'ہنہ جھیل' کا دل شکن نظارہ
بلند و بالا پہاڑوں میں گھری سیاحوں کی توجہ کا مرکز رہنے والی کوئٹہ کی تاریخی ’ہنہ جھیل‘ خشک ہوچکی ہے اور کئی ماہ سے بارش نہ ہونے کے باعث اس کی زمین پر دراڑیں پڑنے لگی ہیں۔
ماحولیاتی ماہر نیاز خان کاکڑ نے ڈان کو بتایا کہ ’بارش کے قدرتی نظام میں تبدیلی کے باعث جھیل کو خطرناک نقصان پہنچا‘۔
سندھ کے شہر جیکب آباد سے جھیل دیکھنے کے لیے آنے والی کم عمر طیبہ نے جھیل کے کنارے مردہ مچھلیوں کو دیکھ کر کہا، ’یہ بہت دل شکن نظارہ ہے، جس جھیل کے کنارے پر سیاح پانی سے اٹھکھیلیاں کرتے دکھائی دیتے تھے، اب اس کے کناروں پر مری ہوئی مچھلیاں پڑی ہیں'۔
گزشتہ جمعہ کا دن ’ہنہ جھیل‘ کے لیے قدرے پرسکون دن تھا، اُس دن جھیل کے ارد گرد ہلکی آواز میں پشتو موسیقی چل رہی تھی اور نوجوان سیاحوں بشمول خواتین کے ہنسنے کی آوازیں آرہی تھیں، جب کہ نوجوان سیاحوں نے دریا کے مرکز میں جمع ہوکر ڈھول کی تھاپ پر رقص بھی کیا۔
’ہنہ جھیل‘ کو انگریز دور میں 1894 میں پانی کی طلب کو برقرار رکھنے کے لیے تعمیر کیا گیا تھا، جس سے قدیم آبپاشی نظام کاریز اور زرعی مقاصد کے لیے ارد گرد کےعلاقوں کو پانی فراہم کیا جاتا تھا۔
اس وقت وہاں پر کوئی بھی ٹیوب ویل نظام موجود نہیں اور نہ ہی پینے کے پانی سمیت زرعی مقاصد کے لیے کوئی کھدائی کی جا رہی ہے۔

ہر سال موسم گرما میں بلوچستان سمیت ملک کے مختلف علاقوں سے سیکڑوں سیاح یہاں چھٹیاں گزارنے آتے ہیں۔
جیکب آباد سے ہی آنے والے ایک سیاح احسان اللہ نے بتایا کہ وہ گرمیوں میں یہاں کوئٹہ کی ٹھنڈی ہوا کا لطف لینے آتے ہیں۔
ایک وقت تھا جب سیاح بوٹس کے ذریعے جھیل کے دلکش ماحول کا نظارہ کرتے تھے، لیکن اب ایسا کچھ بھی نہیں۔
جھیل کے کنارے تین بوٹس کو کھڑا دیکھ کر سیاحوں کا ایک گروپ پریشان کھڑا تھا، کوئٹہ سے آنے والے محمد اجمل نے بتایا کہ گزشتہ برس وہ ایک بوٹ کے ذریعے جھیل کے مرکز تک گئے تھے، وہ اس بات پر پریشان ہیں کہ حکومت جھیل کی خوبصورتی کو بحال کرنے کے لیے اقدامات کیوں نہیں کر رہی؟
جھیل کی خوبصورتی اور ہواؤں کی وجہ سے یہاں 1980 سے ہر سال سائبریا سمیت دیگر جگہوں سے پرندے ہجرت کرکے یہاں آتے تھے، مگر پرندوں کے غیر قانونی شکار اور سیکیورٹی نہ ہونے کی وجہ سے اب ایسا کوئی معاملہ نہیں۔
مزید پڑھیں: کوئٹہ: ہنہ اوڑک جھیل کے رہائشی سہولیات سے محروم
ایک غیر سرکاری تنظیم ترقی فاؤنڈیشن (ٹی ایف) کے سربراہ امجد رشید نے بتایا کہ وہ دن گئے جب ہجرت کرنے والے پرندے جھیل پر آتے تھے، اب پہاڑوں کے دامن میں واقع جھیل خشک ہوچکی ہے، جہاں کئی جانور گھومتے رہتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں، ’یہ ستم ظریفی ہے کہ انگریزوں کی جانب سے بنائی گئی جھیل، مقامی حکومت کی عدم توجہی کے باعث خشک ہوئی‘۔
امجد رشید کے مطابق اگر جھیل پانی سے بھری ہو تو یہ علاقے کے لیے زرعی پانی کی ترسیل کو یقینی بناسکتی ہے، یہ کاریز سمیت خشک چشموں کو بھی بھر سکتی ہے۔
ماحولیاتی ماہر نیاز خان کاکڑ نے نشاندہی کرتے ہوئے بتایا کہ کوئٹہ اور شمالی و وسطی بلوچستان میں پانی کی شرح خطرناک حد تک کم ہوچکی ہے۔
ان کے مطابق ماہرین کا خیال ہے کہ علاقے میں بڑی تعداد میں پودے لگا کر بارش کا قدرتی نظام واپس لانے سمیت خشک سالی کو کم کیا جاسکتا ہے اور زیادہ سے زیادہ شجرکاری ہی خشک سالی کے خطرات کو کم کرسکتی ہے۔
ویڈیو دیکھیں: شدید سردی سے کوئٹہ کی ہنہ جھیل جم گئی
انہوں نے مزید بتایا کہ مقامی آبادیوں میں بھی شجرکاری سے متعلق شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔
ماہرین ماحولیات نے خبردار کیا ہے کہ بلوچستان کی آب ہوا میں تیزی سے ہوتی تبدیلیوں سے صوبہ قدرتی آفات کے خطرات کا شکار ہوسکتا ہے۔
ماہرین کوئٹہ کے لیے ایک خطرناک مستقبل کی پیش گوئی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ خشک سالی کے باعث بڑے پیمانے پر یہاں سے آبادی کی منتقلی ہوسکتی ہے۔
محکمہ جنگلات کے کوئٹہ سیکشن کے سربراہ نیاز خان کاکڑ کہتے ہیں کہ 2030 تک لوگ کوئٹہ سے دہشت گردی کی وجہ سے نہیں بلکہ پانی کی قلت اور خشک سالی کی وجہ سے ہجرت کریں گے۔
یہ رپورٹ یکم اگست 2017 کے ڈان اخبار میں شائع ہوئی












لائیو ٹی وی
تبصرے (1) بند ہیں