’افغان طالبان سے متعلق سرفراز بگٹی کا بیان سیاق و سباق سے ہٹ کر‘

شائع February 27, 2017

کوئٹہ: بلوچستان حکومت کے ترجمان انوار الحق کاکڑ نے وزیرداخلہ سرفراز بگٹی کی جانب سے دیے گئے بیان کی وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے بیان کو غلط طریقے سے پیش کیا گیا۔

صوبائی وزیرداخلہ سرفراز بگٹی نے امریکی نشریاتی ادارے ’وائس آف امریکا‘ کے افغان ریڈیو چینل ’دیوا‘سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’بلوچستان کے بہت سارے مدارس میں افغان طالبان زیر تعلیم ہیں، جب کہ بہت سے مدارس ان کی ملکیت ہیں‘۔

تاہم اب بلوچستان حکومت کے ترجمان انوار الحق کاکڑ نے اپنے وضاحتی بیان میں کہا ہے کہ سرفراز بگٹی کے صوبے میں افغان طالبان کی موجودگی کے حوالے سے بیان کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا۔

انوار الحق کاکڑ نے بتایا کہ دراصل سرفراز بگٹی کا اشارہ ان افغان باشندوں کی جانب تھا جو صوبے میں مقیم ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: 'ہزاروں افغان طالبان بلوچستان کے مدارس میں زیر تعلیم'

انوار الحق کاکڑ نے مزید کہا کہ بلوچستان حکومت نے نیشنل ایکشن پلان (نیپ) کے تحت صوبے بھر میں موجود 70 فیصد مدارس کی رجسٹریشن کا عمل مکمل کرلیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ حکومت نیپ کے تحت صوبے بھر میں موجود تقریباً 6 ہزار مدارس میں پڑھنے والے طلبا اور اساتذہ کا ریکارڈ مرتب کررہی ہے۔

انوار الحق کاکڑ نے بتایا کہ بلوچستان حکومت پہلے ہی صوبے میں فعال تمام مدارس کی نیپ کے تحت رجسٹریشن کو یقینی بنانے کے لیے اعلیٰ سطح کی کمیٹی قائم کرچکی ہے جس میں سیکریٹری داخلہ، تعلیم، سوشل ویلفیئر اور محکمہ صنعت کے سیکریٹری شامل ہیں۔

انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ ’ہم مدرسوں کو قومی دھارے میں لانا چاہتے ہیں‘۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ افغان صدارتی ترجمان کے اس الزام کے بارے میں ان کا کیا موقف ہے جس میں کہا گیا تھا کہ قندھار میں متحدہ عرب امارات کے سفارتکاروں پر ہونے والے خود کش حملے کی منصوبہ بندی پاکستان کے علاقے چمن میں ہوئی تھی تو انوار الحق کاکڑ نے اس الزام کو بےبنیاد اور حقائق سے دور قرار دیا۔

صوبائی ترجمان نے کہا کہ ’افغان حکومت کی تو ملک کے 70 فیصد علاقوں میں اپنی رٹ ہی نہیں تو پھر وہ کیسے یہ دعویٰ کرسکتے ہیں کہ حملے کی منصوبہ بندی پاکستان میں ہوئی‘۔

یہ بھی پڑھیں: سرحد کی بندش، افغانستان نے پاکستانی سفیر کو طلب کرلیا

انہوں نے کہا کہ حکومت پاکستان کی اپنی سرزمین کے ہر حصے میں 100 فیصد رٹ قائم ہے اور متحدہ عرب امارات کے سفارتکاروں پر حملے کی منصوبہ بندی افغانستان میں ہی ہوئی۔

انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ افغانستان اپنی کمزوریوں کے لیے پاکستان کو قربانی کا بکرا بنانے کی کوشش کررہا ہے، چونکہ افغانستان کے زیادہ تر علاقے طالبان کے قبضے میں ہیں لہٰذا یہ بات واضح ہے کہ منصوبہ بندی افغانستان کے اندر ہی ہوئی۔

ترجمان بلوچستان حکومت نے ایک بار پھر اس بات کا اعادہ کیا کہ پاک افغان سرحد پر غیر قانونی نقل و حمل روکنے کے لیے موثر بارڈر منیجمنٹ کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ غیر قانونی نقل و حرکت روکنے کے لیے ہم افغانستان کے ساتھ سرحد پر باڑ کی تنصیب اور بارڈر منیجمنٹ کو بہتر بنانا چاہتے ہیں۔

خیال رہے کہ 13 فروری سے شروع ہونے والی دہشت گردی کی نئی لہر کے بعد پاکستان نے افغانستان کے ساتھ ملنے والی طورخم بارڈر کراسنگ غیر معینہ مدت کے لیے بند کردی تھی۔

اس کے بعد پاک فوج کی جانب سے ملک گیر آپریشن 'رد الفساد' شروع کرنے کا اعلان کیا گیا تھا جس کے تحت پاک افغان سرحد پر مشتبہ دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا۔

پاکستان نے 76 انتہائی مطلوب دہشت گردوں کی فہرست بھی افغان حکام کے حوالے کی تھی اور ان سے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا تھا۔

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے افغانستان میں تعینات امریکی ریسولوٹ سپورٹ مشن کے کمانڈر جنرل جان نکلسن کو بھی فون کیا تھا اور افغانستان سے پاکستان پر مسلسل دہشت گردی پر احتجاج کیا تھا۔


کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2025
کارٹون : 22 دسمبر 2025