-- فائل فوٹو --
فائل فوٹو --.

والدین کی خواہش، عموماً یہ ہوتی ہے کہ ان کے بچے انگریزی زبان میں مہارت حاصل کریں اور یہ درست بھی ہے- اس لئے کہ انگریزی کی مہارت، بہر حال ایک بہت اہم اور خصوصی وصف ہے-

مگر اس بات سے انکا ر نہیں کیا جاسکتا ہے کہ بچے خاص طور سے اوائل عمر میں مخصوص باتوں یا چیزوں کا عمومی تصور اپنی مادری زبان میں ہی بہتر طور پر سیکھتے ہیں-

پنجاب کی سابقہ گورنمنٹ نے اس مسئلہ کواس طرح حل کرنے کی کوشش کی کہ یہ اعلان کردیا کہ سارے پرائیویٹ اسکولوں میں ذریعہ تعلیم انگریزی ہو گا-

عباس رشید، جو (سوسائٹی فور دی ایڈوانسمنٹ آف ہائر ایڈوکشن) کے سربراہ ہیں، انہوں نے اس مسئلہ پر جو تحقیق کی ہے، اس کے نتیجے کے طور پر، جس میں انہوں نے ٹیچروں، ہیڈ ٹیچروں اوراعلی سرکاری افسروں سے انٹرویوز سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ حکومت کی اس پالیسی کے نتیجے میں پبلک اسکولوں میں داخلے کا رجحان بہت بڑھ گیا ہے اور یہ کہ والدین کی سوچ پبلک اسکولوں اور ان کے تعلیمی معیار کے بارے بہت بہتر ہو گئی ہے-

گرچہ یہ کہنا ابھی قبل ازوقت ہے کہ حکومت کی اس پالیسی کے نتیجے میں تعلیم اور خواندگی کا معیار واقعی بہتر ہوگا- مذکورہ رپورٹوں سے بہتری کا تاثر نہیں ملتا ہے- انگریزی کو ذریعہ تعلیم بنانے کے حکومتی پالیسی فیصلہ کے تین مبینہ مقاصد سمجھ میں آتے ہیں اور تینوں ہی قابل حصول نہیں ہے-

اگر مقصد بچوں کوانگریزی ایک زبان کے طور پر سیکھنے کا ہے تو ریاضی اور سائنس انگریزی میں پڑھکرانگریزی سیکھنا مشکل ہے- اسکا اثر بالکل الٹا ہوتا ہے-

وہ اساتذہ جو اردو یا علاقائی زبانوں میں پڑھانے کے عادی ہیں، انکو سائنس یا ریاضی پڑھانے میں بہت مشکل پیش آتی ہے کجا یہ کہ وہ طالب علموں کو انگریزی سیکھنے میں مددگار ہوں-

وہ طالب علم، جو سائنس اور ریاضی کلاسوں میں سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں، ان کو ایک وقت میں دہری مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے- یعنی ایک نئی زبان کو بھی سمجھنے کی کوشش کا- سات اور آٹھ سال کے بچوں کیلئے تقسیم اور ضرب کے مشکل تصور کو سیکھنے کیلئے یہ کوئی سازگار ماحول نہیں ہے-

یہ بات ثا بت ہو چکی ہے کہ مشکل تصورات، بچوں کی سمجھ میں اسی وقت آتے ہیں جب وہ ان کی مادری زبان میں سمجھائے جائیں- پنجاب میں یہ صرف اردو اور پنجابی میں ممکن ہے-

ان ملکوں میں بھی، جہاں درسی کتابیں مادری زبان میں موجود نہیں ہیں اور دوسری زبان کا سیکھنا ضروری امر ہے وہاں بھی ٹیچرز بہتر طریقہ یہی سمجھتے ہیں کہ دوسری زبان کی کتاب استعمال کریں-لیکن مشکل تصورات کو سمجھا نے کیلئے مادری زبان ہی کا استعمال کرتے ہیں تاکہ طالب علم کی سمجھ میں آجائے کہ استاد حقیقتاً پڑھا کیا رہا ہے-

یہ زبانوں کی ادلا بدلی، ایک جدید تصور ہے- اسے (کوڈ سوئچنگ) کہتے ہیں اور آجکل پاکستان میں کالج اور یونیورسٹی کے لیول پر رائج بھی ہے- لیکن انگریزی کو ذریعہ تعلیم اور اسے زبردستی رائج کرنے کی کوششوں کا مطلب، اس موجودہ سسٹم کی حوصلہ شکنی اور اسے مسترد کرنا ہے- حالانکہ ہمارے تعلیمی ماحول کیلئے یہ زیادہ بہتر طریقہ کار ہے-

بہتر خواندگی کے معیار کا تعلق، ذریعہ تعلیم سے نہیں ہوتا بلکہ اگر استاد کی انگریزی زبان کی استعداد اچھی نہ ہو جو پاکستان میں پرائمری اسکول ٹیچرز کی عموماً نہیں ہوتی ہے تو اس کا اثر خواندگی کے معیار پر منفی پڑ سکتا ہے-

بہت سے استادوں کو انگریزی پڑھانے کی تربیت دی گئی ہے لیکن یہ تربیت صرف چند دنوں پر محیط تھی- کیا ہم یہ امید کر سکتے ہیں کہ چند روزہ تربیت، ایک بالکل نئی زبان کو سیکھ کر، اس کو پڑھانے کی صلاحیت، کسی میں بھی پیدا کر سکتی ہے؟

دوسری طرف، والدین کی خواہش یہ ہوتی ہے کہ ان کے بچے انگریزی زبان سیکھیں- زندگی میں آگے بڑھنے اور نئے مواقع حاصل کرنے کیلئے انگریزی زبان میں مہارت ضروری سمجھی جاتی ہے اوراس تاثر میں کافی حد تک سچائی بھی ہے- بلکہ یہی تصور حکومت کی اس پالیسی سازی کے پیچھے، عوامی حمایت کی وجہ تھا-

لیکن جب نتیجہ آنا شروع ہو گا اور والدین پر یہ حقیقت آشکار ہو گی کہ بچے انگریزی زبان ٹھیک سے نہیں سیکھ پا رہے ہیں، تب کیا ہو گا؟ اور اس پالیسی کے نتیجے میں تو یہی کچھ ہونا ہے-

ذریعہ تعلیم کے تعلق سے جو پالیسی بنائی گئی ہے وہ انگریزی زبان کو سیکھنے کی مہارت میں اضافہ کرنے کے مقصد کو پورا نہیں کرتی اور نہ ہی بچوں کے سیکھنے کا اور تعلیم کا معیار بلند ہوتا ہے-

اگر ہم یقینی طور پر یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے اسکول کے طلباء، انگریزی میں مہارت حاصل کریں تو ہمیں زبان کے طور پرانگریزی تدریس کے طریقے کو بہتر بنانا ہوگا- اور یہ اسی طرح ممکن ہے کہ انگریزی کے اساتذہ کا معیار بلند ہو-

ایسے بہت سے ادارے اور پروگرام موجود ہیں جو خصوصی طور پر زبانوں کی تدریس کرتے ہیں- ہمیں شائد ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم دیکھیں کہ آیا وہ ہمارے انگریزی زبان کے اساتذہ کو تربیت دیکر ان کا معیار بلند کر سکتے ہیں؟

اگر ہم اپنے اسکولوں میں معیار تعلیم کو بہتر بنانا چاہتے ہیں تو اس کا طریقہ یہ نہیں ہے کہ ہم انگریزی کو ذریعہ تعلیم بنا دیں- اس مقصد کیلئے ہمیں طریقہ تدریس کو ہنرمندی کے ساتھ استعمال کرنا ہوگا- اساتذہ میں اس بات کی اہلیت ہونی چاہئے کہ وہ ایک ایسی زبان میں، طلباء کے سامنے عمومی تصور پیش کریں جسے وہ بآسانی سمجھ سکیں- اساتذہ کو چاہئے کہ وہ ایسی مروجہ مثالیں اور خیالات پیش کریں جو بچوں کے سیکھنے کی صلاحیت کے مطابق ہو-

ایک اسکول کی سربراہ ٹیچر نے بتایا کہ ان کے اسکولوں میں ریاضی اور سائنس کے بعض اساتذہ، ان مضامین کو پڑھانا نہیں چاہتے اور ان کی جگہ اردو اور اسلامیات پڑھانا چاہتے ہیں- انہیں یہ مضامین پڑھانے میں دشواری محسوس ہوتی ہے-

اساتذہ کے ساتھ ہمارا یہ رویہ درست نہیں ہے- لیکن جب تک ہم کافی تیاری کے بغیر اور رواں صورتحال کوپیش نظر رکھے بغیر، پالیسی تبدیل کرتے رہینگے، ایسا ہی ہو گا اور ہوتا ہی رہے گا-

زبان میں مہارت حاصل کرنا اور چیز ہے اور ذریعہ تعلیم کا مسئلہ اور چیز- یہ دونوں علیحدہ علیحدہ مسائل ہیں- مزید یہ کہ اس پالیسی سے تدریس اور تعلیم کے معیار پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں-

ذریعہ تعلیم کی تبدیلی سے معیار کا مسئلہ حل نہیں ہو سکتا- اس مسئلہ کو حل کرنے کیلئے براہ راست طور پر اساتذہ کو تربیت دینا ہوگی، اساتذہ کی رہنمائی کرنا ہو گی اور انھیں بہتر وسائل فراہم کرنا ہونگے-

اب جبکہ اٹھارویں ترمیم کے بعد یہ صوبائی ذمہ داری قرار دی جا چکی ہے- یہ دیکھنا باعث دلچسپی ہو گا کہ صوبے تعلیم سے متعلق مسائل کو کس طرح حل کرتے ہیں-


ترجمہ: سیدہ صالحہ

تبصرے (0) بند ہیں