صدرمملکت ممنون حسین نے 23 ویں آئینی ترمیم سمیت آرمی ایکٹ 2017 پر دستخط کردیئے، جس کے بعد فوجی عدالتوں کی مدت میں مزید 2 سال کی توسیع ہوگئی۔

قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظوری کے بعد صدر مملکت کو آئینی ترمیم اور آرمی ایکٹ کا بل دستخط کے لیے ارسال کیا گیا تھا، جو صدر کے دستخط کے بعد اب 23ویں آئینی ترمیم کہلائے گی۔

خیال رہے کہ قومی اسمبلی سے منظوری کے دوران اس کو 28 ویں آئینی ترمیم کہا گیا تھا کیونکہ اسمبلی کے اجلاس میں آئین میں متعدد ترامیم کے بل پیش ہوئے تھے، تاہم پاکستانی آئین میں اب تک 22 آئینی ترامیم ہوچکی ہیں اس لیے تازہ ترمیم کو 23 ویں آئینی ترمیم کہا گیا ہے۔

قبل ازیں قومی اسمبلی سے دوتہائی اکثریت سے منظوری کے بعد 3 روز قبل سینیٹ نے اس ترمیم کو منظور کیا گیا تھا، بعد ازاں وزارت پارلیمانی امور نے دستخط کے لیے آئینی ترامیم کو صدر مملکت کو ارسال کیا تھا۔

یہ بی پڑھیں:فوجی عدالتوں کی مدت میں 2 سالہ توسیع کا بل قومی اسمبلی سے منظور

وزیر قانون زاہد حامد کی جانب سے پیش کی گئی آئینی ترمیم کے بل پر سینیٹ میں ووٹنگ ہوئی تھی اور دوتہائی اکثریت کے ساتھ اس بل کو منظوری دے دی گئی تھی۔

بل کی حمایت میں 78 ارکان سینیٹ نے ووٹ ڈالے تھے جبکہ تین سینیٹرز نے اس کی مخالفت بھی کی تھی۔

پختونخوا ملی عوامی پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر گل بشریٰ، اعظم موسیٰ خیل اور عثمان کاکڑ نے بل کی مخالفت کی تھی جبکہ جمعیت علمائے اسلام (فضل الرحمٰن) سے تعلق رکھنے والے سینیٹرز نے 28 ویں آئینی ترمیم کے بل پر ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا تھا۔

مزید پڑھیں: فوجی عدالتوں میں توسیع کا بل سینیٹ سے بھی منظور

فوجی عدالتوں کی 2 سالہ خصوصی مدت رواں برس 7 جنوری کو ختم ہوگئی تھی، جس کے بعد ان عدالتوں کی دوبارہ بحالی کے حوالے سے سیاسی جماعتوں اور حکومت کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ جاری تھا۔

فوجی عدالتوں کا قیام 16 دسمبر 2014 کو پشاور کے آرمی پبلک اسکول (اے پی ایس) پر حملے کے بعد آئین میں 21 ویں ترمیم کرکے عمل میں لایا گیا تھا۔

آرمی ایکٹ 2017

قومی اسمبلی نے 21 مارچ کو پاکستان آرمی ایکٹ 1952 میں ترمیم کے لیے 'پاکستان آرمی (ترمیمی) بل 2017' کثرت رائے سے منظور کیا تھا، جس پر صدر مملکت نے دستخط کردیئے ہیں جو اب باقاعدہ قانون بن گیا ہے۔

وزیرقانون زاہد حامد نے قومی اسمبلی میں آرمی ایکٹ میں ترمیم کا بل پیش کیا تھا جس کی ایوان میں شق وار منظوری کے بعد کثرت رائے سے منظور کیا گیا تھا۔

آرمی ایکٹ میں ترمیم کے بل پر ایم کیو ایم، جمعیت علمائے اسلام، جماعت اسلامی اور جمشید دستی کی جانب سے پیش کی گئی تمام ترامیم کو مسترد کردیا گیا تھا۔

ترمیمی بل پر بات کرتے ہوئے وزیرقانون زاہد حامد نے کہا تھا کہ ملک کو درپیش موجودہ خطرات اور سلامتی کے چیلنجز کو مد ںظر رکھتے ہوئے 2015 میں 21 ویں آئینی ترمیم منظور کی گئی تھی، جس میں دہشت گردی سے متعلق جرائم کے مقدمات پاکستان آرمی ایکٹ 1952 کے تحت چلانے کی اجازت دی گئی۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ آرمی ایکٹ ترمیمی بل 2017 کے ذریعے ان خصوصی اقدامات کو مزید دو سال کی توسیع دینے کی تجویز پیش کی گئی۔

انکوائری کمیشن ایکٹ پر دستخط

صدرمملکت نے انکوائری کمیشنز ایکٹ پر بھی دستخط کردیئے ہیں جس کے بعد 1956کا انکوائری کمیشن قانون ختم ہوچکا ہے اور اب کسی بھی معاملے کی تحقیقات کے لیے نئے قانون کا سہارا لیا جائے گا۔

نئے قانون کے تحت حکومت معاملے کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو کمیشن بنانے کی درخواست کرے گی جبکہ انکوائری کمیشن کو دیوانی اور فوجداری اختیارات بھی مل گئے۔

انکوائری کمیشن کو ملکی اور غیر ملکی اداروں سے مدد لینے کا بھی اختیار ہوگا، حکومت انکوائری کمیشن کی رپورٹ عام کرنے کی پابند ہوگی۔

تبصرے (0) بند ہیں