ون بیلٹ ون روڈ : 21ویں صدی کا سب سے بڑا منصوبہ؟

پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے (سی-پیک) پر کام بہت تیزی سے جاری ہے، ساتھ ہی ساتھ یہ توقع بھی کی جا رہی ہے کہ اس کے نتیجے میں معاشی انقلاب برپا ہو سکتا ہے۔

سی پیک کے حوالے سے پاکستانی جہاں بہت امیدیں وابستہ کیے ہوئے ہیں، وہیں کئی عالمی طاقتوں سمیت ہندوستان بھی اس کے خلاف سرگرم نظر آتا ہے.

مزید پڑھیں : پاک چین اقتصادی راہداری کا ماسٹر پلان کیا ہے؟

پاکستان کی نظر میں چاہے یہ کتنا ہی بڑا منصوبہ کیوں نہ ہو مگر چین کی منصوبہ بندی میں یہ بہت چھوٹا پروجیکٹ کہا جا سکتا ہے، کیونکہ وہ تو پوری دنیا کو اپنی معاشی سرگرمیوں کا مرکز بنانے کا خواہش مند ہے۔

چین اس وقت رواں صدی کے سب سے بڑے منصوبے پر کام کر رہا ہے، جس کے تحت ایشیا، افریقہ، یورپ سمیت دنیا کے 70 ممالک کو وہ ریل کے نظام، بحری اور زمینی راستوں سے جوڑ دینا چاہتا ہے۔

ایک پٹی اور ایک شاہراہ (One Belt, One Road) نامی اس منصوبے میں زیادہ توجہ انفراسٹرکچر، ٹرانسپورٹیشن اور توانائی پر دی جارہی ہے، چین اسے 2049 تک مکمل کرنے کے لیے پرامید ہے۔

پاکستان کے علاوہ کئی ممالک اس کا حصہ بن چکے ہیں، جن میں روس، نیوزی لینڈ، فن لینڈ، برطانیہ اور سمیت دیگر شامل ہیں، یہ سب ممالک مل کر دنیا کے جی ڈی پی کا ایک تہائی حصہ رکھتے ہیں۔

One Belt, One Road

ون بیلٹ، ون روڈ بنیادی طور پر 2 حصوں پر مشتمل ہے، جن میں سے ایک پرانی شاہراہ ریشم کے زمینی راستے کو دوبارہ بنانا ہے جبکہ روڈ ، درحقیقت کوئی شاہراہ نہیں بلکہ یہ متعدد سمندری راستوں کا ایک روٹ ہے۔

چائنہ ڈیولپمنٹ بینک نے گزشتہ سال کی تیسری سہ ماہی کے دوران بتایا تھا کہ اب تک اس پٹی اور شاہراہ کی تشکیل کے لیے 900 منصوبوں کا افتتاح ہوچکا ہے، جن کی لاگت 900 ارب ڈالر (900 کھرب روپے) ہے۔

شاہراہ ریشم ایسا قدیم زمینی راستہ تھا جو کہ یورپ و ایشیا کے تاجروں اور سیاحوں کو چین، ایران اور رومن سلطنت سے جوڑتا تھا، تاجر اس راستے سے ریشم اور دیگر اجناس کو اونٹوں یا گھوڑوں پر لاد کر ایک سے دوسرے ملک تک لے جاتے تھے۔

چین نے اب جو نئی شاہراہ ریشم کا منصوبہ بنایا ہے، وہ کئی اقتصادی راہداریوں اور ایک ’بحری شاہراہ ریشم‘ پر مشتمل ہے، جبکہ اس سے ہٹ کر گیس پائپ لائن، آئل پائپ لائن، ریل روڈ اور دیگر منصوبے بھی اس کا حصہ ہیں۔

1۔ یورایشین لینڈ برج

مشرقی چین سے قازقستان کے راستے مغربی روس کے درمیان ریلوے پٹری کا بھی ایک منصوبہ ہے، جس میں نیا یورایشین لینڈ برج شامل ہے، جو کہ چین سے مشرقی ایشیا اور یورپ کے درمیان ٹرینوں کی آمدورفت کے لیے تیار کیا جارہا ہے۔

چین کے ذرائع ابلاغ کے مطابق بیجنگ اس منصوبے کو صوبہ جیانگ-سو سے نیدر لینڈ تک توسیع دینے کا خواہشمند ہے، یہ فاصلہ 7 ہزار 380 میل ہوگا۔

اس منصوبے کی تکمیل کے بعد چین کی جانب سے مال برادر ٹرینیں اس لینڈ برج سے گزرتے ہوئے بحیرہ کیپسین کے شمال سے گزر کر روس جائیں گی، جبکہ ترکی اور بلغاریہ کو بھی متبادل روٹ کے طور پر تجویز کیا گیا ہے، تاہم ایسا کرنے پر ایران کو بھی اس منصوبے کا حصہ بنانا لازمی ہوگا۔

اے ایف پی فائل فوٹو
اے ایف پی فائل فوٹو

2۔ چین۔ منگولیا۔ روس

چین۔ منگولیا۔ روس راہداری، یہ شمالی چین سے مشرقی روس کے درمیان شاہراہ کا منصوبہ ہے اور روس کے وزیر ٹرانسپورٹ میکسم سوکولوف کے مطابق اس راہداری کو رواں برس کھول دیا جائے گا۔

چین اس منصوبے کے تحت اپنے تجارتی سامان کی برآمد کے دورانیے کو کم کرنےکے ساتھ ساتھ منگولیا کے قدرتی وسائل کے لیے سمندری اور زمینی نئے راستوں کو قائم کرنا چاہتا ہے، جبکہ اس راہداری سے چین کو اپنا سامان منگولیا کے راستے روس کی بندرگاہوں تک کم وقت میں پہنچانے میں مدد ملے گی۔

اے ایف پی فائل فوٹو
اے ایف پی فائل فوٹو

3۔ چین، وسطی ایشیا۔ مغربی ایشیا راہداری

چین، وسطی ایشیا۔ مغربی ایشیا نامی راہداری کا آغاز چین کی ریاست سنکیانگ سے ہوگا، جو وسطی ایشیا اور مغربی ایشیا کے درمیان ریلوے نیٹ ورک قائم کرکے بحیرہ روم اور عرب ممالک تک جائے گی۔ اس راہداری میں وسطی ایشیا کے 5 ممالک قازقستان، کرغزستان، تاجکستان، ازبکستان اور ترکمانستان کے ساتھ ساتھ مغربی ایشیا میں ایران اور ترکی شامل ہوں گے۔

اے ایف پی فائل فوٹو
اے ایف پی فائل فوٹو

4۔ چین، انڈوچائنہ پینینسولا راہداری

چین، انڈوچائنا پینینسولا راہداری کا اعلان 2014 کو بینکاک میں ایک کانفرنس کے دوران کرتے ہوئے چینی وزیراعظم نے اس خطے کے 5 ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید بہتر بنانے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔

اس راہداری کے تحت کمبوڈیا، لاﺅس، ویت نام، تھائی لینڈ اور سنگاپور کے درمیان ٹرانسپورٹ نیٹ ورک، صنعتی پراجیکٹس، سماجی معاشی ترقی وغیرہ کو فروغ دیا جائے گا، اسی طرح دریائے میکانگ (اس پورے خطے میں بہنے والا دریا) میں 9 بڑی شاہراہیں تعمیر کرکے اس خطے کے تمام کونوں کو ایک دوسرے سے جوڑا جائے گا، اس منصوبے کے تحت چین سے ویت نام تک ریلوے لائن کا پراجیکٹ مکمل کیا جاچکا ہے۔

اے ایف پی فائل فوٹو
اے ایف پی فائل فوٹو

5۔ چین۔ میانمار۔ بنگلہ دیش۔ بھارت راہداری

چین۔ میانمار۔ بنگلہ دیش۔ بھارت راہداری کا منصوبہ 2013 میں چین اور بھارت نے مشترکہ طور پر تجویز کیا تھا، جس کے لیے پہلے جوائنٹ ورکنگ گروپ تشکیل دیا گیا، جس نے اقتصادی راہداری میں چاروں ممالک کے درمیان تعاون اور میکنزم کی شرائط طے کیں جبکہ اس راہداری کے تحت انفراسٹرکچر، سرمایہ کاری اور دیگر منصوبوں کی تجویز بھی دی گئی۔ ابھی فی الحال یہ راہداری تحقیقی مرحلے سے گزر رہی ہے جس کے بعد اس پر عملی کام شروع ہوگا۔

میانمار کے علاقے راکھائن میں گیس پائپ لائن پر کام ہورہا ہے—اے ایف پی فوٹو
میانمار کے علاقے راکھائن میں گیس پائپ لائن پر کام ہورہا ہے—اے ایف پی فوٹو

6۔ پاک چین اقتصادی راہداری

جیسا سب کو معلوم ہے یا یوں کہہ لیں کہ پاکستان میں تو ہر ایک ہی اس منصوبے کے بارے میں جانتا ہے جس کا مقصد چین کی ریاست سنکیانگ سے گودار بندرگاہ، ریلوے اور موٹروے کے ذریعے تجارتی سامان کی کم وقت میں ترسیل کرنا ہے۔

یہ بھی پڑھیں : اقتصادی راہداری منصوبہ: چین کی دلچسپی کیوں؟

یہ اقتصادی راہداری 2442 کلومیٹر طویل ہوگی اور اس کی ابتدائی لاگت تو 46 ارب ڈالرز لگائی گئی تھی مگر اب یہ 60 ارب ڈالرز سے تجاوز کرچکی ہے۔

اے ایف پی فائل فوٹو
اے ایف پی فائل فوٹو

7۔ بحری شاہراہ ریشم

بحری شاہراہ ریشم، چینی ساحلی علاقے سے سنگاپور کے راستے بحیرہ روم تک پھیلی ہوگی۔

یہ چین کا بہت بڑا منصوبہ ہے جسے 21ویں کی بحری شاہراہ ریشم بھی کہا جاتا ہے۔

اس منصوبے میں بیجنگ جنوب مشرقی ایشیا، اوشیانا اور شمالی افریقہ سے شراکت داری قائم کرکے دنیا کے مختلف بحری خطوں پر مبنی ایک تجارتی سمندری راستہ تشکیل دینا چاہتا ہے، جس میں گودار کا بھی اہم کردار ہوگا۔

چین کی بحری شاہراہ ریشم میں گوادر کی بہت زیادہ اہمیت ہے — اے ایف پی فائل فوٹو
چین کی بحری شاہراہ ریشم میں گوادر کی بہت زیادہ اہمیت ہے — اے ایف پی فائل فوٹو

ایک پٹی، ایک شاہراہ کے بڑے تجارتی منصوبے کا مقصد چین کو معاشی اور طبعی طور پر ایشیا، یورپ، افریقہ کے درجنوں ممالک سے ملانا ہے، بظاہر بھارت اس کے نقشے میں موجود نہیں مگر کچھ منصوبوں میں اسے شامل کیا گیا ہے۔

اے ایف پی فائل فوٹو
اے ایف پی فائل فوٹو

چین کی جانب سے اب تک ان منصوبوں پر زیادہ تر سرمایہ کاری انفراسٹرکچر، ٹرانسپورٹ اور توانائی کے منصوبوں پر کی گئی، جیسے پاکستان میں ایک گیس پائپ لائن، ہنگری میں موٹروے اور تھائی لینڈ میں ہائی اسپیڈ ریل لنک وغیرہ شامل ہیں۔

مشرقی چین سے مال بردار کنٹینر سامان ٹرینوں تک پہنچاتے ہیں جہاں سے انہیں یورپ ٹرین پر روانہ کیا جاتا ہے — اے ایف پی فائل فوٹو
مشرقی چین سے مال بردار کنٹینر سامان ٹرینوں تک پہنچاتے ہیں جہاں سے انہیں یورپ ٹرین پر روانہ کیا جاتا ہے — اے ایف پی فائل فوٹو

چین نے فن لینڈ تک مال بردار ٹرین سروس کا بھی آغاز کردیا ہے۔

اس ٹرین سروس سے مال بردار ریل گاڑی فن لینڈ کے شہر کوولا سے چین کے شہر شیان کے درمیان 17 دن میں سفر مکمل کرے گی۔

چین کے مطابق یہ سمندری سفر کے مقابلے میں تیز جبکہ فضائی راستے سے زیادہ سستی پڑتی ہے۔

اسی طرح چین سے پولینڈ تک کا 9800 کلومیٹر تک چلنے والی ٹرین سروس پر بھی کام ہو رہا ہے۔

اس ریل گاڑی کے نظام سے چین کو الیکٹرونکس، مشینری، ملبوسات اور جوتے برآمد کرنے میں مزید مدد ملے گی۔

یہ ٹرین پولینڈ سے غذائی اشیاءاور مشروبات واپس چین لے کر جاتی ہے۔

چین کے صوبے ژی جیانگ سے برطانیہ کے دارالحکومت لندن کے درمیان بھی مال بردار ٹرین سروس گزشتہ سال شروع ہوئی۔

یہ ریل گاڑی 12 ہزار کلومیٹر کا فاصلہ 18 روز میں طے کرتی ہے۔

اس مال بردار ٹرین سے چین گھریلو استعمال کی اشیاء، ملبوسات، ہینڈ بیگز اور سوٹ کیسز وغیرہ لے کر جاتی ہے۔

گزشتہ سال روانہ ہونے والی پہلی ٹرین کا منظر — اے ایف پی فائل فوٹو
گزشتہ سال روانہ ہونے والی پہلی ٹرین کا منظر — اے ایف پی فائل فوٹو

چین سے جرمن شہر ہیمبرگ تک بھی مال بردار ریل سروس کام کررہی ہے۔

اب تک مجموعی طور پر چین کے 32 شہروں اور 12 یورپی ممالک کے شہروں کے درمیان ریلوے روٹ کھل کرچکا ہے۔

2017 تک 5ہزار ٹرینیں مختلف یورپی ممالک تک چین کا سامان پہنچاچکی ہیں۔

موسم جیسا ہو، یہ ٹرینیں حرکت میں رہتی ہیں۔

اے ایف پی فائل فوٹو
اے ایف پی فائل فوٹو

چین نے کینیا کے ساحل لامو پر ایک بندرگاہ تعمیر کر رہا ہے۔

یہ بندرگاہ مستقبل قریب میں سڑک، ریلوے اور پائپ لائن کے ذریعے سمندری پٹی سے محروم جنوبی سوڈان اور ایتھوپیا کو اس سے منسلک کرے گی۔

ایتھوپیا سے جبوتی تک ریلوے لائن کی تعمیر کا کام چینی سرمایہ کاری سے مکمل ہوا — اے پی فائل فوٹو
ایتھوپیا سے جبوتی تک ریلوے لائن کی تعمیر کا کام چینی سرمایہ کاری سے مکمل ہوا — اے پی فائل فوٹو

چین کے اس بڑے معاشی منصوبے سے وسطی ایشیا تک قدرتی گیس کی پائپ لائن کا نظام بھی بنایا جا رہا ہے، یہ پائپ لائن مختلف قازقستان، ترکمانستان اور ازبکستان سمیت مختلف ممالک سے گزرتی ہے۔

اس منصوبے کے تحت 2009 سے اب تک 200 ارب کیوبک میٹر قدرتی گیس وسطی ایشیا سے چین تک پہنچائی جاچکی ہے۔

اس سے منصوبے سے چین کو ملنے والی گیس سے 30 کروڑ سے زائد شہریوں کو فائدہ ہوا جبکہ وسطی ایشیا میں 10 ہزار ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوئے۔

وہ ممالک جنہوں نے اب تک چین کے اس منصوبے میں شرکت نہیں کی، وہ بھی اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

مغرب کی بڑی کمپنیاں جیسے امریکا کی جنرل الیکٹرک اور کیٹرپلر وغیرہ نے مختلف منصوبوں کے لیے تجارتی معاہدوں پر دستخط کیے ہیں۔

جنرل الیکٹرک نے 2016 میں 2.3 ارب ڈالرز (2کھرب 30 ارب روپے) کی مصنوعات فروخت کیں اور آنے والے برسوں میں اس کی آمدنی میں مزید اضافے کا امکان ہے۔

اے ایف پی فائل فوٹو
اے ایف پی فائل فوٹو

ایک پٹی، ایک شاہراہ، چین کے صدر شی جن پنگ کا منصوبہ ہے جو کہ اس وقت اپنے ملک کے طاقتور ترین رہنماءہیں۔

اے ایف پی فائل فوٹو
اے ایف پی فائل فوٹو

چین کے لیے یہ منصوبہ کئی حوالوں سے اہمیت کا حامل ہے، اسی لیے وہ اس کی ترویج کے لیے مختلف وقتوں میں ذرائع ابلاغ کو بھی استعمال کرتا رہتا ہے۔

چین اس حوالے سے ذرائع ابلاغ کے مختلف میڈیم استعمال کر رہا ہے، تاکہ اپنے منصوبے کو زیادہ سے زیادہ مثبت انداز میں دنیا بھر کے عوام کے سامنے لا سکے۔

چین کے سرکاری سمجھے جانے والے اخبار چائنہ ڈیلی نے ایک ویڈیو بنائی، جس میں بچوں کو گاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے، جس کے بول بھی کچھ یوں ہیں

' جس دنیا کا ہم خواب دیکھتے ہیں، اس آغاز آپ اور مجھ سے ہوتا ہے، مستقبل بیلٹ اور روڈ سے قریب آرہا ہے'۔

دنیا کے ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ جنگوں کے شکار خطے بھی چین کے عظیم منصوبے میں شامل ہو رہے ہیں۔

جنگ زدہ شام اور یمن بھی اس منصوبے کا حصہ بن چکے ہیں، جبکہ مختلف معاہدوں پر دستخط بھی کیے جا چکے ہیں۔

اے ایف پی فائل فوٹو
اے ایف پی فائل فوٹو

چین ون بیلٹ، ون روڈ کے لیے فلپائن کے دارالحکومت منیلا میں ایک نیا ضلع نیو منیلا بے، سٹی آف پرل بھی تعمیر کیا جارہا ہے جو کہ 407 ایکڑ پر پھیلا ہوا ہوگا۔

اس منصوبے کی تکمیل 30 سال میں ہوگی اور ابھی تک یہ واضح نہیں کہ چین کو اس کی تعمیر سے کیا فائدہ ہوگا، بظاہر تو اس منصوبے کو چین کا فلپائن کے لیے تحفہ بتایا جاتا ہے۔

برطانیہ باضابطہ طور پر تو اس منصوبے کا حصہ نہیں اور اس کا موقف بھی واضح نہیں، حالانکہ دونوں ممالک کے درمیان مال بردار ٹرین چل رہی ہے۔

یہ بھی دیکھیں : چین کی پہلی مال بردار ٹرین لندن پہنچ گئی

برطانوی وزیراعظم تھریسیا مے نے باضابطہ طور پر اس منصوبے کی توثیق نہیں کی اور کہا کہ یہ منصوبہ اسی وقت عالمی ترقی میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے، جب اس پر درست عملدرآمد ہو۔

اے ایف پی فائل فوٹو
اے ایف پی فائل فوٹو

اسی طرح آسٹریلیا بھی چین کے اس ون بیلٹ، ون روڈ منصوبے کے نقشے میں موجود نہیں، مگر حال ہی میں اچانک ہی اسے بھی روٹ میں ایک منصوبے کے ذریعے شامل کرلیا گیا۔ چین کی وزارت ثقافت نے آسٹریلیا میں چینی کمپنی کے زیرتحت تعمیر ہونے والے گولڈ کوسٹ تھیم پارک کو اپنے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کی فہرست میں شامل کرتے ہوئے اسے اہم ثقافتی تجارتی اور سرمایہ کاری کا منصوبہ قرار دیا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ آسٹریلیا اس بڑے منصوبے کا حصہ نہیں مگر چین کو اس تھیم پارک سے کیا فائدہ ہوگا وہ ابھی تک واضح نہیں۔

فوٹو بشکریہ اے بی سی نیوز
فوٹو بشکریہ اے بی سی نیوز

امریکا بھی اس منصوبے کا حصہ نہیں مگر گزشتہ سال مئی میں ایک بیان کے دوران رسمی طور پر اسے تسلیم کرتے ہوئے چین سے دوطرفہ تجارتی معاہدے پر دستخط بھی کیے۔

اے ایف پی فائل فوٹو
اے ایف پی فائل فوٹو

اس منصوبے کے مخالف بھی کم نہیں، اگرچہ بھارت بھی ایک راہداری میں شامل ہے مگر وہ چین کی جانب سے پاکستان میں اقتصادی راہداری کا مخالف ہے۔

دیگر ممالک کا کہنا ہے ایک پٹی، ایک شاہراہ درحقیقت چین اور دیگر معاشی طاقتوں کے درمیان دوطرفہ معاہدوں پر مشتمل ہے، مگر اسے کثیر الملکی پروجیکٹ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔

2016 میں چین نے ایشین انفراسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک کو تشکیل دیا جس کا مقصد خطے میں انفراسٹرکچر کی تعمیر میں مدد دینا ہے، اس میں برطانیہ، جرمنی اور فرانس وغیرہ سب شامل ہوچکے ہیں حالانکہ اوباما انتظامیہ کی جانب سے اپنے اتحادیوں کو اس سے روکا بھی گیا تھا۔

اے ایف پی فائل فوٹو
اے ایف پی فائل فوٹو

چین صرف ایشیا، یورپ، افریقہ اور اوشیانا تک ہی رسائی نہیں چاہتا، رواں سال کے شروع میں اس نے پولر سلک روڈ نامی منصوبے کا اعلان بھی کیا، جس کا مقصد پورے آرکٹک خطے میں انفراسٹرکچر کی تعمیر اور بحری راستوں کو کھوجنا ہے۔

اے ایف پی فائل فوٹو
اے ایف پی فائل فوٹو

چونکہ یہ بہت بڑا منصوبہ ہے تو اس کی سیکیورٹی کے لیے بھی ہر جگہ انتظامات کیے جارہے ہیں، گزشتہ سال جب کینیا میں چینی ریلوے ورکرز پر مقامی افراد کی جانب سے حملہ کیا گیا تو چین نے فیصلہ کیا کہ اس خطے میں اپنی فوجی موجودگی کو بڑھایا جائے اور اگست میں پہلا غیرملکی فوجی بیس جبوتی میں قائم کی۔

جبوتی میں چین کی پہلی غیرملکی فوجی بیس کی افتتاحی تقریب— اے ایف پی فائل فوٹو
جبوتی میں چین کی پہلی غیرملکی فوجی بیس کی افتتاحی تقریب— اے ایف پی فائل فوٹو

پاکستان نے سی پیک کے لیے خصوصی سیکیورٹی ڈویژن کو تشکیل دیا جس میں 13 ہزار سے زائد اہلکار ہیں۔

نئے سیکیورٹی ڈویژن میں پاک فوج اور سول آرمڈ فورسز کے 13 ہزار 731 اہلکاروں کو شامل کیا گیا۔

اے ایف پی فائل فوٹو
اے ایف پی فائل فوٹو