ذریعہ آمدنی غیریقینی

'افغانی جائیں گے تو میرا کاروبار ٹھپ ہو جائے گا'

سراج الدین | طوبیٰ مسعود

محمد عظیم سے ملیے

جب یہ پشاور کے مہاجر کیمپ منتقل ہوئے تو ماہر قالین ساز نے اپنے خیمے سے ہی قالین بننے کا کام شروع کردیا تاکہ اپنے اہل خانہ کی ضروریات پوری کرسکیں جو ان کے ہمراہ پاکستان پہنچے تھے۔

اس وقت محمد عظیم نے سوچا بھی نہیں تھا کسی دن وہ اپنی قالین کی فیکٹری چلارہے ہوں گے اور پشاور میں سب سے زیادہ افغان قالین تیار کرنے والے شخص بن جائیں گے۔

ابتداء میں وہ بہت کم قیمت پر قالین فروخت کیا کرتے تھے، قالین سازی کے ساتھ ساتھ وہ تاجروں، برآمد کنندگان اور پشاور و دیگر شہروں کے دکانداروں سے بھی جان پہچان بناتے گئے۔

کئی سالوں کی انتھک محنت اور رت جگوں کے بعد محمد عظیم بالآخر مالی طور پر اتنے مستحکم ہوچکے تھے کہ پشاور کے علاقے فقیرآباد میں ایک چھوٹا گھر کرائے پر لے سکیں۔

یوں وہ اپنے اہل خانہ کے ہمراہ ریلیف کیمپ سے منتقل ہوئے اور زندگی کے ایک نئے باب کا آغاز کیا۔

پشاور میں ایک افغان شہری سڑک کنارے چیزین فروخت کر رہا ہے — ملک اچکزئی
پشاور میں ایک افغان شہری سڑک کنارے چیزین فروخت کر رہا ہے — ملک اچکزئی

پاکستان میں افغان مہاجرین اور پناہ گزینوں کے بارے میں پائے جانے والے تاثرات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ پاکستانی معیشت پر بوجھ ہیں، تاہم یہ مفروضہ اس بات کا احاطہ نہیں کرتا کہ افغان باشندے کئی سالوں سے پاکستان کا حصہ بن چکے ہیں اور کھانے پینے، ٹرانسپورٹ کے ساتھ ساتھ قالین کی صنعتوں میں بھی اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔

عظیم کے مطابق آج اس کے تیار کردہ قالین اپنی خوبصورتی، رنگوں اور ڈئزائنز کی بدولت مقامی اور بین الاقوامی بازاروں میں مشہور ہیں۔

عظیم کے مطابق اس وقت ہاتھ سے بنے افغان قالینوں کی مانگ بہت زیادہ تھی، 'شہر میں کوئی صنعت نہ تھی، جس سے ہمیں فائدہ ہوا اور ہم دن رات کام کرتے رہے اور مانگ کو پورا کرنے کے لیے مزید باصلاحیت لوگوں کو اس کام کا حصہ بناتے رہے'۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عظیم زیادہ افراد کو ملازمت پر رکھنے کے قابل ہوگئے، تقریباً 80 ملازمتیں اور ساتھ ہی فیکٹری کے طور پر استعمال کے لیے چارسدہ روڈ پر ایک عمارت بھی کرائے پر حاصل کرلی۔

پاکستان نے عظیم کی سخت محنت پر اسے اپنا کام خود کرنے کا موقع فراہم کیا اورعظیم نے اسے کامیابی سے پورا کیا۔

اور پھر آرمی پبلک اسکول پر حملہ ہوگیا۔


'پیداواری صلاحیت 95 فیصد کم ہوچکی ہے اور اب انہوں نے خام مال کی مزید خریداری بھی چھوڑ دی ہے، فیکٹری بند ہونے کے قریب پہنچ چکی ہے'


پولیس نے افغانیوں کے خلاف چھاپوں اور کریک ڈاؤن کا سلسلہ شروع کردیا، جس سے کئی افراد افغانستان لوٹنے پر مجبور ہوگئے تاکہ پولیس کی جانب سے ہراساں اور گرفتار کیے جانے سے بچ سکیں۔

جوں جوں عظیم کے خریدار اور ملازمین پاکستان چھوڑ کر جانے لگے عظیم نے اپنے آپ کو واپس اسی مقام پر محسوس کیا جہاں سے اس نے اپنے کام کا آغاز کیا تھا۔

ان کی فیکٹری کے 30 ماہر افغان ملازم ملک چھوڑ کر جاچکے ہیں۔

فکرمند محمد عظیم کے مطابق 'پیداواری صلاحیت 95 فیصد کم ہوچکی ہے اور اب انہوں نے خام مال کی مزید خریداری بھی چھوڑ دی ہے، فیکٹری بند ہونے کے قریب پہنچ چکی ہے'۔

افغان قالین تیار کرنے والے کئی درجن افراد اپنی دکانیں بند کرچکے ہیں۔

فوٹو اے ایف پی
فوٹو اے ایف پی

کراچی میں بھی قالین کا کاروبار کچھ بہتر نہیں رہا۔

گنجلک بھول بھلیوں کا مرکز الآصف اسکوائر کی جانب ایک سڑک ایسی ہے جسے علاقے کا ہر مرد، عورت اور بچہ جانتا ہے، 'کارپٹ والی گلی'، اس گلی کا یہ نام علاقے میں افغان تاجروں کی جانب سے قائم کی گئی قالین کی دکانوں کے بعد پڑا۔ سڑک کے بائیں جانب رہائشی اپارٹمنٹس کا بلاک ہے جبکہ سڑک کی دائیں جانب دنیا بھر کے دکانداروں اور قالینوں سے بھرے ہوئی ہے۔

ان ہی میں سے ایک دکان میں بابا نظر بیٹھتے ہیں جو افغان مہاجرین کی دوسری نسل کا حصہ ہیں جو کراچی میں پیدا ہوئی۔

22 سالہ نظر کے مطابق جس زمین میں اس کے والد پیدا ہوئے اس زمین سے اس کا تعلق آج بھی مضبوط ہے۔

بابا نظر کے والد جو ایک افغان تھے 70 کے دہائی کے آخر میں کاروبار کے لیے یہاں پہنچے انہوں نے قالین کا کام شروع کیا، ہر طرح کے قالین، دریاں اور دسترخوان تیار کرنے، خریدنے اور فروخت کرنے کا آغاز کیا، وہ آج بھی الآصف میں ایک چھوٹی دکان چلاتے ہیں۔

ملک اچکزائی—پشاور میں ایک افغان ہوٹل
ملک اچکزائی—پشاور میں ایک افغان ہوٹل

نظر نے ڈان کو بتایا کہ 'وہ میری بلکہ میرے بڑے بھائی کی پیدائش سے بھی پہلے کراچی منتقل ہوئے۔ انہوں نے صرف ایک شہر میں کم از کم 35 برس گزارے ہیں۔'

اس نوجوان شخص کے مطابق وہ مقامی سطح پر ہاتھ سے تیار کردہ قالین کے ساتھ ساتھ ایران، ترکی اور بیلجیم میں تیار ہونے والے قالین اور رگز بھی بیچتے ہیں۔

انہوں نے اپنی دکان میں موجود سب سے قیمتی چیز ترکی میں تیار ہونے والی گہرے سرخ رنکھ کی قالین بھی دکھائی جس کی قیمت 45 ہزار روپے سے لے کر 55 ہزار روپے کے درمیان تھی (مگر قیمت دارومدار صارفین کی قوت خرید پر منحصر ہے)۔


"ہمارے کاروبار کا انحصار اس علاقے اور افغانیوں پر ہے"


اس دکان پر کئی اقسام کے کپڑے اور دسترخوان بھی آپ کو نظر آئیں گے جن کی قیمت 15 سو روپے لے کر 3 ہزار روپے تک ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ایرانی قالین بالکل مختلف کیٹیگری ہے۔ 'میرے پاس 12 ہزار روپے سے لے کر 22 ہزار روپے مالیت کے ایرانی قالین موجود ہیں۔ مختلف پیٹرنز، دھاگوں اور کام کی نوعیت کی الگ الگ قیمت ہے۔'

عظیم کی طرح، نظر نے بھی کچھ عرصہ قبل تک بہترین کاروبار کیا۔

نظر کے مطابق 'میرے بیشتر خریدار کراچی سے ہی تعلق رکھتے ہیں۔ لوگوں کی بڑی تعداد اورنگی، بنارس یا دیگر علاقوں سے میرے پاس آتی ہے'۔

ڈان سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ، عموماً دکان پر کاروبارہ بہتر ہوتا ہے ۔' اگر ہمیں کوئی اچھا خریدار مل جائے تو ہم ایک دن میں 30 سے 35 ہزار روپے تک کماتے ہیں۔ مگر اس کا انحصار خریداروں کی تعداد پر ہے'۔

انہوں کے بتایا کہ ج،یسے جیسے حکومت افغان شہریوں کو واپس جانے کا کہہ رہی ہے تو لگتا ہے کہ اس سے ہمارا کاروبار بھی متاثر ہو گا۔ نظر نے کچھ سوچتے ہوئے پھر کہا کہ میرے خیال میں حقیقت میں اس کی وجہ سے کاروبار پہلے ہی متاثر ہو چکا ہے۔

نظر کے مطابق، "باقی مارکیٹیوں میں کیا ہو رہا ہے میں اس بارے میں تو کچھ نہیں کہہ سکتا ہے لیکن ہماری اپنی مارکیٹ میں قالینوں کی خریدوفروخت کا انحصار اس علاقے کے رہائشیوں اور افغان کمیونٹی پر ہے'۔

نظر نے مزید کہا کہ، "اگر آپ انہیں واپس افغانستان بھیج دیں گے تو یہ تمام قالین کون خریدے گا؟ کاروبارہ ٹھپ ہو جائے گا'۔


کریڈٹس
پروجیکٹ ڈائریکٹر | فہد نوید
ترجمہ و ایڈیٹنگ | منظرالہٰی، بلال مغل،صدف ایوب
ڈیزائن | علینہ بٹ