’انشاء جی اٹھو اب کوچ کرو‘
ابن انشاء ایک بہترین شاعر، سفارتکار، مصنف اور مارکسسٹ تھے۔ تاہم ان کی وجہ شہرت ان کی نظمیں ہیں جو باقاعدگی سے ادبی جریدوں میں شائع ہوتی تھیں۔
ابن انشاء 1927 کو ہندوستان کے شہر جالندھر میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام شیر محمد خان تھا۔
ابن انشاء کے طنزیہ و فکاہیہ سے بھرپور نثر، خطوط اور شاعرانہ کلاموں میں ابن بطوطہ کے تعاقب میں، دنیا گول ہے، سمیت چلتے ہو تو چین کو چلیے، بلو کا بستہ اور چاند نگر بے حد مقبول ہوئے۔
ریڈیو پاکستان سمیت کئی سرکاری اداروں سے وابستہ رہنے کے ساتھ ساتھ ابن انشاء نے کچھ عرصہ اقوام متحدہ میں پاکستان کی نمائندگی بھی کی۔
ابن انشا کی تحریروں کی نمایاں خصوصیات طنز و مزاح، پیروڈی کا انداز، وسعت معلومات، سیاسی بصیرت، غیر ملکی زبانوں سے استفادہ اور صورت واقعہ سے مزید کشید کرنا بطور خاص قابل ذکر عناصر ہیں۔
1970 کی دہائی کے شروع میں انہوں نے ایک نظم لکھی جس نے انہیں عروج پر پہنچا دیا اور یہ تھی "انشاءجی اٹھو اب کوچ کرو"۔
یہ نظم ایک افسردہ شخص کے بارے میں تھی جس نے ایک رات کسی محفل (ممکنہ طور پر قحبہ خانے) میں گزاری اور پھر نہ صرف اس جگہ سے، بلکہ شہر سے بھی اچانک جانے کا فیصلہ کر لیا۔
اپنے آخری وقت میں ابن انشاء نے اس غزل کو منحوس کہا تھا، کیوں کہ اسے پڑھنے والے امانت علی خان صرف 52 سال کی عمر میں اچانک انتقال کرگئے تھے۔
بہادر انسان ابن انشا بیماری سے طویل عرصہ لڑنے کے بعد گیارہ جنوری انیس سو اٹھہتر کو پچاس برس کی عمر میں انتقال کرگئے۔ مگر اردو ادب کے افق پر ایسے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں جو رہتی دنیا تک لوگوں کو ان کی یاد دلاتے رہیں گے۔











لائیو ٹی وی
تبصرے (1) بند ہیں