جام ساقی ... محمد جام نے جب یہ نام اختیار کیا تو اسے اندازہ نہیں تھا کہ اردو میں جب اسے پکارا جائے گا تو وہ میکدے کے ساتھ جُڑ جائے گا، لیکن اس جام اور ساقی کی زندگی کا زیادہ وقت میکدے کے بجائے زندان میں گزرا۔

اُن کا علاقہ اس قدر پُرامن تھا کہ اُن کی پہلی جیل کے وقت تھر میں ‘جھنجین جو تڑ‘ نامی اُن کے گاؤں کے لوگوں کو یہی پتہ تھا کہ جیل صرف ایسے لوگ جاتے ہیں جنہوں نے قتل یا چوری جیسا کوئی سنگین جرم کیا ہو۔ کوئی سیاسی نظریات کی وجہ سے بھی پکڑا جاسکتا ہے یہ اُن کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔

کہا جاتا ہے کہ لوگ اکثر جام ساقی کی شریکِ حیات سکھاں کو بتاتے تھے کہ اُن کے شوہر پر بہت زیادہ تشدد کیا جا رہا ہے۔ جب یہ اطلاعات تسلسل کے ساتھ آنے لگیں تو مایوس ہوکر سکھاں نے کنوئیں میں کود کر خودکشی کرلی۔ تھر کے کنوئیں ایک ہزار فٹ گہرے ہوتے ہیں۔ گہرائی، اندھیرا اور کنوئیں میں گرے ہوئے سانپ، تاریک راہوں میں مارے جانے والوں کی زندگی بھی ایسے ہی گزرتی ہے۔ ایسے عالم میں صدیوں کے پیاسے تھر کو جام بھی مل رہا تھا اور ساقی بھی۔

جام ساقی کی شہرت کی شروعات کب ہوئی اور کب وہ مظلوموں کے ساتھی اور ہمدرد بن کر منظرِ عام پر آئے؟ اس بارے میں مختلف روایتیں ہیں، لیکن سقوطِ ڈھاکہ کے وقت جام ساقی مزاحمت کی آواز بن کر اُبھرے اور پاکستان کے سیاسی و سماجی منظر نامے پر ایک مضبوط و توانا آواز بن کر چھا گئے۔ جام ساقی نے 7 مرتبہ جیل یاترا کی، پہلی مرتبہ 4 مارچ 1967ء میں گرفتار ہوئے، وہ ضیاء حکومت میں سب سے طویل عرصہ، 8 برس پسِ زنداں رہے۔

جام ساقی ولی خان اور بدر ابڑو کے ہمراہ
جام ساقی ولی خان اور بدر ابڑو کے ہمراہ
بیگم نصرت بھٹو کے ہمراہ
بیگم نصرت بھٹو کے ہمراہ

'ضمیر کے قیدی' نامی تصنیف کے مصنف نثار حسین رقم طراز ہیں کہ،

’1983ء میں جب جام ساقی اور اُن کے ساتھیوں پر کراچی کی ایک فوجی عدالت میں مقدمہ چلایا گیا اور اخبارات میں خبریں آنا شروع ہوئیں تو اُس کے بارے میں مختلف قیاس آرائیاں بھی شروع ہو گئیں۔ کچھ لوگ اُنہیں راہِ حق پر سمجھتے تھے اور کچھ نہیں لیکن اس بات پر سب متفق تھے کہ اُن سے کوئی جرم سرزد ہوا تو وہ سیاسی نوعیت کا ہے۔‘

1983ء میں جب جب جام ساقی گرفتار ہوئے تو اُنہیں 13 ماہ کی نظر بندی کے بعد عدالت میں پیش کیا گیا۔ عدالت میں اپنے بیان ریکارڈ کرواتے ہوئے جام ساقی نے اس وقت کے صدرِ پاکستان جنرل ضیاء الحق اور اراکینِ عدالت کو کس انداز میں مخاطب کیا وہ نہایت دلچسپ ہے۔ جام ساقی نے کہا،

’مجھ پر یحییٰ خان کے غیر قانونی اقتدار کے دوران خصوصی فوجی عدالتوں میں مقدمے چلائے گئے۔ 1969ء کے اوائل میں مجھے اس بنیاد پر گرفتار کیا گیا تھا کہ میں نے ون یونٹ کے خلاف بیجز تقسیم کیے تھے۔ مجھ پر مئی 1969ء میں ایک میجر جاوید مجید کی خصوصی عدالت میں مقدمہ چلایا گیا تھا۔ سی آئی ڈی کے ایک گواہ نے عدالت کو بتایا کہ انہیں ایک وائرلیس پیغام موصول ہوا ہے کہ میں سرحد پار کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ مجھے اس پر شدید دکھ ہوا ہے اور میں اپنے جواب میں جذباتی ہوگیا۔ پریزائڈنگ افسر میرے جذبات کو محسوس کر رہا تھا کیونکہ میں نے اسے آبدیدہ دیکھا تھا۔ مگر اس نے مجھے ایک سال کی کی قید سزا سنا دی تھی۔‘

جام ساقی معروف سندھی سیاستدان جی ایم سید کے ہمراہ
جام ساقی معروف سندھی سیاستدان جی ایم سید کے ہمراہ
جام ساقی کے حق میں بینظیر بھٹو فوجی عدالت میں پیش ہو رہی ہیں
جام ساقی کے حق میں بینظیر بھٹو فوجی عدالت میں پیش ہو رہی ہیں

مجھے ایک اور انوکھا واقعہ یاد ہے۔

’مجھ پر مارشل لاء ریگولیشن 5 ,16 اور 19 کی خلاف وزری پر مقدمہ قائم کیا گیا تھا۔ میں جانتا تھا کہ میں نے ون یونٹ کی مخالفت کرکے ایم ایل آر 19 کی خلاف ورزی کی تھی۔ میں نے صدرِ عدالت سے پوچھا کہ یہ ایم ایل آر 5 اور 16 کیا ہے؟ اس نے جواب دیا کہ وہ نہیں جانتا، میں نے اس پر کہا کہ میں اس وقت تک عدالت کو مقدمہ جاری رکھنے کی اجازت نہیں دوں گا جب تک عدالت یہ نہیں جان لیتی کہ وہ قواعد کیا ہیں جن کی خلاف ورزی کا الزام مجھ پر عائد کیا گیا ہے۔ میجر جاوید نے 10 منٹ کے وقفے کا اعلان کیا اور جب کارروائی دوبارہ شروع ہوئی تو اس نے بتایا کہ ایم ایل آر 5 غداری کے بارے میں ہے اور اس نے مسکراتے ہوئے بتایا کہ جہاں تک ایم ایل آر 16 کا تعلق ہے، حیدرآباد ’بگ گی‘ کو بھی اس کے متعلق علم نہیں ہے۔ تاہم بغیر کسی تاخیر کے اس نے وہ سزا سنا دی جس کے لیے اسے بھیجا گیا تھا۔‘

مزید پڑھیے: کامریڈ جام ساقی : سکہ بند سیاست سے جمہوری سفر کی تاریخ

جب مجھے لاہور کے بدنامِ زمانہ عقوبت خانے شاہی قلعے میں قید کیا گیا تو میں نے کچھ پیسے اپنی شلوار کے نیفے میں چھپائے ہوئے تھے۔ میری کھولی پر متعین گارڈ سے میں نے درخواست کی کہ میں اسے پیسے دے سکتا ہوں اگر وہ مجھے سگریٹ کا پیکٹ لا دے۔ پہریدار نے کہا کہ

’آج تو ممکن نہیں، کل لا کر دے دوں گا۔‘

دوسرے دن وہ پیکٹ لے آیا میں نے اسے پیسے دیے۔ مجھے عجیب سی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا کہ

’کس چیز کے پیسے۔ اب جب تک آپ یہاں قید ہیں میں آپ کو سگریٹ لا کر دوں گا۔‘

پھر وہ بھرائی ہوئی آواز اور بھیگی پلکوں کے ساتھ مجھ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ

’یہ سب کچھ آپ اپنے لیے تو نہیں ہماری قوم کے لیے کر رہے ہیں۔‘

اپنی پہلی اہلیہ سکھاں کے ہمراہ
اپنی پہلی اہلیہ سکھاں کے ہمراہ
اپنی دوسری اہلیہ اختر سلطانہ کے ہمراہ
اپنی دوسری اہلیہ اختر سلطانہ کے ہمراہ

سابق صدر یحییٰ خان کے دور میں بھی جام ساقی مسلسل جبر و ستم کا شکار رہے۔ حتیٰ کہ ایک بار ان کو دیکھتے ہی گولی مارنے کا حکم صادر کر دیا گیا تھا۔

احمد سلیم اور نزہت عباس اپنی تحقیقاتی کتاب ’جام ساقی، چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی‘ میں جام ساقی کی زندگی میں پیش آنے والے مختلف واقعات پر کچھ یوں رقم طراز ہوتے ہیں،

’گولی مارنے کا حُکم سن کر جام ساقی روپوش ہوگئے۔ انہوں نے ایک مولوی کا روپ دھار لیا۔ وہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہاتھ نہ لگے تو ملٹری سمری کورٹ میں اُن کے خلاف مقدمہ چلایا گیا اور انہیں ایک سال کی قید بامشقت کی سزا سنائی گئی۔ مسلسل روپوشی کا دور خاصا طویل تھا۔ اسی حالت میں وہ ایک مہم جو کی طرح روپوشی کی زندگی گزارتے رہے۔ اسی روپوشی کے دوران اُن کے بارے میں افواہیں پھیلائی گئیں کہ وہ ہندوستان فرار ہوگئے ہیں کیونکہ ہندوستان سے اُن کے بیانات نشر ہوئے تھے۔‘

کتاب کا سرورق
کتاب کا سرورق

مسلسل روپوشی میں 1972ء آگیا۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی نیپ کی حکومتیں بن چکی تھیں۔ بلوچستان میں جام کے دوست میر غوث بخش بزنجو گورنر بن چکے تھے۔ اب جام نے روپوشی ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔ وہ آریسر والی مسجد میں گئے اور داڑھی وغیرہ صاف کی۔ اُس وقت ہوٹل شمریز میں کامریڈ غلام محمد لغاری اور سید باقر علی شاہ نیپ کی طرف سے پریس کانفرنس کر رہے تھے۔ یہ وہاں پہنچ گئے لیکن طلباء اور سیاسی رہنماؤں کی موجودگی میں پولیس انہیں گرفتار کرنے کی جرات نہ کرسکی۔ وہاں سے وہ یونیورسٹی کی بس میں بیٹھ کر ہوسٹل گئے اور رات جلسے سے خطاب کیا۔ دوسرے دن نواب شاہ چلے گئے جہاں نیپ اور ہاری کمیٹی کا مشترکہ جلسہ ہونا تھا۔ ان کی شرکت نیپ اور مزدور محاذ کی طرف سے تھی۔ انہوں نے بولنا شروع ہی کیا تھا کہ پولیس، جو اس بار پوری تیاری کرکے آئی تھی، نے اُنہیں دھر لیا۔ یحییٰ خان کی حکومت نے اُن کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے لیکن پیپلز پارٹی کی سویلین مارشل لاء حکومت کی پولیس انہیں گرفتار کیے بغیر نہ رہ سکی۔

مشہور انقلابی شاعر حبیب جالب کے ساتھ
مشہور انقلابی شاعر حبیب جالب کے ساتھ
معروف شاعر احمد فراز اور دیگر کے ساتھ
معروف شاعر احمد فراز اور دیگر کے ساتھ

جیسا کہ ہم نے ذکر کیا ہے کہ روپوشی کے اس طویل دور میں جام ساقی نے داڑھی بڑھا لی تھی اور تبلیغی جماعت والوں کا رنگ ڈھنگ اختیار کرلیا تھا۔ اگرچہ انہیں 1978ء سے پہلے گرفتار نہ کیا جاسکا لیکن کئی مرتبہ اُن کے کمیونسٹ دل اور انسان دوستی کے جذبات انہیں گرفتاری کی طرف لے گئے تھے۔ اس عرصے میں راقم الحروف سے بھی ایک دو بار ملاقات ہوئی تھی۔ وہ اسی حلیے میں تھے لیکن انہوں نے ٹوٹے ہوئے چپل پہنے ہوئے تھے، میں نے مُسکرا کر کہا تھا،

’کامریڈ! احتیاط کریں۔ تبلیغی جماعت والے ٹوٹے ہوئے چپل نہیں پہنتے۔‘

ہم نے خود جام ساقی کی زبانی ایسے کئی واقعات سنے جنہیں دہرانے کو جی چاہتا ہے۔ ایسا ہی ایک واقعہ کچھ یوں تھا کہ،

’ایک دفعہ بس میں، میں نذیر عباسی کے ساتھ جا رہا تھا۔ میں نے ایک بوڑھے کولہی کو تکلیف کی حالت میں کھڑا دیکھا۔ میں کھڑا ہوگیا اور اسے بیٹھنے کی جگہ دی۔ وہ میری سیٹ پر بیٹھ گیا۔ جب ہم ٹنڈو الہیار پہنچے تو نذیر عباسی بولا کہ کامریڈ! آپ کسی دن مروائیں گے، کوئی بھی اصلی مولوی بوڑھے اور بیمار کولہی کو اپنی جگہ نہیں دیتا۔ اگر بس میں کوئی سی آئی ڈی کا آدمی ہوتا تو فوراً سمجھ جاتا کہ آپ اصلی مولوی نہیں ہیں۔‘

جیل سے رہائی کے بعد جام ساقی پنجاب کے دورے پر ہیں
جیل سے رہائی کے بعد جام ساقی پنجاب کے دورے پر ہیں
والد مہمند سچل، والدہ میہی بائی، بہن ماروی، اور بھائی سلطان کے ہمراہ
والد مہمند سچل، والدہ میہی بائی، بہن ماروی، اور بھائی سلطان کے ہمراہ

ایک روز کا واقعہ کچھ یوں ہے کہ

’ایک بار جامع مسجد کے پاس سے گزر رہے تھے کہ کچھ لوگوں نے انہیں گھیر لیا۔ مولوی صاحب جنازہ پڑھا دیں۔ انہیں جنازہ پڑھانا تو آتا نہیں تھا (اس واقعے کے بعد سیکھ لیا تھا)۔ جام ساقی نے اُن سے معذرت کی اور کہا وہ بہت جلدی میں ہیں۔ اُنہیں ایک ضروری کام کے لیے کہیں پہنچنا ہے، اس لیے جنازہ پڑھانے کا وقت نہیں ہے۔ یہ کہہ کر جام چل پڑے تو پیچھے سے آواز آئی، ’یہ سالا کسی دعوت پر جا رہا ہوگا۔‘ جام کو خوشی ہوئی کہ وہ پہچانے نہیں گئے اور یہ گالی مولوی کو پڑی ہے، اُنہیں نہیں۔‘

پروفیسر جمال نقوی کتاب ضمیر کے قیدی میں لکھتے ہیں کہ

’یکم ستمبر 1983ء کو میری کورٹ میں پیشی تھی اس دن میں علی الصبح بیہوش ہوگیا۔ دوستوں نے مجھے اُسی حالت میں پولیس وین میں ڈالا اور کورٹ لے گئے۔ وہاں ڈاکٹر کو بلایا گیا اور معائنے سے پتہ چلا کہ مجھ پر فالج کا حملہ ہوا ہے۔ اس کے بعد مجھے اسپتال منتقل کردیا گیا۔ بعد میں مجھے پتہ چلا کہ ہمارے ساتھی جام ساقی نے میرے اسپتال جانے پر کورٹ سے شدید احتجاج کیا اور کہا کہ مجھے اسپتال نہ بھیجا جائے بلکہ کورٹ میرا علاج کرے۔ کرنل صاحب اس بات پر بہت برہم ہوئے کہ کورٹ مریض کا علاج کیسے کرسکتا ہے اور کہا کہ وہ کوئی ڈاکٹر تو نہیں ہیں۔ اس پر جام ساقی نے کہا کہ جناب آپ تو جج بھی نہیں ہیں جب آپ قانون کو جانے بغیر مقدمہ چلا سکتے ہیں تو میڈیکل سائنس کو جانے بغیر علاج بھی کر سکتے ہیں۔‘

وہ اکثر صحافیوں کے ساتھ بیٹھنا پسند کرتے تھے، جام ساقی کراچی پریس کلب میں راقم الحروف کے ہمراہ
وہ اکثر صحافیوں کے ساتھ بیٹھنا پسند کرتے تھے، جام ساقی کراچی پریس کلب میں راقم الحروف کے ہمراہ

جام ساقی کے انتقال سے سیاست و سماج سے رواداری، روشن خیالی اور جمہوریت پسندی کا ایک درخشاں باب بند ہوگیا۔ جام ساقی منوں مٹی کی چادر اوڑھ کر تہہ خاک ہوگئے لیکن وہ ان لوگوں میں شامل تھے جو اپنے نام اور کام کے حوالے سے منفرد تھے۔ جام ساقی، پاکستان میں عوامی جدوجہد کرنے والوں میں سرِ فہرست ہیں۔ غیر طبقاتی سماج کے لیے جہدِ مسلسل کرنے والے جام ساقی نے کبھی مفاہمت نہیں کی اور نہ کبھی اپنے نظریے اور اصولوں کو قربان کیا۔

وہ پاکستان کی عوامی تاریخ کا ایک ایسا کردار ہیں جو آج نہیں تو کل اس دھرتی پر انقلاب کا تسلسل ثابت ہوں گے۔


— تصاویر بشکریہ کتاب جام ساقی: چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی

تبصرے (6) بند ہیں

khair Mar 06, 2018 09:26pm
What a tribute to comrade!
Janul Mar 06, 2018 09:28pm
Akhtar Jan! Aap nay Jam saqi ki zindagi par bhut umda likha. mukhtsar lakin pur asar.
An avid DAWN reader Mar 07, 2018 05:36am
Excellent Comments پروفیسر جمال نقوی کتاب ضمیر کے قیدی میں لکھتے ہیں کہ ’یکم ستمبر 1983ء کو میری کورٹ میں پیشی تھی اس دن میں علی الصبح بیہوش ہوگیا۔ دوستوں نے مجھے اُسی حالت میں پولیس وین میں ڈالا اور کورٹ لے گئے۔ وہاں ڈاکٹر کو بلایا گیا اور معائنے سے پتہ چلا کہ مجھ پر فالج کا حملہ ہوا ہے۔ اس کے بعد مجھے اسپتال منتقل کردیا گیا۔ بعد میں مجھے پتہ چلا کہ ہمارے ساتھی جام ساقی نے میرے اسپتال جانے پر کورٹ سے شدید احتجاج کیا اور کہا کہ مجھے اسپتال نہ بھیجا جائے بلکہ کورٹ میرا علاج کرے۔ کرنل صاحب اس بات پر بہت برہم ہوئے کہ کورٹ مریض کا علاج کیسے کرسکتا ہے اور کہا کہ وہ کوئی ڈاکٹر تو نہیں ہیں۔ اس پر جام ساقی نے کہا کہ جناب آپ تو جج بھی نہیں ہیں جب آپ قانون کو جانے بغیر مقدمہ چلا سکتے ہیں تو میڈیکل سائنس کو جانے بغیر علاج بھی کر سکتے ہیں۔‘
Shahid Mar 07, 2018 07:38am
thank you for very informative article as always
raif jamali Mar 07, 2018 10:50am
thank you for such great information about Jam Saqi.
Farrukh Mar 07, 2018 08:21pm
Excellent tribute to comrade