پاکستان 19 سال بعد ہونے والی مردم شماری کی تیاریوں میں مصروف ہے, 2008 سے التواء کا شکار چھٹی مردم و خانہ شماری کا آغاز 15 مارچ سے ہوگا جس کا اختتام 25 مئی کو ہوگا جبکہ یہ عمل دو مراحل میں مکمل کیا جائے گا۔

آبادی کے لحاظ سے دنیا کے چھٹے بڑے ملک میں یہ مردم شماری کن حوالوں سے اہمیت کی حامل ہے، یہاں نظر ڈالتے ہیں۔

تیسری صنف

ملک میں نظرانداز کی جانے والی خواجہ سرا برادری کے مطابق پاکستان کے قیام کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب مردم شماری میں مخنث افراد کو علیحدہ سے شمار کیا جائے گا۔

خواجہ سرا افراد کو شمار کیے جانے کا عدالتی فیصلہ سامنے آنے کے بعد اس حوالے سے فارمز کی چھپائی کا عمل مکمل ہوچکا ہے جبکہ مردم شماری کے لیے تعینات افراد کو بھی بتایا جاچکا ہے کہ سروے میں شامل افراد کے لیے جنس کے خانے میں تین آپشنز یعنی مرد، خاتون یا مخنث موجود ہوں گے۔

صرف 9 زبانیں

کثیرالنسلی افراد کے مسکن پاکستان میں زبان کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے تاہم اس مردم شماری میں ملک میں بولی اور سمجھی جانے والی تقریباً 70 زبانوں میں سے صرف 9 زبانوں کو شامل کیا جائے گا، جو ملک میں مقیم کئی برادریوں کے لیے مایوس کن ہے۔

مردم شماری میں قلیل آبادی والے علاقے گلگت بلتستان کی کسی علاقائی زبان کو شامل نہیں کیا گیا اور نہ ہی گجراتی کو شامل کیا گیا ہے جو بھارت سے ہجرت کرکے پاکستان آنے والے بیشتر مسلمانوں کی زبان ہے۔

گجراتی بولنے والے ان مسلمانوں کا خیال ہے کہ اگر زبان کو شناخت نہیں ملتی تو ان کی مادری زبان گمنام ہوسکتی ہے۔

مذاہب کا معاملہ

فرانسیسی خبر رساں ادارے کے مطابق پاکستان میں ہونے والی چھٹی مردم شماری ملک میں موجود اقلیتی برادری بالخصوص عیسائیوں اور ہندوؤں کی حقیقی تعداد سامنے لائے گی۔

اب تک پاکستان میں موجود اقلیتوں کی تعداد کے حوالے سے صرف اندازے لگائے جاتے رہے ہیں جن پر اتفاق رائے نہیں، ان اندازوں کے مطابق پاکستان میں عیسائیوں کی تعداد 20 لاکھ سے 1 کروڑ کے درمیان جبکہ ہندو آبادی 25 لاکھ سے 45 لاکھ کے لگ بھگ ہے۔

مردم شماری کے دوران شہری خود کو مسلمان، عیسائی، ہندو یا احمدی ہونے کی حیثیت سے بیان کرسکیں گے۔

ان چار انتخابات کے علاوہ انہیں خود کو 'شیڈولڈ طبقے کا رکن' بیان کرنے کا آپشن حاصل ہوگا جس میں پسماندہ اور نچلی ذات کی ہندو برادری کے افراد و دیگر شامل ہوں گے۔

خیال رہے کہ مردم شماری میں سکھ، پارسی یا بہائی مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد کے شمار کے لیے کوئی علیحدہ خانہ موجود نہیں۔

ٹوائلٹس کی تعداد

مردم شماری کے فارم کے ایک خانے میں شہریوں سے یہ سوال بھی کیا جائے گا کہ ان کے گھر میں موجود ٹوائلٹس کی تعداد کتنی ہے۔

اس سوال کی ضرورت اس لیے بھی محسوس ہوتی ہے کیونکہ اقوام متحدہ کے مطابق پاکستان کی 40 فیصد آبادی کو ضروری حاجات کے لیے ٹوائلٹ میسر نہیں جو صحت کے بیشتر مسائل کی وجہ ہے۔

قومیت

مردم شماری میں قومیت کے خانے میں شہریوں کے لیے دو آپشنز پاکستانی یا غیر ملکی موجود ہوں گے۔

تاہم اس حوالے سے پاکستانی فوج جو اس مردم شماری کے ساتھ متوازن شماری سرانجام دے گی، وہ قومیت کے حوالے سے مزید باریک بینی سے جائزہ لینے کا ارادہ رکھتی ہے جس کی اہم وجہ ملک میں موجود افغان مہاجرین کی بڑی تعداد ہے۔

کئی مقامی افراد خدشہ ظاہر کرتے ہیں کہ افغان شہری مقامی افراد کی گنتی میں آجائیں گے جس سے اعداد و شمار پشتون افراد کی تعداد میں اضافے کا سبب بنیں گے اور نتیجتاً پشتون سیاسی جماعتوں کو اس کا فائدہ ہوگا۔

دوسری جانب اندازاً 60 لاکھ پاکستانی جو بیرون ملک ملازم ہیں وہ مردم شماری کا حصہ نہیں بن پائیں گے۔

اندرون ملک ہجرت کے حوالے سے بھی کوئی معلومات اکھٹی نہیں کی جائیں گی، جو درحقیقت کسی صوبے کی سیاسی اہمیت کا اندازہ لگانے کے لیے ضروری ہے، جہاں معاشی وجوہات کی باعث لوگوں کی بڑی تعداد منتقل ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں