنکا کے خلاف آخری تین سیشنز میں 300 سے زائد رنز کا ہدف عبور کرکے سیریز کو برابر کیا۔

2015 میں آسٹریلیا کو 0-2 سے شکست دی۔

2016 میں انگلینڈ کے خلاف سریز 2-2 سے برابر کی۔

2016 کے اواخر میں پاکستان کو عالمی ٹیسٹ رینکنگ میں پہلے نمبر تک پہنچایا۔

سعید اجمل اور یاسر شاہ کو متعارف کروایا۔

کپتانی کا ریکارڈ: 52 ٹیسٹ میچوں میں 24 جیتے، 17 ہارے اور 11 ڈرا ہوئے۔ 87 ایک روزہ میچوں میں 45 جیتے اور 39 ہارے جبکہ 8 ٹی ٹوئنٹی میچوں میں 6 جیتے فتح نصیب ہوئی اور 2 شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔

ایس اسپنر یاسر شاہ کے ساتھ.
ایس اسپنر یاسر شاہ کے ساتھ.

ترجمہ: ایاز احمد لغاری

انگلش میں پڑھیں


ندیم ایف پراچہ ڈان کے سینیئر کالم نگار ہیں۔ وہ ٹوئٹر پر NadeemfParacha@ کے نام سے لکھتے ہیں۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیے گئے تبصروں سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔