تقریباً دو سال بعد ایک سفر لاحق تھا، اپنے سوہنے دیس کا مگر باکمال لوگوں کی اس لاجواب سروس کو استعمال کرنے کی ہمت تھی اور نہ ہی پرواز کے لیٹے ہونے پر ہوائی اڈوں پر انتظار کرنے کا حوصلہ، سو ایک غیر مُلکی فلائٹ کا انتخاب کیا۔

ابوظہبی کے انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر لاہور کی پرواز کے منتظر لوگوں کا جمِ غفیر کرسیوں پر براجمان یا قالین پر ٹانگیں پسارے بیٹھا تھا۔ تمام کرسیاں پُر تھیں اور بہت سے پسماندہ دکھائی دیتے بزرگ خواتین و حضرات کی تھکاوٹ اور جوتوں پر سر رکھے سو جانے کی بے نیازی بتاتی تھی کہ عمرہ سے ادائیگی کے بعد گھر کی طرف روانگی کے شدت سے منتظر ہیں۔

ان عمر رسیدہ اور مسکین المزاج افراد کی اکثریت کے بیچ جدید جینز اور برانڈڈ جیکٹس پہنے بھی چند ایک لاہوری کچھ پرے پرے ہو کر کھڑے ہوتے تھے اور تبصرہ کرتے تھے کہ لاہور کی فلائٹ میں بہت 'اِسٹوپِڈ' لوگ ہوتے ہیں۔ تو ہم بھی انہیں اِسٹوپِڈ لوگوں کے بیچ جگہ بنائے کچھ کرسیوں پر بیٹھے تھے اور ابوظہبی کے جدید اور جدید ترین سہولتوں سے آراستہ لاؤنج میں سانس لینے کے لیے مناسب آکسیجن حاصل کرنے کا جتن کرتے تھے جو شاید لوگوں کی بے تحاشا اکثریت کی وجہ سے کم ہوئے جاتی تھی۔

ہم سمیت سب ہی لوگ اس چھوٹے سے پاکستانی حصے میں بیٹھے یا کھڑے اخبار یا کاغذ سے ہوا جھلتے تھے اور دسمبر کے خوشگوار اماراتی موسم میں ٹشو پیپرز یا دوپٹوں سے پسینہ پونچھتے تھے۔

غیر ملکی ایئر لائن کا جہاز لاہور اور اس کے مضافات کے لوگوں سے کھچا کھچ بھر چکا تھا اور پرواز کے روانہ ہونے کے اعلان ہونے لگے مگر ابھی تک سانس بحال نہ ہو سکی تھی۔ لاؤنج کی گُھٹی فضا کے بعد اب ایسی ہی حبس زدہ صورتحال جہاز کے اندر لاحق تھی۔ ایک بڑی اور مشہور کمپنی کے بڑے جہاز کا اے سی بھی اللہ کے نام پر ہی چلتا تھا۔ شاید پاکستان کے لیے غیر ملکی کمپنیاں بھی اپنی سروسز ہمارے معیار کے مطابق کر دیتی ہیں یا ہماری ہی تاثیر ایسی ہے کہ ہر جگہ ہر صورتحال ہمارے حسب حال ہو جاتی ہے۔

لاہور — صوفیہ کاشف
لاہور — صوفیہ کاشف

یہ گھٹی سانسیں کاغذوں سے ہوا جھلنے کے باوجود پورے تین گھنٹے بحال ہو سکیں اورنہ ہی کوئی دبنگ لاہوری مرد یا مہنگے بیگ والی تند عورت یہ جرات کر سکی کہ اٹھ کر عملے سے سوال کرے کہ یہ اے سی کیوں ڈھنگ سے نہیں چلتے، پیسے تو ہم نے پورے دییے ہیں۔

دو چار تھکے ہارے کمزور دل بزرگ بھی حبس زدہ ماحول کےخلاف کھڑے ہو کر یا چکرا کر کوئی احتجاج ریکارڈ نہ کروا سکے۔ اپنی باکمال سروس ہوتی تو ابھی دو چار کو پکڑ لیتے اور فیس بک کے لیے ویڈیوز الگ بنا لیتے۔ اب یہ ایک امیر ملک کی بہترین کمپنی ٹھہری تھی سو سب کے سب صاحب بہادر کندھے نیچے کیے سر جھکائے بیٹھے تھے۔

ایئر پورٹ سے نکلے تو سڑکوں پر جگہ جگہ رینجرز اور پولیس کی تعیناتی، تلاشیاں اور حد بندیاں دیکھیں، گویا ملک حالت جنگ میں تھا۔ ایسا لگا جیسے کوئی مقبوضہ علاقہ ہو کہ جہاں امن و امان کو کنٹرول کرنے کے لیے ہر نکڑ پر فوج کا ہونا ضروری ہو۔ مقبوضہ تو شاید پاکستان ہو چکا ہے دہشت گردوں، کرپٹ اور نااہل سیاست دانوں اور خود غرض میڈیا کے ہاتھوں۔

سالوں بعد لاہور کی سرزمین پر اترے تو بچوں کو یادگاریں اور لاہور کی تاریخ اور کلچر دکھانے کی خاطر اقبال پارک کا رخ کیا جہاں دھول مٹی میں اٹے میدانوں میں کھڑا ایک گریٹر اقبال پارک کا دعویٰ دیکھا۔ بتایا گیا کہ دو دن بعد گریٹر اقبال پارک کا افتتاح ہے۔ نجانے افتتاح کے بعد اس کا کیا بدلا مگر ہم نے تو جہاز کی کھڑکی سے سبز نظر آتے پنجاب کے اقبال پارک کے میدانوں میں گھاس بھی ذرا خفا خفا اور اکھڑی اکھڑی سی دیکھی۔

گھاس اور سڑکوں کے بیچ بڑے بڑے تختے کسی بھی گھاس یا اینٹ سے خالی تھے جن پر چلتی ٹرین سواریوں اور آس پاس چلنے پھرنے والوں پر خوب دھول اڑاتی اور ان کا اور ان کے چہروں اور چیزوں کا رنگ مٹیالا کرتی جاتی تھی، وہی مٹیالا رنگ جو لاہور بھر کے سبز درختوں پر سفیدی بن کر اترا ہوا تھا اور بنی نوع انسان سے مایوس رحمت باراں کی دعا کرتا تھا۔

لاہور کی سیر — تصویر صوفیہ کاشف
لاہور کی سیر — تصویر صوفیہ کاشف

لاہور کی سیر — تصویر صوفیہ کاشف
لاہور کی سیر — تصویر صوفیہ کاشف

شاہی قلعے کی قدیم عظمت پر شکستگی، نمی اور کائی کو اترتے دیکھا اور منگل کے روز اقبال پارک، شاہی قلعہ اور بادشاہی مسجد میں تفریح کرتے لوگوں کی بہتات دیکھی تو حیرت ہوئی کہ ویک ڈے پر اتنی دنیا، کیا ویک ڈے پر یہاں کوئی اسکول کالج بزنس یا ملازمت نہیں ہوتی جو اتنا مجمع تفریحی مقامات پر موجود تھا۔

ترقی یافتہ ملکوں کے پارکس اور تفریحی مقامات پر ویک ڈے میں صرف اُلو ہی بولتے ہیں۔ لوگوں اور کائی کی بہتات کے ساتھ قلعے کے میدان لال اور گلابی گلابوں سے اٹے دیکھے تو طبیعت میں رنگ برنگی خوشبو بھری بہار سی اتر آئی۔ سیلوٹ ہے ایسی دھرتی کو جو اس قدر بہتات میں اتنی خوشبو اور خوبصورتی پیدا کرتی ہے۔

کیا ہی اچھا ہوتا کہ صرف چند لفظوں میں جگہوں کے تعارف لکھنے کے بجائے تھوڑا تفصیلی تعارف ہوتا اور کچھ جگہوں کے ساتھ دربار اور بارہ دریوں کی کچھ کمپیوٹرائزڈ تخیلاتی تصویریں بنا کر لگا دی جاتیں کہ فلاں بادشاہ کے زمانے میں یہ کیسا تھا اور کیسا دکھتا تھا تو شہر اور بیرون ملک سے آنے والے بغیر گائیڈ کے بھی یہ سب دلچسپی سے سمجھ اور یاد رکھ سکتے مگر انتظامیہ کو ابھی تک شاید اس کا خیال نہ آیا تھا یا اس مہنگے کام کے لیے ان کے پاس فنڈز نہ تھے۔ سو گائیڈ کے بغیر یہ زیارت صرف کالی پیلی دیواروں کا دیدار تھا اور کچھ نہیں۔

اس طرح کی سیاحت میں کونے کھدروں میں چھپی پیغامات کی ترسیل کی مہارت دکھائی دیتی ہے نہ اینٹوں میں لگی دالوں اور مصالحہ کی مہارت، نہ حمام کی بالکونیوں پر بنی اشکال دکھائی دیتی ہیں نہ 250 سالہ برگد کے درخت کی بزرگی۔

ایک زمانے میں سرکاری ٹیلی ویژن پر ان مقامات پر تفصیلی بنے پروگرام اور ڈرامے ہم نے خود دیکھ رکھے ہیں جو یقیناً اب بھی محفوظ ہوں گے اور بہت سے مزید بھی بنائے گئے ہوں گے۔ اگر سرکار چاہے تو قلعے کے کسی کونے میں ان کی پروجیکشن کا انتظام بھی ممکن ہے۔

برگد کا درخت— تصویر صوفیہ کاشف
برگد کا درخت— تصویر صوفیہ کاشف

قدرت کی مہربانی سے محفوظ شاہی قلعہ سرکاری توجہ کا منتظر ہے کہ اس کے لیے بھی کوئی قلعہ 2200 قسم کا پروگرام ترتیب دیا جائے تاکہ جدید مہارتوں کے استعمال سے اس کی دیواروں کو شکست و ریخت اور کائی سے محفوظ رکھا جا سکے۔ یقین کیجئے کہ مستقبل کی جدید میٹرو اور اورنج ٹرین کے خوابوں کے ساتھ اپنی اس عظیم تاریخ کی حفاظت کی ضرورت ہے جو ہر جدید ملک کی قسمت نہیں ہوتی۔

یہ عظیم تاریخ جو لاہور کی اسکائی لائن کو وسعت دل سے شان اور عظمت بخشتی ہے، وہی اسکائی لائن جسے اکثر جدید ملکوں میں پر وقار بنانے کے لیے جدید عمارتوں کا سہارا لیا جاتا ہے۔ لوگوں کے شیشوں سے متاثر ہو کر اپنے دامن کے ہیرے موتی کی قدر بھول جانا ایک بڑی غلطی ہے جسے کرنے سے گریز کی ضرورت ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں