مصر کے دارالحکومت قاہرہ سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقع دنیا کے قدیم عجائبات میں سے ایک ’اہرامِ مصر‘ کی تعمیر ہر دور میں انسانوں کے لیے ایک معمہ ہی بنی رہی تاہم اس کی تعمیر کے حوالے سے ایک سوال کا جواب تلاش کرلیا گیا ہے۔

ان اہرامِ مصر کی تعمیر کے حوالے سے ایک سوال سب سے زیادہ ذہن میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ آج سے تقریباً 4 ہزار سال قبل ٹیکنالوجی کا نام و نشان نہ ہونے کے باوجود لاکھوں کی تعداد میں چونے کے پتھروں کو ان اہرام کی تعمیر کے لیے یہاں تک کیسے لایا گیا۔

آثارِ قدیمہ کے ماہرین کا خیال ہے کہ انہوں نے تاریخ کے حیرت میں ڈال دینے والے سوالوں میں سے ایک سوال ’اہرامِ مصر کیسے قائم کیا گیا‘، کا جواب تلاش کرلیا۔

مزید پڑھیں: پاکستان میں فروغ پاتی مقامی سیاحت

قاہرہ کے مضافاتی علاقوں میں کی گئی اس نئی تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ ان اہرام میں بادشاہ خوفو کا مقبرہ تعمیر کرنے کے لیے خصوصی کشتیاں بنائی گئی تھیں جو دور دراز کے علاقے سے 1 لاکھ 70 ہزار پتھروں کو لے کر مقبرے کی جگہ پہنچی تھیں۔

ماہرین یہ بات جانتے تھے کہ اہرامِ مصر کی تعمیر کے لیے چٹانوں کے پتھر گیزا سے 8 میل دور تورا کے مقام سے لائے گئے تھے جبکہ گرینائٹ کے پھتر 500 میل دور سے لائے گئے تھے، تاہم ماہرین ان پتھروں کو مقبروں کی جگہ تک پہنچانے کے طریقہ کار پر متفق نہیں تھے۔

آثارِ قدیمہ کے ماہرین کو گیزا کے اہرام کے اطراف میں کام کرتے ہوئے ایک پاپیریس کا مخطوطہ، ایک کشتی کی باقیات اور اہرام کے اطراف میں پانی کی گزرگاہیں ملی ہیں جن سے یہ پتہ چلتا ہے کہ قدیم مصریوں نے ان اہرام کی تعمیر کے لیے پتھر کس طرح دور دراز کے علاقے سے یہاں پہنچائے۔

یہ بھی پڑھیں: سعودی عرب میں خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت مل گئی

برطانوی نشریاتی ادارے چینل 4 کو ایک دستاویزی فلم ’مصر کے عظیم اہرام: نئی شہادت‘ کے لیے انٹرویو دیتے ہوئے آثارِ قدیمہ کے محقق پیئر ٹیل نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے پاپیریس کا مخطوطہ دردیافت کیا ہے۔

پیئر ٹیل کے مطابق یہ مخطوطہ کسی میرر نامی شخص کی جانب سے لکھا گیا ہے جو خود 40 ملاحوں کے سربراہ تھے جبکہ ان کا خیال ہے کہ ہزاروں کی تعداد میں مزدور دریائے نیل کے ساتھ بنے اس کینال کو اپنی گزرگاہ کے لیے استعمال کرتے تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں