آلودہ پانی کی تشخیص کا آلہ بنانے پر پاکستانی طلبہ کیلئےاعزاز

15 نومبر 2017
ٹیم ایک درجن طلبہ پر مشتمل ہے—فوٹو: آئی جی ای ایم پشاور فیس بک
ٹیم ایک درجن طلبہ پر مشتمل ہے—فوٹو: آئی جی ای ایم پشاور فیس بک

آلودہ پانی کی تشخیص کرنے والا آلہ تیار کرنے والے پاکستانی طلبہ کی ایک ٹیم کو عالمی تنظیم کی جانب سے چاندی کے تمغے سے نوازا گیا۔

صوبہ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاورکے انسٹی ٹیوٹ آف انٹیگریٹو بائیو سائنسز (آئی آئی بی) کے طلبہ کو امریکی شہر بوسٹن میں ہونے والے سالانہ انٹرنیشل جینیٹیکلی انجنیئرڈ مشینز(آئی جی ای ایم) کے فیسٹیول میں چاندی کا تمغہ دیا گیا۔

آئی آئی بی پشاور کی ’سیکوز یونیورسٹی آف انفارمیشن اینڈ ٹیکنالو اینڈ انجنیئرنگ سائنسز‘ کے تحت کام کرتا ہے۔

آئی جی ای ایم کے سالانہ فیسٹیول میں دنیا بھر کے نوجوان طلبہ شامل ہوتے ہیں، جنہیں ان کی تخلیقات پر ایوارڈز سے نوازا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا کا ’ہلٹ پرائز‘ پاکستانی طلبہ کے نام

پاکستانی ٹیم اس عالمی میلے میں دوسری بار شامل ہوئی، اور رواں برس اس میں شامل ہونے والی پشاور کی آئی جی ای ایم کی ٹیم کو چاندی کا تمغہ دیا گیا۔

پاکستانی طلبہ کی ٹیم نے ایک ایسی مصنوعی مچھلی تیار کی ہے، جو کسی بھی آلودہ پانی کی نشاندہی کرتی ہے، اسے ’رپورٹر مچھلی‘ کا نام دیا گیا ہے۔

اس مچھلی کو خصوصی طور پر ماہی گیروں کی مدد کے لیے تیار کیا گیا ہے، رپورٹر مچھلی دریا میں جانے کے بعد اس وقت اپنا رنگ تبدیل کردیتی ہے، جب وہ پانی میں آلودگی پاتی ہے۔

مزید پڑھیں: پاکستانی طلبہ عالمی روبوٹکس مقابلے کا حصہ

پاکستانی طلبہ کی ٹیم نے ایک ایسا ڈجیٹل سینسر بھی تیار کیا ہے، جس کے ذریعے ماہی گیروں کو کسی بھی دریا میں موجود پانی میں آرسینک یا دوسری آؒلودگی کی موجودگی کا پیغام بھیجا جاتا ہے۔

پاکستانی طلبہ کی ٹیم کو ان کی تخلیقات پر ’بیسٹ بائیو سیفٹی ایوارڈ 2017‘ دیا گیا۔

پاکستانی طلبہ کی ٹیم کو سیکوز یونیورسٹی اور خیبرپختونخوا کے ڈائریکٹوریٹ آف سائنس و ٹیکنالوجی کی مدد بھی حاصل رہی۔

پاکستانی ٹیم میں شامل طلبہ کا تعلق ملک کے مختلف شہروں سے ہے۔

ایوارڈ جیتنے والی ٹیم میں شامل طلبہ کا تعلق اسلام آباد، لاہور، پشاور، ملتان، خیبر ایجنسی، اٹک، صوابی، اٹک، مردان، چارسدہ اور نوشہرہ سے ہے۔

تبصرے (1) بند ہیں

fool n stupıd man Nov 15, 2017 09:37am
The astonishing fact is that we need a supervisor for award of PhD degrees but we do not need a supervisor for these students. Is it so? Where is supervisor of these students, who gave the idea and ...........and.............and ...........and? Why the supervisor is not eulogised as well?