بوسنیا اور ہرزیگووینا کی سیر کا ناقابل فراموش تجربہ
"کیا بوسنیا خطرناک علاقہ ہے؟ کیا وہاں جنگ جاری ہے؟"
بوسنیا میں ہمارے گائیڈ جب بھی کسی بیرون ملک جاتے تو ان سے ایسے سوالوں کی بوچھاڑ کر دی جاتی ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ 'بیرونی ملکوں میں سراجیوو تین چیزوں کی وجہ سے مشہور ہے: جن میں پہلی جنگ عظیم کا آغاز، 1984 کے اولمپکس کا انعقاد اور جنگ (بوسنیائی جنگ 1995-1992) شامل ہیں۔
وہ مذاقاً کہتے ہیں کہ، "ایسے معاملات کے بگاڑ کو درست کرنے کے لیے ہمیں ایک اور اولمپکس گیمز کروانے کی ضرورت ہے۔’
سراجیوو ہر سال سیاحوں کی بڑھتی تعداد کے ساتھ ایک بار پھر ایک پررونق جگہ بن چکی ہے۔ شاندار تاریخ اور فطری حسن سے مالا مال، یہ ملک یورپی معیار کے اعتبار سے دیکھیں تو سیر و سیاحت کے حوالے سے کافی سستا ہے۔
بوسنیا کے دارالحکومت، سراجیوو، سفید عثمانیہ طرز کی مسجدوں، سربیائی اورتھوڈوکس اور کیتھولک کروٹ گرجا گھروں، 19 صدی کے آسٹرو- ہنگرین طرز تعمیر، کمیونسٹ دور کے اپارٹمنٹ بلاکس اور جدید شاپنگ مالز کے امتزاج کے ساتھ ایک ہنگامہ خیز تاریخ کی تمام نشانیاں اپنے پاس رکھے ہوئے ہے۔
سراجیوو دراصل دو الفاظ کا مرکب ہے، 'سارے' اور ایوو’: سارے ترک لفظ سے نکلا ہے جس کا مطلب ہے جگہ اور ایوو کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ترک لفظ ’اووا’ یا ’اوواسی’ کا سلاوی بگاڑ ہے جس کا مطلب ہے کھیت کھلیان یا وادی۔
شہر ایک وادئ کے اندر آباد ہے، جو سبز پہاڑیوں کے ڈنیرِک ایلپس (Dinaric Alps) پہاڑی سلسلے سے گھرا ہوا ہے جبکہ تمام شہر سرخ چھتوں والے خوبصورت گھروں اور سفید دیواروں، میناروں، چرچ میناروں، قلعوں، حویلیوں اور قبرستانوں سے بھرپور ہے۔
سراجیوو کے پرانے شہر کی گلیوں میں واقع لکڑی سے بنی ہوئی عثمانیہ طرز کے بازار میں چلتے ہوئے، جہاں کباب اور سینکے جا رہے گوشت کی خوشبوؤں پھیلی ہیں، یہ دیکھ سکتا ہوں کہ سراجییوو کے لوگ بڑے بڑے شاپنگ مراکز ہونے کے باوجود روایتی بازوروں کا رخ کرنا پسند کرتے ہیں۔ گھرانے، جوڑے، دوست، کولیگز اور سیاحوں کے ساتھ ٹی ہاؤسز میں آرام کرتے ہیں اور حقہ پیتے ہیں۔
پورے شہر میں بار، پب اور نائٹ کلبز بھی ضم ہیں؛ ایک طویل القامت خاتون حجاب پہنے، سنہری بالوں والی بے حجاب بہن کے ساتھ کہیں جا رہی ہے۔ شہر اب بھی اپنی کثیرالثقافت وراثت کو سنبھالے ہوئے ہے، تاہم ہمارے گائیڈ، جن کے والد سربیائی اور ان کی والدہ بوسنیائی ہیں، ہمیں بتاتے ہیں کہ، اب پہلے والی بات نہیں رہی۔ ’اس شہر میں مختلف نسلی شناخت رکھنے والوں کے درمیان شادی کافی عام سی تھی۔’
بوسنیا یوگوسلاویہ کا حصہ تھا، موجودہ مقدونیہ، سلووینیا، بوسنیا اور ہرزیگووینا، کروشیا، کوسووہ، سربیا اور مونٹینیگرو پہلے یوگوسلاویہ میں شامل تھے۔
1991 میں، 49.2 فیصد آبادی نے خود کو بوسنیائی (مسلمان) بتلایا، 29.8 فیصد سربیائی (عیسائی)، 10.7 فیصد نے یوگوسلاویائی، 6.6 فیصد کروٹس (کیتھولکس) اور 3.6 فیصد نے اپنی دیگر شناخت (جن میں یہودی اور رومانی شامل ہیں) بتائی۔
جنگ نے پورے خطے کی آبادیت کو بڑی سطح پر بدل کر رکھ دیا۔ آج، سراجیوو کی آبادی میں 80.7 فیصد بوسنیائی، 3.7 فیصد سربیائی، 4.9 فیصد کروٹ اور 10 فیصد دیگر شناخت کے لوگوں پر مشتمل ہے۔
سراجیوو کی گلیوں میں جنگ کی یادگاریں بکھری ہوئی ہیں اور پورے شہر میں دہشت انگیز احساس آپ کے ساتھ ہوتا ہے۔ ایک مخصوص یادگار جو بار بار دیکھنے کو مل رہی ہے وہ ہے سراجیوو کے سرخ گلاب۔ ہر دوسری سڑک پر پیدل چلنے کے راستے پر ٹوٹ پھوٹ کے نشان نظر آتا ہے مگر نزدیک سے دیکھنے پر، میں نے دیکھا کہ اس ٹوٹے پھوٹے حصے پر سرخ رنگ کیا گیا ہے جس سے وہاں ایک گلاب کی شکل ابھر آتی ہے۔
شہر کے مقامی باشندے نے مجھے بتایا کہ، "پیدل چلنے کے راستے پر یہ ٹوٹ پھوٹ کے نشان ان جگہوں پر پڑے تھے جہاں جنگ کے دوران توپیں اتار کر کسی نہ کسی کو قتل کیا گیا تھا۔ ہم اپنے ماضی کو فراموش کرنے کے بجائے ہر ایک سانحے اور ہر کھوئی ہوئی زندگی کو یاد رکھنا چاہتے ہیں۔ ہم نے یہ سرخ گلاب محبت اور امن کی علامت کے طور پر بنائے ہیں۔ چونکہ یہ ایک سرکاری یادگار نہیں ہے اس لیے کبھی کبھار یہ گلاب غائب بھی ہو جاتے ہیں۔ اگر حکومت سڑکوں کو دوبارہ تعمیر کرنا چاہتی ہے تو لوگ غصے کا اظہار کرنے لگتے ہیں۔"
سراجیوو کی ثقافت میں قبرستانوں کا ایک اہم کردار کرتے ہیں؛ شہر نے قبرستانوں کو اپنی روز مرہ کی سماجی زندگی کا ہی ایک حصہ بنا لیا ہے۔ جب میں یہاں کے چند قبرستانوں پر پہچنا تو دیکھا کہ لوگ وہاں پکنک کر رہے ہیں۔ ایک مقامی شخص نے بتایا کہ ’بوسنیائی مسلمان ہمیشہ سے موت کے حوالے سے کھلا رویہ رکھتے آئیں ہیں۔ یہ بھی تو زندگی کا ایک حصہ ہے۔ تو پھر اس سے دور بھاگنا کیسا؟ قبرستان بھی پبلک پارکس کیوں نہ بنیں؟
سراجیوو کے لوگ زندگی سے محبت کرتے ہیں۔ شہر میں ہونے والی زبردست ترقی، جس میں نہ صرف نئے شاپنگ مراکز شامل ہیں بلکہ تاریخی مقامات کی بحالی، گیلریوں اور میوزیمز کا قیام بھی شامل ہے، جو ترقی کی راہوں پر چلنے کا واضح اشارہ ہے۔
سراجیوو ہائیکرز اور ٹریکرز کے لیے کسی جنت سے کم نہیں؛ ایک بلند و بالا چٹان عبور کرتے ہوئے ایک زرد رنگ کے قلعے پر پہنچا، جہاں میں نے کئی نوجوان اور بوڑھوں کو آرام کرتے اور غروب آفتاب کے وقت شہر کے حیرت انگیز نظاروں سے محظوظ ہوتے دیکھا۔
شہر میں گھومنے کے مقامات، ہائنکنگ کے لیے پہاڑیوں یا ایڈوینجرز کی جگہوں کی کوئی کمی نہیں۔ شہر میں خود کو کھو دینے میں بھی کوئی مسئلہ نہیں؛ مقامی لوگ کافی ملنسار اور دوستانہ مزاج رکھتے ہیں اور آپ کو راستہ بتانے میں ہمیشہ مدد کرتے ہیں۔ آپ کو یہ بتاتا چلوں کہ یہاں کھانا کافی زیادہ تعداد پیش کیا جاتا ہے، تھوڑا سلاد بھی چھوٹی دعوت کے برابر ہوتا ہے۔ لیکن اگر سراجیوو نے آپ کا دل نہیں جیتا تو موستار ضرور جیت لے گا۔
سراجیوو سے موستار کی اڈھائی گھنٹے کی یہ ڈرائیو میری زندگی چند سب سے خوبصورت اور حیران کن سفر میں سے ایک ثابت ہوئی۔ سبزہ اور دلکش وادیاں، پہاڑوں کی برف پوش چوٹیاں، شفاف ندی، چھوٹے چھوٹے گاؤں میں چھوٹی مساجد اور چھوٹے گرجا گھر— یہ مناظر جنت نظیر ہیں۔
موستار میں داخل ہونے کے بعد یہ شہر آپ کو اپنی پرانی پتھروں کی سڑکوں، پررونق بازاروں اور خوش ذائقہ کھانے کے ساتھ خوش آمدید کہتا ہے۔ بلاشبہ، یہاں کی سب سے بڑا توجہ کا مرکز ستاری موست ہے، جو 16 صدی میں سلطنت عثمانیہ دور کا ایک برج ہے جس کی خوبصورت تو خوب ہے مگر اس پر سے گزرنا بہت کٹھن۔ اسے ولڈ برج بھی کہا جاتا ہے، اس کی تعمیر کے 427 برسوں بعد کوٹ - بوسنیائی جنگ کے دوران تباہ کر دیا گیا تھا۔ 2004 میں اس کی دوبارہ تعمیر کی گئی۔ یہ برج اونٹ کی پیٹھ مثل ہے۔ پہلے برج کا راستہ اوپر کی طرف اٹھتا جاتا ہے پھر برج کا درمیان آتا ہے اور وہاں سے راستہ پھر نیچے کی طرف جاتا ہے۔
مقامی افراد سیاحوں کو برج پار کرنے کی کوشش کرتے ہوئے دیکھ کر لطف اندوز ہو رہے تھے اور کسی کسی نے تو برج پر لگی ریلنگ کو پکڑ کر برج پار کر رہے تھے۔ پراعتماد ہو کر برج پار کرنے سے قبل مجھے بھی بار بار کوششیں کرنی پڑی تھیں۔
ایک مقامی شخص برج کے کنارے لٹک گیا اور لوگوں کے جمع ہونے کا انتظار کرنے لگا، جیسے ہی لوگوں کا ہجوم اکٹھا ہوا ویسے ہی اس شخص نے نیچے صاف شفاف پانی میں چھلانگ لگا دی، پانی میں وہ خیر و آفیت سے تھا۔
موستر سے، جنوبی بوسنیا کے کسی بھی حصے میں سفر کرنا بہت ہی آسان ہے۔ وہاں سیر و تفریح کے لیے کئی قصبے، گاؤں، شہر، تاریخی مقامات اور قدرتی ذخائر موجود ہے۔
ان میں سے کراویچ آبشار ایک دیکھنے لائق مقام ہے۔ یہ خوبصورت آبشار، تیراکی، تصویریں کھینچنے، آرام کرنے اور سواپی (کباب) روٹی کھانے کے لیے ایک بہترین جگہ ہے۔ بھلے ہی گرم دن ہوں مگر پانی سے نزدیکی اور گرتے پانی کا شور آپ کو ٹھنڈک بخشتا ہے۔
بوسنیا اور ہرزیگووینا کی سیر میرے لیے ایک ناقابل فراموش تجربہ ہے۔ کئی لوگوں کے ذہنوں میں، 'یورپ' کا نام آتے ہی پیرس، لندن یا برلن کی تصاویر ابھر آتی ہیں مگر ’باقی یورپ’ سمجھا جانے والا یورپی حصہ بھی جدید یورپ کی شناخت جتنی ہی اہمیت رکھتا ہے۔
تلخ ماضی کے باوجود، یورپ کے ماضی، حال اور مستقبل کی کثیرالنسلی اور اس کے کثیر پہلوؤں کو — خاص طور پر ایسے وقت میں کہ جب تخفیفِ شناخت کی سیاست اس پرانے براعظم میں سراہیت کر رہی ہے— ظاہر کرنے میں بوسنیا کو خاص اہمیت حاصل ہے۔
جہاں بوسنیا میں تاریخ اور سیاست کے اسباق سیکھے جا سکتے ہیں وہاں یہ خوش ذائقہ کھانے، خوبصورت نظاروں اور ملنسار لوگوں سے بھرپور ہونے کی وجہ سے سیر و تفریح کے لیے بھی بہترین انتخاب ہے۔ بوسنیا نے سیاحوں کے لیے اپنے دروازے کھول دیے ہیں، اور یہ ملک آپ کے اگلے سفری منصوبے میں شامل ہونے کا مستحق ہے۔
عثمان بٹ لندن میں مقیم فری لانس ملٹی میڈیا صحافی اور میڈیا محقق ہیں اور ہفنگٹن پوسٹ، مفتاح اور دیگر کے لیے لکھ چکے ہیں۔ وہ دی کمیونٹی چینل (برطانیہ)، بی بی سی اور مختلف ٹی وی پروڈکشن کمپنیوں کے لیے تحقیق کے ساتھ ڈوکیومینٹریز اور ٹی وی فیچرز پروڈیوس کر چکے ہیں۔
تبصرے (3) بند ہیں