قصور: کنگن پور پولیس نے کلس کے علاقے میں ایک مسجد کے خادم کو مبینہ طور پر گستاخی کے الزام میں گرفتار کرلیا۔

گرفتاری کے فورا بعد علاقہ مکینوں نے پولیس تھانے کے باہر احتجاجی مظاہرہ شروع کردیا اور مقامی افراد نے تھانے کا گھیراؤ کرکے پولیس سے ملزم کی حوالگی کا مطالبہ کیا۔

یہ بھی پڑھیں: سوشل میڈیا پر گستاخی،پہلی مرتبہ سزائے موت سنا دی گئی

پولیس کے مطابق مقامی باشندوں نے کلس کے علاقے کنگن پور میں جامعہ عربیہ کے حافظ ہارون رشید کو مسجد کے باہر کچھ جلاتے ہوئے پکڑا اور الزام عائد کیا کہ وہ قرآن کے صفحات جلا رہے تھے۔

مقامی شخص نے پولیس کو اطلاع دی جس نے انھیں پکڑ کر پولیس اسٹیشن منتقل کردیا۔

ڈان سے بات کرتے ہوئے پولیس کا کہنا تھا کہ مبینہ ملزم نے خود پر لگنے والے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ صرف ردی کے چند ٹکڑوں کو جلا رہا تھا اور انھوں نے کہا کہ بحیثیت مسلمان میں ایسا سوچ بھی نہیں سکتا جس کا الزام لگایا جا رہا ہے۔

پولیس کا کہنا تھا کہ وہ اس معاملے پر مقامی علما سے مذاکرات کررہی ہے۔

مقدمات درج

مصطفیٰ آباد پولیس نے ایک عالم سمیت چھ افراد کے خلاف ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کرلیا جن پر قصور میں داخلے پر پابندی عائد تھی۔

یاد رہے کہ ضلعی انتظامیہ نے سمتبر میں خادم حسین رضوی سمیت مختلف مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے 21 علما کے داخلے پر تین ماہ کے لیے پابندی عائد کردی تھی۔

مذہبی تنظیم کی جانب سے ہفتے کی رات کو خادم حسین رضوی سمیت 5 علما کی تقریروں کے لیے روڈ بلاک کر کے ٹینٹ لگا دیے گئے تھے تاہم مصطفیٰ آباد پولیس نے اطلاع ملنے پر کارروائی کرکے تقریب کو منسوخ کروا دی جبکہ امن و امان کی صورت حال خراب ہونے کے ڈر سے کسی بھی خطیب یا منتظم کو گرفتار نہیں کیا گیا۔

واضح رہے کہ ضلعی انتضامیہ نے مختلف فرقوں سے تعلق رکھنے والے 21 علما جن میں خادم حسین رضوی بھی شامل ہیں کی قصور شہر میں آمد پر پابندی لگا رکھی تھی۔

بعد ازاں پولیس نے خادم حسین رضوی سمیت چھ افراد خلاف تعزیرات پاکستان کی دفعہ 188 اور 341، پی پی او کی دفعہ 13 اور پنجاب ساؤنڈ سسٹم آرڈیننس کی دفعہ 6 کے تحت مقدمہ درج کرلیا۔


یہ خبر ڈان اخبار میں 23 اکتوبر 2017 کو شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں