جیت گئے!

جیت گئے!

شان آغا

میدان سج چکا ہے: پاکستان اور ہندوستان چیمپیئنز ٹرافی کے فائنل میں۔ یہ مقابلہ سب مقابلوں کی ماں ہے۔ ہندوستانی کپتان ویرات کوہلی کے لیے یہ "صرف ایک اور میچ ہے۔" وسیم اکرم کے نزدیک ماضی میں ایک رہ چکے دو ملکوں کے لیے یہ "اعصاب کی جنگ ہے۔"

سابق ہندوستانی کپتان ساروو گنگولی ہندوستان کے جیتنے کا امکان 73 فیصد بتاتے ہیں۔ بکیز بھی ان سے کسی حد تک متفق ہیں اور پاکستان پر ایک کے تین کے حساب سے ریٹ لگاتے ہیں۔ ہندوستان واضح طور پر فیورٹ ہے۔

اس دوران پاکستانی عوام، سوشل میڈیا، اور پوری قوم کو معلوم ہے کہ انہیں کیا کرنا ہے: زیادہ شدت سے دعائیں مانگنی ہیں۔

صبح کا سب سے پہلا اور بڑا سوال: ٹاس جیتیں تو بیٹنگ کریں یا باؤلنگ؟

پاکستان اسکور کا تعاقب اچھا نہیں کر سکتا، اور ہندوستان کسی بھی اسکور کا تعاقب کر سکتا ہے۔ وکٹ ہموار ہے، مگر تازہ بنائی گئی ہے۔ کوہلی کے لیے یہ آسان ہے: ٹاس جیتو، باؤلنگ کرواؤ۔ سرفراز کے لیے ٹاس جیتنا شاید اچھا ثابت ہوا۔ ورنہ وہ نہایت آسانی سے اس اہم ترین میچ میں ہندوستان کے پہاڑ جیسے اسکور کا تعاقب کرنے کے جال میں پھنس جاتے۔

پاکستانی اوپنرز اظہر علی اور فخر زمان میچ کا آغاز کرتے ہیں۔ بھونیشور کمار کا پہلا اوور میڈن جاتا ہے۔ ہندوستان اپنا ہوم ورک کر کے آیا ہے۔ وہ فخر کو ٹائٹ لائن کی باؤلنگ کرواتے ہیں جو ذرا بھی باہر نہیں جاتی۔ ہندوستان تیاری سے آیا ہے۔ ہندوستان جیتنے کے لیے میدان میں اترا ہے۔ ہندوستان پہلی بار فخر کا سامنا کر رہا ہے۔ ہندوستان جانتا ہے کہ فخر کو باہر جاتی ہوئی گیند پسند ہے۔ مگر وہ اسے ایسی ایک بھی گیند نہیں دیتا۔

فخر آٹھ گیندوں تک اسٹمپس پر کھڑے رہتے ہیں، اور پھر بمراہ ایک باہر جاتی ہوئی گیند کرواتے ہیں۔ فخر اس جال میں پھنس جاتے ہیں اور اسٹمپس کے پیچھے کھڑے دھونی کو کیچ دے دیتے ہیں۔ مگر پاکستانی کھلاڑی مداخلت کرتے ہیں اور جادو کے پہلے آثار نظر آنے لگتے ہیں۔

بمراہ لکیر سے آگے تھے، یہ نو بال ہے۔ فخر کو ایک نئی زندگی مل جاتی ہے۔

قسمت کی دیوی ابھی پاکستان پر مہربان ہونا شروع ہوئی ہے۔ اندر آتی ہوئی گیند پر چوکا، باہر جاتی ہوئی گیند پر چوکا، ہیلمٹ پر لگتی ہوئی گیند پر چوکا۔ ہندوستان دونوں پاکستانی اوپنرز کو رن آؤٹ کرنے کے آسان مواقع کھو دیتا ہے۔ قسمت بہادروں کا ساتھ دیتی نظر آتی ہے۔

شائقین پلے کارڈز کے ذریعے اپنے کھلاڑیوں کا حوصلہ بڑھا رہے ہیں۔ — اے ایف پی۔
شائقین پلے کارڈز کے ذریعے اپنے کھلاڑیوں کا حوصلہ بڑھا رہے ہیں۔ — اے ایف پی۔

فخر اور اظہر چانس لیتے ہیں، جلدی جلدی سے سنگل رنز لیتے ہیں، اور کسی بھی آسان گیند پر بلا گھمانے میں دیر نہیں کرتے۔ مگر یہ صرف بوم بوم پاکستانی بیٹنگ نہیں ہے۔ ان کے پاس ایک منصوبہ ہے۔ انہوں نے اپنے ذہن میں ہدف بنا رکھا ہے۔ انہیں معلوم ہے کہ انہوں نے آج کس کا شکار کرنا ہے۔

ایشون، جنہیں پاکستان کے خلاف پہلے میچ میں نہیں لیا گیا تھا، آٹھواں اوور کرواتے ہیں۔ اظہر آگے بڑھتے ہیں اور گیند کو میدان سے باہر پہنچا دیتے ہیں۔

منصوبہ کھل کر سامنے آ چکا ہے۔ پاکستان ہندوستانی اسپن پر حملہ کرے گا۔

ہندوستان معاملہ بھانپ گیا ہے، اور اس کی فیلڈنگ تھوڑی کمزور پڑ جاتی ہے۔ فخر یووراج کی جانب سیدھی ہٹ لگاتے ہیں، مگر گیند ان کے ہاتھ میں جانے کے بجائے چوکے کے لیے باؤنڈری جا پہنچتی ہے، اور فخر اپنی تیسری لگاتار نصف سنچری تک۔

کیا فخر ہی وہ اوپنر ہیں جن کی پاکستان کو تلاش تھی؟ چار میچز میں 113 کے اسٹرائیک ریٹ کے ساتھ تین نصف سنچریاں۔ زبردست، لڑکے۔

وہ تیزی سے بھاگتے ہیں اور رسک اٹھاتے ہیں، مگر بالآخر اظہر رن آؤٹ ہوجاتے ہیں، اور واضح طور پر اداس ہیں۔ غلطی کا کچھ الزام فخر پر ہے، مگر بڑی وجہ رابطے کی کمی ہے۔

اظہر علی 59 رنز پر آؤٹ ہونے کے بعد پویلین واپس لوٹ رہے ہیں۔ — اے ایف پی۔
اظہر علی 59 رنز پر آؤٹ ہونے کے بعد پویلین واپس لوٹ رہے ہیں۔ — اے ایف پی۔

اظہر نے شراکت داری میں پہلا قدم اٹھایا تھا، اور فخر سے کہیں تیزی سے اسکور کر رہے تھے۔

مگر یہاں فخر اپنا گیئر تبدیل کرتے ہیں اور تین چھکوں اور پانچ چوکوں کی مدد سے صرف 37 گیندوں پر اگلے 58 رنز بنا ڈالتے ہیں۔ ایک اسٹائل سے اپنی پہلی سنچری بناتے ہیں مگر اس کے بعد بہت دیر تک کریز پر نہیں ٹک پاتے۔

ہاں یہ شاید دنیا کی بہترین سنچریوں میں سے نہ ہو، مگر یہ کسی بھی سنچری کی طرح اہم تھی۔

بابر اعظم اور شعیب ملک اسکور بورڈ پر کچھ رنز کا اضافہ تو کرتے ہیں، مگر دھواں دھار بیٹنگ نہیں کر پاتے۔

اور پھر آتے ہیں محمد حفیظ۔ پہلی گیند پر وہ کریز سے باہر نکلتے ہیں اور باؤنڈری تک پہنچا دیتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ حفیظ کی گیند کے ساتھ ٹائمنگ پاکستان میں کسی سے بھی زیادہ اچھی ہے۔ شاید ان کے کھیل کے انداز میں نمبر پانچ پر آنا زیادہ بہتر ہے۔ شاید جب پروفیسر کے پاس کم آپشنز ہوں تب وہ چیزوں کو پیچیدہ نہیں بناتے، جیسا کہ عام طور پر ان کی عادت ہے۔

ہندوستان بیک فٹ پر ہے اور کھیل کا دباؤ محسوس کر رہا ہے۔ وہ 25 اضافی رنز دے دیتے ہیں۔ پاکستان کے خلاف اپنے پہلے میچ میں انہوں نے صرف آٹھ رنز اضافی دیے تھے۔

کھیل اب پاکستان کے ہاتھ میں ہے۔

فخر زمان سنچری مکمل ہونے پر جشن منا رہے ہیں۔ وہ ہاردک پانڈیہ کی گیند پر 114 رنز پر کیچ آؤٹ ہوئے۔ — رائٹرز۔
فخر زمان سنچری مکمل ہونے پر جشن منا رہے ہیں۔ وہ ہاردک پانڈیہ کی گیند پر 114 رنز پر کیچ آؤٹ ہوئے۔ — رائٹرز۔

مگر آگے بھی ہندوستان ہے۔ اگر دنیا میں کوئی ٹیم ایسی ہے جو پہاڑ جیسے اسکور کا تعاقب کر سکتی ہے تو وہ ویرات کوہلی اور ان کے لڑکے ہیں۔

مگر وہ ٹورنامنٹ کے سب سے خطرناک باؤلنگ اٹیک کے سامنے ہیں۔ آخری تین میچوں میں پاکستان جنوبی افریقا کو 219/8، سری لنکا کو 235 پر آل آؤٹ اور انگلینڈ کو 211 پر پویلین واپس لوٹانے میں کامیاب رہا۔

نئی گیند پاکستان کے ماہر فاسٹ باؤلر محمد عامر کے ہاتھ میں ہے۔ وہ دو گیندوں کو باہر بھیجتے ہیں، اور تیسری کو اندر لے آتے ہیں، جس سے وسیم اکرم کی یادیں تازہ ہوجاتی ہیں۔ یہ گیند روہت شرما کے بس سے باہر ہے، جو ایک ہفت میں 101 کی اوسط کے ساتھ 301 رنز بنا چکے ہیں۔ روہت صفر پر پویلین واپس لوٹ جاتے ہیں۔

فاسٹ باؤلرز جوڑیوں کی صورت میں شکار کرتے ہیں۔ اور جنید خان دوسری جانب سے بپھرے ہوئے آتے ہیں۔ آخری دفعہ کوہلی کو اتنی جلدی جون 2015 میں واپس جانا پڑا تھا۔ انہیں اس کی عادت نہیں ہے، مگر ان کا سامنا پاکستان کے فاسٹ باؤلرز سے ہے جو آج کسی کو بخشنے کے لیے تیار نہیں۔

عامر ایک اور گیند کرواتے ہیں جو فرسٹ سلپ پر اظہر علی کے ہاتھوں میں پہنچتی ہے اور پھر باہر گر جاتی ہے۔ کوہلی کا پانچ رنز پر کیچ ڈراپ کر دیا گیا۔ وہی کوہلی، جو دوسرے نمبر پر بیٹنگ کرتے ہوئے 17 سنچریاں بنا چکے ہیں۔ وہی کوہلی جو پاکستان کے خلاف 183 ناٹ آؤٹ رہ چکے ہیں۔ وہی کوہلی جو 23 سال کی عمر میں 48 سے بھی کم اوورز میں 330 رنز کا تعاقب کر چکے ہیں۔

اب وہ 28 سال کے ہیں، ہندوستانی کپتان، اور دنیا کے نمبر ایک بیٹسمین۔

عامر شدید غصے میں ہیں، اور یہ بلاجواز نہیں ہے۔

پھر کچھ بالکل پاکستانی انداز میں ہوتا ہے۔ اگلی ہی گیند پر عامر کوہلی کو کیچ آؤٹ کروانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ خالص پاکستانی جادو ہے یہ!

عامر اور جنید آج کسی کو نہیں چھوڑیں گے۔ دونوں نے میڈن اوورز کروائے ہیں۔ مگر عامر ایک اور شکار کرتے ہیں۔ اس دفعہ ان کا شکار شیکھر دھون ہیں، گولڈن بیٹ کے حامل، ٹورنامنٹ میں سب سے زیادہ اسکور کرنے والے۔

نو اوورز میں ہندوستان کا اسکور 33/3 ہے، اور عامر پانچ اوورز میں 16 رنز دے کر 3 وکٹیں حاصل کر چکے ہیں۔

جنید خان رویندرا جدیجا کی وکٹ لینے کے بعد۔
جنید خان رویندرا جدیجا کی وکٹ لینے کے بعد۔

عامر روہت، ویرات، اور شیکھر، تینوں کو پویلین واپس بھیج چکے ہیں: ہندوستان کے ٹاپ تین بیٹسمین جنہوں نے چیمپیئن شپ میں فائنل سے پہلے ہندوستان کے 82 فیصد رنز (1094 میں سے 894) مل کر بنا لیے تھے۔

یووراج سنگھ اور مہیندرا سنگھ دھونی ہندوستان کی آخری امیدیں ہیں۔ فاسٹ باؤلرز جوڑیوں کا شکار کرتے ہیں، مگر پاکستانی فاسٹ باؤلرز تو پیکٹوں کے حساب سے شکار کرتے ہیں۔ اور اگر ان کے ساتھ کوئی لیگ اسپنر ہو، تو پھر تو یہ تباہ کن باؤلنگ اٹیک بن جاتا ہے۔

جلد ہی سرفراز اپنا اگلا ہتھیار سامنے لاتے ہیں۔ حسن علی ایک جانب سے باؤلنگ کرواتے ہیں تو شاداب خان دوسری جانب سے۔

19 سالہ پاکستانی لیگ اسپنر یووراج کے کریئر کے آغاز کے وقت دو سال کے تھے۔ مگر شاداب میں جوش و جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے، اور وہ یووراج کو کور ڈرائیو کا شاٹ کھلانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ یووراج آدھے آؤٹ ہوجاتے ہیں، اور اگلی دینگ پر، جو اسی لینتھ کی ہے مگر اندر آ رہی ہے، پر باقی آدھے بھی آؤٹ ہوجاتے ہیں۔ یووراج اپنا بلّا وہیں ٹکا لیتے ہیں۔ امپائر کے مطابق ناٹ آؤٹ ہے۔ شاداب ایسا نہیں سوچتے۔ وہ بہتر جانتے ہیں اور اپنے کپتان سے ریویو لینے کا کہتے ہیں۔ وہ درست ہیں۔

شاداب جانتے ہیں کہ انہیں اپنا شکار، یووراج سنگھ، مل چکا ہے۔ ٹیکنالوجی ان کی بات کی تصدیق کر دیتی ہے۔

پاکستانی ٹیم میچ جیتنے کے بعد سجدہءِ شکر ادا کرتے ہوئے۔ — اے ایف پی۔
پاکستانی ٹیم میچ جیتنے کے بعد سجدہءِ شکر ادا کرتے ہوئے۔ — اے ایف پی۔

حسن علی دھونی کے خلاف اپنی فیلڈ سیٹ کرتے ہیں۔ ڈیپ اسکوائر لیگ کی فیلڈ۔ یہ واضح طور پر ایک جال ہے۔ گیند شارٹ پچ ہے اور دھونی کی پسلیوں تک پہنچتی ہے۔ وہ اس پر شاٹ کھیلنے کی کوشش کرتے ہیں اور گیند کو جال کی طرف اچھال دیتے ہیں جہاں عماد وسیم ایک ہی ڈائیو میں دھونی کو جا لیتے ہیں۔

حسن جنریٹر اسٹارٹ کرتے ہیں اور اپنے مخصوص اسٹائل میں جشن مناتے ہیں۔ وہ پہلے ہی ٹورنامنٹ میں سب سے زیادہ وکٹ لینے والے کھلاڑی ہیں، مگر یہ لمحہ ان کے لیے اہم ہے۔ وہ ہندوستانیوں کو جیت چکے ہیں۔

صرف چار گیندوں کے وقفے میں یووراج اور دھونی دونوں پویلین واپس پہنچ چکے ہیں۔ ہندوستان کا اسکور 54/5 ہے اور پانچوں ٹاپ کھلاڑی واپس جا چکے ہیں۔

ہاردک پانڈیہ خود کو شاداب کے مقابل پاتے ہیں مگر اب بہت دیر ہو چکی ہے۔ ہندوستان کے زیادہ تر شائقین اسٹیڈیم چھوڑ کر جا رہے ہیں اور اسکور بورڈ واضح طور پر کھیل کا پانسہ بتا رہا ہے۔

بالآخر ہندوستان کو 158 پر آل آؤٹ کر دیا جاتا ہے۔ پاکستان 180 رنز سے میچ جیت کر فاتح قرار پاتا ہے۔ انہیں وائٹ جیکٹس پہنائی جاتی ہیں جو دو سائز بڑی ہیں، شاید انگلش ٹیم کے ناپ سے بنائی گئی تھیں۔

سرفراز اور ان کے لڑکے جشن مناتے ہیں۔

پوری ٹیم سجدہ ریز ہوجاتی ہے۔

لندن کی سڑکیں لاہور میں تبدیل ہوجاتی ہیں۔ جشن مناتے لڑکے کراچی میں سرفراز کے گھر کے باہر جمع ہوجاتے ہیں۔ ہندوستان بھر میں ٹی وی ٹوٹنے شروع ہوجاتے ہیں جبکہ رشی کپور کے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر بھی ہرا رنگ نظر آنے لگتا ہے۔

تقریباً ہر پاکستانی کھلاڑی جو انٹرویو کے لیے آتا ہے، اللہ کا شکر ادا کرتا ہے۔ ایسے جیسے پاکستان کو یقین ہو کہ انہیں خدا کی مدد حاصل رہی۔ جیسے کہ 11 کے بجائے 12 کھلاڑیوں کی ٹیم نے آج یہ میچ جیتا۔

چیمپیئنز۔ — رائٹرز۔
چیمپیئنز۔ — رائٹرز۔

انگلش میں پڑھیں۔


شان آغا بچپن سے ہی کھیلوں سے عقیدت کی حد تک دلچسپی رکھتے ہیں اس قدر کہ ’’دی کرکٹر’’ میگزین کے اوراق کو نہایت مقدس مانتے ہیں۔

ان سے فیس بک پر رابطہ کیا جا سکتا ہے: گیم آن


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔