Dawnnews Television Logo

16 دسمبر 2014: نہ رکتے ہیں آنسو، نہ تھمتے ہیں نالے

ڈان نے کوشش کی کہ 16 دسمبر 2014ء کے کچھ متاثرین اور اپنی آنکھوں سے یہ سب کچھ دیکھنے والوں سے بات کی جائے۔
اپ ڈیٹ 17 دسمبر 2021 10:16am

سانحے میں بچنے والے بچے تین سال بعد بھی ٹرامے سے نکل نہ سکے۔ تاریخ میں جب جب 16 دسمبر آئے گا، تب تب سانحہ آرمی پبلک اسکول (اے پی ایس) کے زخم ایسے ہی تازہ ہوں گے جیسے یہ کل کا ہی واقعہ ہے۔

دسمبر کا مہینہ اور پھر 16 دسمبر اُن والدین کے لئے قیامت صغریٰ سے کم نہیں جنہوں اِس المناک سانحہ میں اپنے جگر گوشوں کو ہمشہ ہمیشہ کے لیے کھو دیا۔ کہنے میں تو شاید یہ آسان ہے کہ اِس واقعہ میں 130 بچوں سمیت 135 افراد ہم سے جدا ہوئے، مگر اِن 135 گھرانوں میں جاکر دیکھیں تو سمجھ آتا ہے کہ جن جن گھرانوں میں اِس سانحہ کی وجہ سے ماتم ہوا وہاں اب بھی صورتحال کچھ مختلف نہیں۔

جہاں ایک جانب شہید ہونے والے جگر گوشوں کو یاد کرتے ہوئے والدین کے آنسو نہیں رکتے، وہیں اِس بے رحمانہ حملے میں معجزانہ طور پر بچ جانے والے بچے اب تک اپنے ساتھیوں کے چلے جانے پر رنج و غم کی تصویر بنے بیٹھے ہیں۔

16 دسمبر 2014ء کے بدترین واقعہ میں کیا کچھ ہوا؟ کیسے ہوا؟ اِن سوالوں کی تلاش میں ڈان نے کوشش کی کہ کچھ متاثرین اور اپنی آنکھوں سے یہ سب کچھ دیکھنے والوں سے بات کی جائے، اور اُن کے جذبات کو قارئین تک پہنچایا جائے۔ اِس حوالے سے کیا بات چیت ہوئی، آئیے آپ کی خدمت میں رکھتے ہیں۔


’شہیدوں کا باپ ہوں، میرا ایمان ہے کہ مجھے اِس کا اجر ضرور ملے گا‘

چہرہ افسردہ اور آنکھیں نم، یہ ہیں شہید شموئل اور ننگیال کے والد طارق، جو اِسی حملے میں بچ جانے والے اپنے تین بچوں سہیل، ساول اور طفیل کے لیے پریشان ہیں، جو اِس حملے کے ڈر کی وجہ سے اب ٹراما سے نہیں نکل سکے۔ طارق زرعی ادارے کے ملازم ہیں جن کے پانچ بچے اِس سانحے کے وقت اسکول میں موجود تھے۔ طارق اپنے بیٹوں شموئل اور ننگیال کی شہادت کو اللہ کی رضا سمجھ کر دل کو تسلی دیتے ہیں مگر بچنے والے تین زندہ بچوں کو دیکھ کر طارق آنسو روک نہیں پاتے۔

شہید شموئل اور ننگیال کے والد طارق اور ان کے چھوٹے بیٹے—تصویر علی اکبر
شہید شموئل اور ننگیال کے والد طارق اور ان کے چھوٹے بیٹے—تصویر علی اکبر

اِس واقعہ سے متعلق طارق کہتے ہیں کہ تین سال پہلے میں ڈیوٹی کے سلسلے میں چارسدہ میں تھا۔ مجھے کزن نے فون کیا کہ آرمی پبلک اسکول پر حملہ ہوا ہے، بس یہ سنتے ہی میں فوراً دفتر سے روانہ ہوگیا۔ میں راستے میں ہی تھا کہ مجھے بیٹے نے بتایا کہ ہم تین نکل آئے ہیں جبکہ دو کا پتہ نہیں، میرے لبوں پر دعا رواں تھی کہ بس تمام بچے سلامت ہوں، شموئل کو میں ببّر شیر کہتا تھا اور ننگیال کو شیر خان پکارتا تھا، مجھے یقین تھا کہ میرے بیٹے شیروں کی طرح دہشت گردوں کا سامنا کریں گے۔

مجھے طفیل نے فون پر بتایا کہ آپ سی ایم ایچ آجائیں، مجھ میں نہ جانے کیسے ایک عجیب حوصلہ پیدا ہوگیا تھا اور میں نے اپنے بیٹے پر زور ڈالا کہ مجھے بتاؤ کہ میرے بیٹے کس حال میں ہیں؟ جس پر اُس نے جواب دیا کہ آپ کے دو بیٹے شہید ہوچکے ہیں، میں ہسپتال پہنچا، وہاں اپنے شہید بیٹوں کے چہرے دیکھے، اُن کا ماتھا چوما اور اُنہیں شہادت کی مبارکباد دی۔

میں آج سوچ کر حیران ہوتا ہوں کہ اُس دن آخر مجھ میں اِس قدر حوصلہ کس طرح پیدا ہو گیا تھا؟ کیا میں اُس وقت پتھر بن گیا تھا کہ مجھے رونا نہیں آ رہا تھا؟ اب مجھے صرف یہ پریشانی تھی کہ میں اپنے بیٹوں کی ماں کو کیا بتاؤں گا؟ اُن کی بہنوں کو کیسے سمجھاؤں گا؟ میں اپنی گاڑی میں اپنے بیٹوں کو گھر لے آیا۔ اُس دن ہر عام آدمی رو رہا تھا، لیکن میری آنکھیں ایک بار بھی نم نہیں ہوئی تھی اور نہ ہی میرا حوصلہ ٹوٹا تھا۔ میں نے وہ دن کسی نارمل دن کی طرح گزارا۔

بس جب دیر رات کمرے میں بیٹھا تھا اور میرے ساتھ اور کوئی بھی نہیں تھا، تب میں نے خود سے پوچھا کہ آخر میرے ساتھ آج کیا ہوگیا؟ میرے ساتھ اتنا کچھ ہوگیا اور مجھے کچھ فرق ہی نہیں پڑا۔ کیا میں ایک پتھر کا بُت ہوں؟ بس یہ سوچتے ہوئے اچانک ہی میری آنکھوں سے آنسوں بہنا شروع ہوگئے، میں نے وضو کیا اور دو رکعت نماز ادا کی اور خدا سے دعا کی کہ اے اللہ مجھے صبر دے اور میرا حوصلہ بڑھا۔

لیکن اُس دن سے لے کر آج تک میں اندر ہی اندر بُری طرح ٹوٹتا رہا ہوں، شاید میں اُسی دن روتا پیٹتا تو بہتر تھا۔

اُس واقعے کے بعد ہم لوگوں کی ملاقات کور کمانڈر سے ہوئی، میں نے اُن سے پوچھا کہ آپ نے جو آپریشن اِس واقعے کے بعد شروع کیا ہے وہ آپ نے پہلے شروع کیوں نہیں کیا تھا؟ اُن کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔

پھر میں نے اُن سے پوچھا کہ تحفظ فراہم کرنا آپ کی ذمہ داری تھی آپ کیوں بچوں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہوئے؟

میں شہیدوں کا باپ ہوں، میرا ایمان ہے کہ مجھے اِس کا اجر ضرور ملے گا۔

اِس المناک واقعہ میں اگرچہ میرے دو بیٹے شہید ہوئے، لیکن بقیہ بیٹوں کے ذہنوں پر اِس واقعے نے گہرے نقش چھوڑے ہیں اور اُنہیں اِس قدر متاثر کیا ہے کہ وہ آج بھی نارمل نہیں ہوسکے۔ لوگ تو کہتے ہیں کہ میرے دو بیٹے شہید ہوئے لیکن دراصل میرے گیارہ بیٹے شہید ہوئے ہیں، میرے لیے وہ دو نہیں بلکہ ایک اور ایک گیارہ تھے۔

لوگ کہتے ہیں بچوں کے بچھڑنے کی سب سے زیادہ تکلیف ماں کو ہوتی ہے لیکن ماں تو رو لیتی ہے، جبکہ باپ رو بھی نہیں سکتا، نہ بیٹے کے ساتھ رو سکتا ہے اور نہ دوستوں کے ساتھ روسکتا ہے۔

میرے گھر کے قریب ایک شہید بچے کے والد رہتے ہیں، کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ اُن کے پاس جاکر تھوڑی باتیں کرکے اپنا دل ہلکا کرلوں، لیکن جب اُن کے گھر کے قریب پہنچتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ میں خود تو اِس کرب سے گزر رہا ہوں لیکن کسی دوسرے کے پاس جا کر کیوں اِس ہولناک حادثے کی یادیں کُریدوں، اُنہیں تکلیف میں مبتلا کیوں کروں۔

میرے ساتھ رونے والا کوئی نہیں۔

اب میں اپنے باقی بچوں کے لیے کافی پریشان ہوں، اُن کے ذہنوں میں اُس دن کی دہشت گھر کرچکی ہے۔ میں اپنے بچوں، خاص کر اپنے بیٹے کو کہتا ہوں کہ تم جاؤ اسکول پڑھو، بہادری دکھاؤ، لیکن زیادہ تر بچے اسکول جانا ہی نہیں چاہتے، لیکن میں اُن کی حالت بھی سمجھ سکتا ہوں، اور طفیل کے تو دوست اور ساتھی، سب کچھ اُس کے شہید بھائی تھے۔

شموئل اور ننگیال کے والد، طارق کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ نے مشعال خان واقعے پر تو سو موٹو ایکشن لے لیا، اور اب تک اِس کیس میں ملوث 53 افراد جیل میں بند کیے جا چکے ہیں، لیکن ہمارے بچوں کے ساتھ اُن کے اسکول میں دہشت گردوں نے بد سے بدتر سلوک کیا، وہ تو پڑھنے گئے تھے، کسی سے لڑنے تو نہیں گئے تھے، نہ کسی جنگ کے لیے گئے تھے۔

چیف جسٹس کا فرض ہے کہ وہ سوال کریں کہ اُن بچوں کے ساتھ ایسی ناانصافی کیوں ہوئی؟


شموئل اور ننگیال کے بڑے بھائی ’طفیل‘ کے خیالات

طفیل جو اب تک سانحے کے اثر سے نہیں نکل سکے، کہتے ہیں کہ ہم پانچ بھائی اُس دن اسکول میں تھے، شموئل اپنی کلاس میں تھا اور میں اپنی کلاس میں بیٹھا ہوا تھا۔ اسکول میں اعلان ہوا کہ تمام بچے ہال میں آجائیں، میرا چھوٹا بھائی ننگیال میرے پیچھے آیا اور کہا کہ میرے ساتھ ہال چلو، میں اُس کا دل رکھنے کے لیے اُسے ہال لے کر گیا اور اسے وہیں چھوڑ آیا، جس کا مجھے آج تک پچھتاوا ہے۔

میں اُسے وہاں چھوڑ کر اپنی کلاس پہنچا تو ایک دو فائر کی آواز آئی، ہم نے سوچا کہ فوجی اور ایف سی اہلکار ٹریننگ کر رہے ہیں، شاید تبھی فائرنگ کی آوازیں آ رہی ہیں۔

شموئل اور ننگیال کے بڑے بھائی طفیل—تصویر علی اکبر
شموئل اور ننگیال کے بڑے بھائی طفیل—تصویر علی اکبر

ہم آرام سے بیٹھ گئے، لیکن ایک بار پھر ایک دو فائر کی آوازیں آئیں اور اچانک شدید فائرنگ کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ کلاس کے باہر دیکھا تو ہال سے بچے بھاگ رہے تھے، کوئی کہہ رہا تھا کہ ممی کوئی کہہ رہا تھا پاپا، کچھ بچے کہہ رہے تھے وہ ہمیں کیوں مار رہے ہیں ہم نے کیا کیا ہے؟ ہم فوراً اپنی کلاس کی طرف دوڑے اور سر جُھکا کر بیٹھ گئے۔

ہم نے ایک زخمی بچے کو دیکھا جو نیچے گرا ہوا تھا، ہم جلدی سے اُس کے پاس گئے اور کلاس میں لے آئے۔ مجھے اپنے بھائی کا خیال آیا اور میں ہال کی طرف دوڑا، میں جیسے ہی ہال کے دروازے تک پہنچا تو کسی نے مجھے پیچھے سے پکڑا، شاید وہ چوکیدار تھا، اُس نے کالے رنگ کی یونیفارم پہنی ہوئی تھی، اور اُس کے پاس بندوق بھی تھی۔ اس نے کہا، یہاں کیا کر رہے ہوْ ہال میں وہ لوگ بچوں کو مار رہے ہیں۔ میں اُس وقت حواس باختہ تھا اور صرف اپنے بھائی کو بچانا چاہتا تھا، اُس نے مجھے زبردستی لائبریری میں بند کردیا۔

تھوڑی دیر بعد فوجی اہلکاروں کو اسکول میں آتے دیکھا اور شدید فائرنگ شروع ہوگئی۔ فوجی اہلکاروں نے ہمیں پیچھے کے دروازے سے نکال لیا، میرے دو بھائی ٹوڈلرز سیکشن میں تھے، میں دوبارہ اسکول کے اندر چلا گیا، میں اُنہیں بچانا چاہتا تھا، مجھے ڈر تھا کہ اُنہیں کچھ ہو نہ جائے۔ لیکن اُن کا اسکول پہلے ہی خالی کروایا جاچکا تھا، اور مجھے اپنے دو چھوٹے بھائی اسکول کے پارک میں ملے، لیکن شموئل اور ننگیال کا کچھ پتہ نہ تھا۔

ہم اسکول سے باہر آئے تو وہاں مجھے وہاں میرے چاچا اور تایا ملے، جو زبردستی ہمیں گھر لے گئے۔ چونکہ میرے امی ابو کی ڈیوٹی چارسدہ میں تھی اِس لیے وہ وہیں تھے۔

گھر جانے سے قبل میں پشاور کے کور کمانڈر کے پاس گیا جو اُس وقت ڈیفینس پارک میں تعینات تھے۔ میں نے اُن سے منت کی اور پاؤں پڑے کہ میرے بھائیوں اور میرے دوستوں کو کچھ نہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ بیٹا اُن لوگوں کے ساتھ مذاکرات چل رہے ہیں، اُنہوں نے بچوں کو یرغمال بنایا ہوا ہے، تم اپنے چاچا کے ساتھ گھر جاؤ اور دعا کرو۔

اسکول کے باہر کئی بچوں کے والدین آئے ہوئے تھے۔ ہم جیسے ہی گھر پہنچے تو میرے ایک دوست نے بتایا کہ تمہارے بڑے بھائی کو ٹی وی پر دیکھا ہے، وہ زخمی ہے اور لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں موجود ہے۔ میں گھبرا گیا تھا، مجھے گھر سے باہر نکلنے بھی نہیں دیا جا رہا تھا، لیکن میں موقع دیکھ کر ہسپتال کی طرف نکل گیا، میں نے دوست کو بتایا دیا تھا کہ اگر میرا کوئی پوچھے تو بتا دینا کہ میں ہسپتال میں ہوں۔

میں حواس باختہ تھا، ہسپتال پہنچا تو زخمیوں میں تلاش کرنے لگا، میں نے اُنہیں شہیدوں میں تلاش نہیں کیا، ہسپتال میں مجھے کمپیوٹر ٹیچر ملے، اُنہوں نے پوچھا کہ تم یہاں کیا کر رہے ہو تو میں نے بتایا کہ میرے بھائی لاپتہ ہیں، اور اُن کا کچھ پتہ نہیں چل رہا۔ انہوں نے کہا کہ زخمیوں میں تلاش کیا؟ میں نے کہا، جی سر، میرے بھائی وہاں نہیں ہیں۔ پھر انہوں نے پوچھا کہ لسٹ دیکھی؟ میں نے کہا جی سر، انہوں نے پوچھا کہ شہیدوں میں چیک کیا ہے؟ میرے لہجے میں سختی اُتر آئی تھی، میں نے کہا سر یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ میں اپنے بھائیوں کو شہیدوں میں کیسے تلاش کرسکتا ہوں؟ انہوں نے کہا کہ کیا پتہ اللہ تعالیٰ نے انہیں بُلند مقام عطا کیا ہو۔ اُنہوں نے میرا ہاتھ تھاما اور ہم نے ایک ایک کرکے شہیدوں کا چہرہ دیکھنا شروع کیا، لیکن وہاں بھی مجھے اپنے بھائی نہیں ملے۔ سر نے مجھے کہا تم سی ایم ایچ میں جاؤ، ہوسکتا ہے کہ تمہارے بھائی وہاں زخمیوں یا شہیدوں میں ہوں۔

شہر کے تمام راستے بند تھے، فوجی اہلکار ہسپتال میں کسی کو اندر جانے کی اجازت نہیں دے رہے تھے، لیکن چونکہ میں یونیفارم میں تھا اِس لیے مجھے جانے دیا۔ وہاں زخمیوں میں دیکھا، وہ دونوں نہیں ملے، پھر شہیدوں میں دیکھنا شروع، جس شہید کو دیکھتا وہ میرا دوست نکلتا، تیسرے شہید سے جیسے چادر ہی اُٹھائی تو میں نے اپنے چھوٹے بھائی ننگیال کا چہرہ دیکھا، میں اُس کا چہرہ دیکھ کر زمین پر گرگیا، اُٹھ کر اللہ سے دعا کی کہ میرا دوسرا بھائی سلامت ہو، دوسرے بھائی کو تلاش کرنے کی ہمت ہی نہیں بچی تھی، لیکن اپنے اندر حوصلہ پیدا کیا اور شہیدوں میں سب سے آخر میں مجھے اپنا دوسرا بھائی شموئل مل گیا، اُس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔

میں پریشان تھا کہ اب یہ اطلاع ابو تک کیسے پہنچاؤں؟ وہ تو اِس وقت ڈیوٹی سے آ رہے ہوں گے اور ڈرائیونگ کر رہے ہوں گے۔ مجھے ڈر تھا کہ اگر اُنہیں بھائیوں کی شہادت کی خبر دی تو کہیں وہ اپنے ہوش و حواس ہی نہ کھو بیٹھیں، لیکن وہاں موجود ایک دوست نے مجھے کہا کہ میں اپنے والد کو فون کرکے یہاں بلوا لوں، ایسا نہ ہو کہ کہیں وہ ناراض ہوجائے۔

میں نے ابو کو فون کیا اور اُنہیں کہا کہ آپ امی کو گھر چھوڑ کر سی ایم ایچ ہسپتال آجائیں۔ اُنہوں نے پوچھا کہ کیا ہوا ہے؟ میں نے کہا کہ ابو بس آجائیں۔ ابو نے کہا، نہیں مجھے بتاؤ، مجھ میں حوصلہ ہے۔ میں نے کہا ابو بس آپ آجائیں، یہ سُن کر ابو نے کہا مجھ میں حوصلہ ہے، اگر وہ زخمی ہیں تب بھی بتاؤ اور اگر شہید ہیں تب بھی۔ میں نے ابّو کو بتایا کہ ابّو آپ کے دو بیٹوں کو اللہ نے شہادت عطا کی ہے۔ ابّو نے انا اللہ وانا الیہ راجعون پڑھا اور فون بند کردیا، تھوڑی دیر بعد وہ ہسپتال آگئے۔ اگلی صبح ہم گاؤں چلے گئے تھے اور وہاں ہم نے اُن دونوں کا جنازہ ادا کیا۔

طفیل کہتے ہیں کہ مجھے اِس واقعے کے بعد سے اسکول سے نفرت سے ہوگئی ہے دل نہیں کرتا اسکول جانے کا، وہاں کی ہر چیز سے نفرت ہوگئی۔

میں 2014ء میں ساتویں جماعت میں تھا اور تین سال بعد بھی آج آٹھویں جماعت میں ہی ہوں۔ میرا اسکول جانے کا جی ہی نہیں چاہتا، مجھے کوفت ہوتی ہے اسکول کے نام سے، وہاں کی ہر چیز سے، ایک آدھ بار چلا جاتا ہوں، لیکن اکثر نہیں جاتا، اسکول سے فون بھی آتا ہے لیکن پھر بھی نہیں جاتا، میں نے اپنے بھائیوں کے ساتھ بڑے بڑے خواب دیکھے تھے کہ ہم فوج میں جائیں گے، کیپٹن بنیں گے لیکن اب مجھ میں کچھ کرنے کی ہمت ہی نہیں بچی۔

ایک بار جب اُسی ہال میں گیا، جہاں ننگیال کو چھوڑ آیا تھا تو میں پوری طرح سے حواس باختہ ہوگیا تھا، میں چیخنے چلانے لگا، مجھے ماہر نفسیات کو دکھایا گیا لیکن کوئی فائدہ نہیں، مجھے اب بھی یہ پچھتاوا ہے کہ میں نے اپنے بھائی کو اُس ہال میں کیوں چھوڑا۔


’ہم نے ایک بیٹا کھویا مگر اِس قوم کے لاکھوں بیٹے پالیے‘

عندلیب آرمی پبلک اسکول میں ٹیچر ہیں۔ کہتی ہیں کہ اِس سانحے کو ہضم کرنا آسان نہیں ہے۔ یہ سب فراموش کرنا عمارت کے در و دیوار کے لیے ممکن نہیں تو انسان تو پھر انسان ہے۔ عندلیب کا بیٹا حذیفہ جو دسویں جماعت کا طالب علم تھا، وہ بھی اِس افسوسناک واقعہ میں شہید ہوگیا تھا۔

عندلیب کہتی ہیں کہ جب تک ہمیں بچا نہیں لیا گیا تھا، تب تک ہمیں ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ بس اب موت آئی کھڑی ہے۔ اُس دن شام کو اسکول سے بچائے جانے کے بعد سے میری زندگی، میری سوچ، لوگوں کا ہم سے ملنے کا انداز، سب بدل گیا۔ ہم اپنے آپ کو اِس لائق نہیں سمجھتے جتنا کہ لوگوں کے دلوں میں اللہ نے ہمارے لیے عزت و محبت ڈال دی ہے۔ ہم نے ایک بیٹا کھویا مگر اِس قوم کے لاکھوں بیٹے پالیے۔

آرمی پبلک اسکول کی ٹیچر عندلیب اور فریم میں ان کے بیٹے حذیفہ کی تصویر—تصویر علی اکبر
آرمی پبلک اسکول کی ٹیچر عندلیب اور فریم میں ان کے بیٹے حذیفہ کی تصویر—تصویر علی اکبر

میرا بیٹا کھانے پینے کا بہت زیادہ شوقین تھا اور ہر روز اُس کی فرمائش پر کھانا پکتا تھا، مگر اب ہمارے گھر میں کوئی فرمائش نہیں کرتا، کیوں کہ ہمارے بچے یہی سوچتے ہیں کہ اُن کی کسی فرمائش سے ہمارا دل نہ دکھ جائے۔ ہمارے دلوں پر چوٹ ہے اور اُس کا مرہم اللہ ہی دے سکتا ہے۔ ہم نے اپنے بچے کا اسکول اِس واقعے کے بعد سے تبدیل کروا دیا ہے کیوں کہ ہم یہ نہیں چاہتے تھے کہ اُسے رحم کی نگاہ سے دیکھا جائے اور اُس کی غلطیوں سے صرف اس لیے صرفِ نظر کیا جائے کیوں کہ وہ شہید کا بچہ ہے۔ اِس لیے اُسے عام بچوں کی ڈگر پر چلانے کے لیے ہم نے اُس کا اسکول تبدیل کروا دیا ہے۔

مجھے آج بھی یاد ہے کہ میں نے اُس دن دسویں جماعت کے ایک بچے سائبان کو ڈانٹا تھا جب اُس کا کام مکمل نہیں تھا۔ اُس بچے نے ڈانٹ کے جواب میں صرف اتنا کہا تھا کہ ’مس اب تو ہمیں نہ ڈانٹیں، اب تو ہم اسکول سے جانے والے ہیں۔‘ دوسرے بچے، اسامہ ظفر کو میں نے کام مکمل نہ ہونے پر سزا کے طور پر ہلکی سی تھپکی دی اور اُس سے کہا کہ تم جیکٹ بھی سزا سے بچنے کے لیے پہن کر آئے ہو؟ اُس کی جوابی مسکراہٹ پر مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے کہہ رہا ہو کہ ’مس ابھی تو اِس جیکٹ میں، میں نے بہت سی گولیاں کھانی ہیں۔

ہر سال ہماری زندگیوں میں دسمبر کس طرح آتا ہے یہ صرف ہم جانتے ہیں—تصویر علی اکبر
ہر سال ہماری زندگیوں میں دسمبر کس طرح آتا ہے یہ صرف ہم جانتے ہیں—تصویر علی اکبر

میرا اب بھی اُس کلاس روم میں روز جانا ہوتا ہے۔ وہاں پر حذیفہ نے ایک کرسی پر اپنا نام کھود کر لکھا تھا۔ وہ نام ایک عرصے تک میرے لیے ذہنی اذیت کا باعث بنتا رہا جس کے بعد میں نے انتظامیہ سے شکایت کی اور اُنہوں نے پورے اسکول کے فرنیچر اور دوسری اشیاء کو تبدیل کروایا کہ نجانے کس چیز پر کس کی یاد کندہ ہو۔

اِس واقعے نے ہم سب کو نفسیاتی مریض بنا دیا۔ بچوں پر بھی شدید ذہنی دباؤ پڑا، اساتذہ کو بھی صبح کلاسز اور شام کو ماہرِ نفسیات کے پاس جانا پڑتا اور والدین کی بھی یہی حالت تھی۔ اِس واقعے کو ہضم کرنا، اِس سے نکلنا، نہ آسان تھا اور نہ آسان ہے۔ صرف انسانوں کے لیے نہیں بلکہ شاید اسکول کے کسی در و دیوار کے لیے بھی اِس سانحے سے آگے بڑھ جانا ممکن نہیں ہے۔ ہر سال ہماری زندگیوں میں دسمبر کس طرح آتا ہے یہ صرف ہم جانتے ہیں۔ ہم کیسے اِس واقعے کو اپنے ذہنوں سے کھرچ کر نکال دیں جب ہمیں اِن بادلوں کی گرج بھی فائرنگ کی آواز جیسی محسوس ہوتی ہے؟

اِس وقت اسکول اور کالج میں موجود بچے اب یونیورسٹیوں میں پہنچ رہے ہیں مگر وہ جہاں بھی جاتے ہیں اُن پر ایک چھاپ ہے کہ وہ آرمی پبلک اسکول وارسک روڈ کے طلباء ہیں۔ کہیں کہیں ہمیں اِس پر بہت ترجیحی سلوک بھی ملتا ہے، انتظار گاہ میں انتظار نہیں کرنا پڑتا، لوگ ہمارے لیے زیادہ سوچتے ہیں، اللہ اُن سب کو عزت دے جو ہمیں عزت دیتے ہیں۔


حملے میں بچ جانے والے منیب

جب حملہ ہوا تو منیب دسویں کلاس کے طالب علم تھے، اگرچہ وہ تو بچ مگر منیب کا بھائی شہیر حملے شہید ہوگئے تھے۔ منیب کہتے ہیں کہ بچوں کا فائرنگ سے کیا واسطہ؟ جب حملہ ہوا تو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اسکول میں ایسے کیسے ہوسکتا ہے؟ پھر اچانک وہ بے ہوش ہوکر گرگئے اور جب خوش آیا تو معلوم ہوا کہ بھائی سمیت کئی دوست ہمیں یہاں اکیلا چھوڑ کر دنیا ہی چھوڑ گئے۔ اِس واقعہ کی وجہ سے منیب بھی نفسیاتی مسائل کے شکار رہے لیکن اب نکلنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔ کہتے ہیں کہ وہ سافٹ وئیر گیم بنا رہے ہیں جو ٹرامے سے نکلنے میں مددگار ثابت ہوگا۔

حملے میں بچ جانے والے منیب—تصویر علی اکبر
حملے میں بچ جانے والے منیب—تصویر علی اکبر

’شدید تکلیف میں بھی بچوں کی ہمت مثالی تھی‘

اِس بات سے شاید ہی کوئی انکار کرسکے کہ آرمی پبلک اسکول میں دہشت گردوں کے حملے کے بعد لیڈی ریڈنگ اسپتال کے ڈاکٹرز اور نرسز نے جو خدمات انجام دی وہ بھی مثالی تھے۔ سلسیا جو پیشے کے اعتبار سے تجربہ کار نرس ہیں، کہتی ہیں کہ 16 دسمبر کو ہی اُن کا تبادلہ حیات آباد میڈیکل کملیکس سے لیڈی ریڈنگ ہسپتال ہوا تھا۔ وہ جیسے ہی یہاں ڈیوٹی دینے پہنچی تو اچانک ایمرجنسی کی اطلاع موصول ہوئی اور تمام ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف تیاری میں لگ گئے۔

لیڈی ریڈنگ ہسپتال کی نرس سلسیا—تصویر علی اکبر
لیڈی ریڈنگ ہسپتال کی نرس سلسیا—تصویر علی اکبر

سلسیا کہتی ہیں کہ ایمرجنسی کے واقعات تو پہلے بھی دیکھے تھے لیکن یہ عجیب واقعہ تھا، کسی بھی واقعہ میں زخمی اور شہید ہونے والے بچوں کی اتنی بڑی تعداد کبھی نہیں دیکھی تھی۔ بچوں کے جوتوں پر گولیاں لگی ہوئی تھیں جبکہ وہ پورے کے پورے خون میں لت پت تھے، صورتحال یہ تھی کہ ہسپتال کا پورا اسٹاف رو رو کر کام کررہا تھا تھے۔ لیکن وہ کہتی ہیں شدید تکلیف میں مبتلا بچوں کی ہمت مثالی تھی۔ ہر بچہ کہتا تھا مجھے چھوڑو میرے ساتھی کو دیکھ لو کیونکہ اُس کو زیادہ ضرورت ہے۔


نوٹ: یہ تحریر ابتدائی طور پر 16 دسمبر 2017 کو شائع ہوئی تھی