سیکیورٹی کی انگلی
کہتے ہیں کہ ایک صاحب ڈاکٹر کے پاس آئے تو درد کے مارے بے حال تھے، کہنے لگے کہ ڈاکٹر صاحب سارا بدن پھوڑے کی طرح دکھ رہا ہے جہاں انگلی رکھتا ہوں وہاں سے ایسی ٹیس اٹھتی ہے کہ الامان۔
ڈاکٹر نے چیک اپ کرنا شروع کیا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ اس کا سارا بدن ٹھیک ٹھاک تھا۔ اچانک کوئی خیال آنے پر ڈاکٹر صاحب نے اس مریض کی انگلی چیک کرنے کو تھامی تو مریض نے چیخ چیخ کرسارا ہسپتال سر پر اٹھا لیا۔ تھوڑی بہت مزید تفتیش کے بعد یہ بات معلوم کر لی گئی کے مسئلہ سارے بدن میں نہیں فریکچر صاحب کی انگلی میں تھا۔
وفاقی وزیر داخلہ نے گزشتہ دنوں بولان میڈیکل کمپلیکس اور سردار بہادر خان یونیورسٹی پر حملے کے بعد جب اسمبلی میں یہ معصومانہ سوال پوچھا تھا کہ جب کوئٹہ کے چپے چپے پر ایف سی کی چیک پوسٹیں موجود ہیں تو پھر یہ دہشت گردی کی وارداتیں کیسے ہو جاتی ہیں تو مجھے لگا کے چوہدری نثار صاحب کو یہ کہانی سنانی چاہیے تاکہ انہیں معلوم ہو سکے کہ علمدار روڈ ، ہزارہ ٹاؤن اور کوئٹہ کی دیگر شیعہ آبادیوں میں اٹھنے والی درد کی لہروں کا سبب جاننے کے لیے تفتیش کی ایکسرے مشین سے خروٹ آباد، سریاب روڈ، فیض آباد اور اختر آباد جیسے ہاتھوں کو ضرور گزارنا چاہیے لیکن ساتھ ساتھ اگر ایف سی کی انگلی کو بھی چیک کر لیا جایے تو شاید ان کی حیرانی کا ازالہ ہو سکے۔
یوں تو پاکستان کا کوئی بھی گوشہ اب شیعہ فرقے کے مردوں، عورتوں، بوڑھوں یا بچوں کے لیے محفوظ نہیں رہا لیکن بلوچستان میں بلوچ علیحدگی پسندوں کے خلاف جاری فوجی آپریشن اور بلوچستان کے ہمسایہ میں جاری افغان جنگ کے پس منظر میں کوئٹہ کی شیعہ آبادی پر ہونے والے حملوں کو باقی حملوں سے علیحدہ دیکھنا اور سمجھنا ضروری ہے۔
لیکن اس علیحدہ دیکھنے سے مراد وہ علیحدگی نہیں ہے جو ہمارا شرمیلا میڈیا ان حملوں کو ہزارہ برادری پر حملے قرار دے کر قائم کرتا ہے۔ پاکستان کا الیکٹرونک میڈیا جس رواج کے تحت فوج کا ذکر آنے پر ”قومی سلامتی کے اداروں” کا گھونگٹ نکال لیتا ہے اسی رواج کے تحت وہ ہزارہ برادری کے گھونگٹ میں ان حملوں کی مذہبی نوعیت کو چھپانے کی کوشش کرتا ہے۔
اس بات سے اختلاف ممکن نہیں کہ ان حملوں میں مرنے والوں کی ایک بڑی تعداد ہزارہ برادری سے تعلق رکھتی ہے لیکن کوئٹہ میں دو ہزار آٹھ سے دو ہزار بارہ کے درمیان شیعہ نسل کشی یا شیعہ فرقے کے قتل عام میں مارے جانے والے غیر ہزارہ شیعہ لوگوں کی تعداد ہزارہ برادری کے شیعہ افراد سے کم نہیں بلکہ ایک اخباری رپورٹ کے مطابق اس عرصے میں مارے جانے والے شیعہ افراد میں پچاس فیصد سے زیادہ ہزارہ نہیں تھے۔
دوسری طرف کوئٹہ میں موجود ہزارہ برادری کے وہ لوگ جو شیعہ مسلک سے تعلق نہیں رکھتے اگرچہ تعداد میں کم لیکن مکمل طور پر اس قتل و غارت سے محفوظ ہیں۔ (خدا انہیں آئندہ بھی محفوظ رکھے)
مذہب کی بنیاد پر ہونے والے اس قتل عام کو ٹی وی اور دیگر میڈیا پر قومیت کا رنگ دینا بلوچستان سے لاعلم ایک اوسط دیکھنے والے کے ذہن میں یہ ابہام پیدا کرتا ہے کہ اس قتل و غارت کی بنیاد نسلی ہے.
نتیجہ یہ کہ میرے کئی دوست جو دنیا کو صرف ٹی وی یا اخبار کی آنکھ سے دیکھنے کے عادی ہیں مجھ سے پوچھ چکے ہیں کہ بلوچ قوم پرست ان ہزارہ لوگوں کو بلوچستان سے کیوں نکالنا چاہتے ہیں۔
ایک آدھ بار مجھے اپنی شاگردوں سے یہ بھی سننا پڑا کہ آپ غلط کہہ رہے ہیں کہ کوئٹہ میں شیعوں پر حملہ ہوا ہے میں نے خود سنا ہے کہ ہزارہ لوگوں پر حملہ ہوا ہے۔ امید ہے کہ یہ بلاگ پڑھنے والے جانتے ہوں گےکہ پاکستان میں سیاسی خواندگی کی شرح وہاں وہاں بہت کم ہے جہاں جہاں عام شرحِ خواندگی بہتر ہے۔
مسلک کی بنیاد پر ہونے والے ان حملوں کو انہی بنیادوں پر باقی حملوں سے علیحدہ سمجھنا اس لیے بھی اہم ہے کہ یہ حملے ایک ایسے صوبے میں ہو رہے ہیں جہاں فوج قوم پرست اور علیحدگی پسند بلوچوں کے خلاف نہ صرف ایک بے نام آپریشن کر رہی ہے بلکہ اس نے بلوچستان میں بنگال کی یاد تازہ کرتے ہوئے ایف سی کی پشت پناہی میں مسلح مذہبی جتھے بنائے ہیں۔
ان نئے جتھوں کے قیام کے علاوہ بلوچستان، افغانستان میں جاری کھیل میں پاکستانی کھلاڑیوں کے ڈریسنگ روم کے طور پر بھی استعمال ہو رہا ہے۔ اور ابھی تک یہی دکھائی دیتا ہے کہ پاکستانی فوج نے تیس سال میں ہزاروں شہریوں کے مرنے کے باوجود 'سٹریٹیجک ڈیپتھ' کے بے وردی رکھوالوں کی پشت پناہی نہیں چھوڑی۔
امریکہ کے جانے اور کھیل میں ان کے کھل کھیلنے کے دن نزدیک آنے کے ساتھ ساتھ انہیں پلٹنے جھپٹنے کی تربیت اور لہو گرم رکھنے کے لیے ایمونیشن تو پناہ دینے والے دیتے ہی ہیں لیکن نشانہ لگانے کو نشانہ بھی تو چاہیے!
پاکستان میں فوج کی طرف سے مسلح مذہبی جتھوں کے قیام ان کی پرورش اور اپنے وسیع تر مفاد، جسے فوج قوم کا وسیع تر مفاد کہتی ہے، میں ان کے استعمال کی ایک سیاہ تاریخ ہے۔
اس تاریخی سیاہی یا تاریکی اور سیاہی میں یہ سوال اٹھانا کہ ایف سی کی موجودگی میں یہ حملے کیسے ہو جاتے ہیں کچھ بہت عجیب نہیں؟ سواۓ اس کے کہ جن صاحب نے یہ سوال اٹھایا ہے، ان سے لوگ اس سوال سے زیادہ اس کے جواب کی توقع رکھتے ہیں۔
لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس سوال کا جواب ملنا مشکل ہے کیونکہ میں نے اس بلاگ کے آغاز میں جو قصہ سنایا تھا اس میں ڈاکٹر نے مریض کی انگلی تھامی تھی تو مریض چیخ پڑا تھا لیکن پاکستان میں جو فوج کا ہاتھ پکڑنے کی کوشش کرتا ہے اسی کی چیخیں سننے کو ملتی ہیں اور وہ بھی قومی سلامتی کے ساؤنڈ پروف کمرے میں۔
شاعری اور تھیٹر کو اپنی ذات کا حصّہ سمجھنے والے سلمان حیدر راولپنڈی کی ایک یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں












لائیو ٹی وی