ناکارہ چیزوں کا شاندار استعمال کوئی فِن لینڈ سے سیکھے

ناکارہ چیزوں کا شاندار استعمال کوئی فِن لینڈ سے سیکھے

رمضان رفیق

فن لینڈ کا نام آتے ہی ذہن میں بُرے موسم کا خیال چلا آتا ہے، میں نے اپنے رخت سفر میں ایک عدد گرم جیکٹ بھی صرف فن لینڈ میں سیر سپاٹے کی غرض سے رکھی تھی۔ شاید یہی وہ جگہ ہے کہ جہاں موسم پر بھروسہ نہ کرنے والی ضرب المثل تخلیق ہوئی ہوگی۔

فن لینڈ میں بسنے والے ایک دوست نے بتایا کہ یہاں ایک بار باہر کھڑکی سے جھانکا تو سورج نکلا ہوا تھا، خوشی خوشی کپڑے بدل کر باہر بس اسٹاپ تک پہنچا تو بارش شروع ہوچکی تھی۔ پاکستان میں سورج کو دیکھنے کی حسرت کم ہی لوگوں کی رہ جاتی ہوگی، چاہے جیسا بھی موسم ہو سورج ضرور نظر آتا ہے۔ اسکینڈے نیویا میں موسم گرما میں بھی سورج بلا ناغہ درشن نہیں دیتا اس لیے لوگ اس کی دید کے پیاسے رہتے ہیں۔

مجھے آپ اس سال کا خوش قسمت ترین مسافر کہہ سکتے ہیں کہ میں جس دن فن لینڈ کے دارالحکومت ہیلسنکی میں موجود تھا، اس دن کا زیادہ تر حصہ سورج نکلا رہا، گو کہ کچھ دیر کے لیے بارش بھی ہوئی لیکن اس نعمت کا شمار کیا کہ آپ فن لینڈ دو دن کے لیے جائیں اور ایک دن کھلی کھلی دھوپ مل جائے۔ خیر سفر کیے بغیر سورج اور دھوپ کی رام لیلا سمجھنا دشوار ہے۔

ہیلسنکی کا ایک نظارہ—تصویر رمضان رفیق
ہیلسنکی کا ایک نظارہ—تصویر رمضان رفیق

شہر کا ایک گلشن—تصویر رمضان رفیق
شہر کا ایک گلشن—تصویر رمضان رفیق

ہیلسنکی کی ایک سڑک—تصویر رمضان رفیق
ہیلسنکی کی ایک سڑک—تصویر رمضان رفیق

ایک گھرجا گھر—تصویر رمضان رفیق
ایک گھرجا گھر—تصویر رمضان رفیق

یہ ایک ایسا ملک جہاں سب سے زیادہ کتابیں پڑھی جاتی ہیں، ایسا دیس جس کے نظام تعلیم کی پوری دنیا میں دھومیں ہیں۔ یہاں اختیار کیے جانے والے طریقہءِ تعلیم کو دیکھ کر دیگر ممالک اپنی تعلیمی پالیسیوں کی سمت متعین کرتے ہیں۔

اسٹاک ہوم سے رات بھر کی مسافت طے کرتی ہوئی فیریاں ہیلسنکی کو آتی ہیں اور اکثر مسافر بھی اسی کو بہترین ذریعہ سفر سمجھتے ہیں۔ دوستوں کے ساتھ اس بحری سفر کا رنگ کچھ اور ہوتا ہے مگر چوں کہ میں اکیلا ہی عازم سفر تھا اس لیے ہوائی جہاز کو ترجیح دی۔

غیروایتی ڈیزائن کا ایک گھرجا گھر—تصویر رمضان رفیق
غیروایتی ڈیزائن کا ایک گھرجا گھر—تصویر رمضان رفیق

ہیلسنکی کا ایک چوراہا—تصویر رمضان رفیق
ہیلسنکی کا ایک چوراہا—تصویر رمضان رفیق

اس سفر میں میرے میزبان اور گائیڈ عبدالغفار ہیں جو ہیلسنکی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کر رہے ہیں اور گزشتہ 4 یا 5 برسوں سے یہیں مقیم ہیں۔ ان کی خوب رنگ صحبت اور دیسی ضیافت میں چند دیگر پاکستانیوں سے بھی ملاقاتیں ہوئیں جو بسلسلہ تعلیم یا روزگار یہاں مقیم ہیں۔ اگلی صبح شہر کا ایک روزہ پاس خریدا گیا جس کی قیمت 5 یوروز تھی، اس سے شہر بھر میں چلنے والی بسوں، ٹرینوں اور ٹراموں پر جتنا مرضی چاہیں سفر کیا جاسکتا ہے۔

ہماری پہلی منزل یہاں کا سینٹرل اسٹیشن تھا، یہاں میٹرو کی ابھی ایک لائن ہی موجود ہے لیکن بسوں اور ٹرینوں کا ایک فعال نظام موجود ہے۔ سنٹرل اسٹیشن کے مرکزی دروازے کے باہر 4 مجسمے نصب ہیں جنہوں نے غالباً اپنے ہاتھوں میں گلوب تھاما ہوا ہے۔ ان مجمسوں کو مقامی سلیبرٹی کا درجہ حاصل ہے، کچھ عرصہ پہلے ایک میوزیکل بینڈ کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ان مجسموں کے چہروں پر پینٹ کردیا گیا تھا۔

سینٹرل اسٹیشن کے مرکزی دروازے کے باہر نصب مجسمے—تصویر رمضان رفیق
سینٹرل اسٹیشن کے مرکزی دروازے کے باہر نصب مجسمے—تصویر رمضان رفیق

سینٹرل اسٹیشن—تصویر رمضان رفیق
سینٹرل اسٹیشن—تصویر رمضان رفیق

شہر کی ایک سڑک—تصویر رمضان رفیق
شہر کی ایک سڑک—تصویر رمضان رفیق

شہر کا ایک چوراہا—تصویر رمضان رفیق
شہر کا ایک چوراہا—تصویر رمضان رفیق

سینٹرل اسٹیشن سے پیدل ہی ہم پارلیمنٹ کی عمارت کی طرف چلے آئے۔ کچھ مخصوص دنوں میں اس عمارت کو اندر سے بھی دیکھا جاسکتا ہے لیکن آج وہ دن نہ تھا اس لیے باہر سے ہی دیکھنے پر اکتفا کیا، عمارت کے دور و نزدیک تک کسی باوردی سپاہی یا پہریدار کا شائبہ تک موجود نہ تھا۔ ملک میں امن ہونے سے بڑی نعمت اخر کیا ہوسکتی ہے کہ آپ بے فکر سب دروازے کھلے چھوڑ کر سو سکتے ہیں، اور بلاخوف و خطر لوگوں کو وہاں آنے کی دعوت دے سکتے ہیں۔

یہاں سے چلتے چلتے ہم مارکیٹ اسکوائر کی طرف چلے آئے۔ اس اسکوائر میں رومانیہ سے آئی ہوئی کچھ جپسی عورتیں راہگیروں سے بھیک مانگتی ہوئی بھی نظر آئیں، ان جیسی کئی عورتیں اب ناروے، سویڈن اور فن لینڈ میں کئی مقامت پر نظر آ جاتی ہیں، میرے لیے ان میں باعث دلچسپی ان کا خاص لباس ہے جو ہمارے پہاڑی علاقوں کے لباس سے کافی ملتا جلتا ہے۔

بھیگ مانگتی ہوئی ایک جپسی عورت—تصویر رمضان رفیق
بھیگ مانگتی ہوئی ایک جپسی عورت—تصویر رمضان رفیق

سیاحتی بس—تصویر رمضان رفیق
سیاحتی بس—تصویر رمضان رفیق

شہر میں ایستادہ مجسمے—تصویر رمضان رفیق
شہر میں ایستادہ مجسمے—تصویر رمضان رفیق

ایک سائیکل اسٹینڈ—تصویر رمضان رفیق
ایک سائیکل اسٹینڈ—تصویر رمضان رفیق

لمبے فراک نما لباس جن کو شاید غرارہ کہا جاتا ہے۔ کئی ایک جگہ پر اُن کے سر پر لپٹے ہوئے حجاب نما رومال بھی دیکھے، ایک خاتون سے بات کرنے کی کوشش کی لیکن اس کو انگریزی یا مقامی زبان نہیں آتی تھی، میں نے ٹوٹے پھوٹے انداز میں پوچھا کہ مسلمان ہو؟ اس نے ہاتھوں کے اشارے سے کہا اسے کچھ سمجھ نہیں آتا، کچھ پیسے دینے ہیں تو دو، وقت ضائع مت کرو، اور ہم نے اس کا مزید وقت ضائع نہیں کیا۔

یہاں سے پیدل چلتے چلتے ہم ایک واکنگ اسٹریٹ سے گزرے، یہاں پچھلے ہفتے ہیلسنکی ڈیزائن ویک منایا گیا تھا، اس کی کچھ نشانیاں ابھی تک اس گلی کا حصہ تھیں، ان میں سے ایک لکڑی سے بنا ہوا، کم جگہ گھیرنے والا ایک ورٹیکل باغ تھا، یعنی لکڑی کے چوبارہ در چوبارہ ایسے خانے بنائے گئے تھے جن میں مختلف اقسام کی گھریلو سبزیاں لگائی گئی تھیں۔ مجھے یہ آئیڈیا بے حد پسند آیا، کیونکہ اس کو باآسانی پاکستان میں گھریلو پیمانے پر سبزیاں کاشت کرنے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔

اس گلی کے بعد ہم ایک پارک میں سے گزرتے ہوئے ہیلسنکی کے اس مشہور مجسمے کے پاس پہنچے جسے گریجوئیشن کے موقعے پر شہر کی منتخب کلاس کسی نئے انداز سے غسل کرواتی ہے۔ یہ ایک عورت ایوس امانندہ کا برہنہ مجسمہ ہے، جس کے اردگرد فوارے لگے ہوئے ہیں، یہاں آنے والے اس مجسمے کے ساتھ تصویر بنوانا نہیں بھولتے۔

لکڑی سے بنا ہوا، کم جگہ گھیرنے والا ایک ورٹیکل باغ—تصویر رمضان رفیق
لکڑی سے بنا ہوا، کم جگہ گھیرنے والا ایک ورٹیکل باغ—تصویر رمضان رفیق

ایوس امانندہ کا مجسمہ—تصویر رمضان رفیق
ایوس امانندہ کا مجسمہ—تصویر رمضان رفیق

ہیلسنکی میں ٹرامیں بھی چلتی ہیں—تصویر رمضان رفیق
ہیلسنکی میں ٹرامیں بھی چلتی ہیں—تصویر رمضان رفیق

ہیلسنکی میں سینٹرل اسٹیشن کے آس پاس—تصویر رمضان رفیق
ہیلسنکی میں سینٹرل اسٹیشن کے آس پاس—تصویر رمضان رفیق

اسی مجسمے یا فوارے کے بالکل سامنے سمندر کے ساتھ ہی ایک مقامی مارکیٹ لگی ہوئی تھی، مقامی مارکیٹس کا یہ تصور ہمیشہ سے میرے دل کو بھایا ہے، کہ مقامی لوگ اپنی تیارکردہ مصنوعات خود سے خریدار کے حضور پیش کرتے ہیں۔ گرم ٹوپیاں بنانے والے کچھ عورتیں، ٹوپیوں کی سلائی میں مصروف تھیں، ایک بوڑھی عورت بچوں کے لیے گڑیا بنا کر بیچ رہی تھی، ایک خاتون اپنی ڈیزائن کی ہوئی قمیصیں بیچنے کے لیے کھڑی تھی، ہم نے ایک بوڑھی عورت کے ہاتھوں کی بنی ہوئی ایک نفیس ٹوپی خریدی، جس کی قیمت رعایت کرکے 22 یورو تھی، جن ہاتھوں سے ٹوپی تیار کی گئی انہی ہاتھوں سے ٹوپی خرید کر پہننے کا تصور بہت خوبصورت ہے۔ اب بھی جب وہ گرم ٹوپی پہنتا ہوں تو مجھے فن لینڈ کی وہ شفیق بوڑھی خاتون یاد آ جاتی ہے۔

یہاں کی فارمر مارکیٹ میں پھلوں، سبزیوں، تازہ اور تلی ہوئی مچھلی کے بھی کئی اسٹالز نظر آئے۔ وہاں سے تھوڑا آگے گزر کر ہم نے ہیلسنکی کا ایک قدیم چرچ دیکھا، اور پھر مرکزی شہر کی طرف مشہور سفید چرچ کی طرف چلے آئے۔ اس خوبصورت سفید چرچ کے باہر سیاحوں کا خاصا رش تھا۔ اس چرچ کے بالکل پہلو میں ہیلسنکی یونیورسٹی کا ایک کیمپس تھا۔

مقامی مارکیٹ—تصویر رمضان رفیق
مقامی مارکیٹ—تصویر رمضان رفیق

ایک بوڑھی عورت بچوں کے لیے گڑیا بنا کر بیچ رہی ہے—تصویر رمضان رفیق
ایک بوڑھی عورت بچوں کے لیے گڑیا بنا کر بیچ رہی ہے—تصویر رمضان رفیق

فارمرز مارکیٹ—تصویر رمضان رفیق
فارمرز مارکیٹ—تصویر رمضان رفیق

ہیلسنکی کا وائٹ چرچ—تصویر رمضان رفیق
ہیلسنکی کا وائٹ چرچ—تصویر رمضان رفیق

یہاں پر کیمپس کا تصور پاکستانی کیمپس سے کچھ مختلف ہے کیونکہ سردی کی شدت کا مقابلہ کرنے کے لیے بند عمارتوں میں ہی درس و تدریس کا کام ہوتا ہے۔ پھر باتھ روم جانے کا بھی اتفاق ہوا، اور باتھ روم کے دروازے کی اندرونی طرف گمنام لکھنے والوں کی اجنبی تحریروں نے ایک مسکراہٹ لبوں پر طاری کردی کہ ایسے گھٹن کے مارے تخلیق کار دنیا میں ہر جگہ ہی موجود ہیں جن کا پسندیدہ مشغلہ ٹوائلٹس کی دیواروں پر لکھنا ہے۔

چلتے چلتے ہم ایک شاپنگ مال تک آ پہنچے، یہاں پر ایک دیسی ہوٹل کی طرف سے پاکستانی بوفے لگا ہوا تھا، جس کی قیمت، ایک گلاس مشروب اور چائے سمیت صرف 10 یورو تھی۔ اتنا سستا بوفے سکینڈے نیویا میں مفت کے قریب تر ہی لگتا ہے، کیوں کہ 2 روز پہلے اسٹاک ہوم کے ریلوے اسٹیشن سے جو کافی لی تھی ایک بسکٹ کے ساتھ اس کی قیمت اس بوفے کی قیمت سے زیادہ تھی۔

شام کو ہیلسنکی کے پاس ہی موجود سومالینا نامی قلعہ دیکھنے کا پروگرام بنا۔ اس قلعے تک جانے کے لیے چھوٹی فیریاں چلتی ہیں۔ یہ سفر بمشکل 10 سے 15 منٹ کا ہوگا۔ اس قلعے کی سیر میں مقامی یونیورسٹی میں سائنسدان ڈاکٹر زبیر میرے ساتھ تھے۔ انہوں نے بتایا کہ 18ویں صدی کا یہ قلعہ پہلے سویڈش اور بعد میں روسی طالع آزماؤں سے مقابلے کے لیے بنایا گیا تھا اور بعد میں فن لینڈ کی آزادی کے بعد اس کا نام سومالینا یعنی فن لینڈ کا قلعہ رکھا گیا اور اب یہ یونیسکو کے عالمی ورثے کا حصہ بھی ہے۔

ہیلسنکی کے قریب واقع سومالینا جزیرہ—تصویر رمضان رفیق
ہیلسنکی کے قریب واقع سومالینا جزیرہ—تصویر رمضان رفیق

سومالینا کو جاتی کشتیاں—تصویر رمضان رفیق
سومالینا کو جاتی کشتیاں—تصویر رمضان رفیق

جزیرہ سومالینا—تصویر رمضان رفیق
جزیرہ سومالینا—تصویر رمضان رفیق

سومالینا سے شہر کا ایک منظر—تصویر رمضان رفیق
سومالینا سے شہر کا ایک منظر—تصویر رمضان رفیق

اس قلعے کے اندر ایک میوزیم اور لائبریری موجود ہے جبکہ بہت سی جگہوں کو پکنک مقامات کی طرز میں تیار کیا گیا ہے۔ قلعے کے ساتھ متصل بحری جہازوں کی ایک ورکشاپ میرے لیے ایک نئی چیز تھی کہ کیسے ساتھ ہی سمندر کا راستہ روک کر ایک گہری خندق نما جگہ بنائی گئی ہے۔

قدرت مجھ پر مہربان تھی اور دھوپ نکلی ہوئی تھی اس لیے قلعے کی فصیلوں، خندقوں اور مورچوں کی بھول بھلیوں میں 2 گھنٹے کیسے گزرے پتہ ہی نہیں چلا۔ سومالینا سے واپسی پر چند دیگر پاکستانیوں سے بھی ملاقات ہوئی اور حسبِ روایت کافی کے مگ پر ملک کی ترقی کے خواب دیکھے گئے۔

پرانی بیرکیں—تصویر رمضان رفیق
پرانی بیرکیں—تصویر رمضان رفیق

یہاں بھی پلوں پر تالے اور گلیوں میں گانے والے نظر آجاتے ہیں—تصویر رمضان رفیق
یہاں بھی پلوں پر تالے اور گلیوں میں گانے والے نظر آجاتے ہیں—تصویر رمضان رفیق

ایک سونا ہاؤس، سردیوں میں اکثر شہری یہاں رخ کرتے ہیں—تصویر رمضان رفیق
ایک سونا ہاؤس، سردیوں میں اکثر شہری یہاں رخ کرتے ہیں—تصویر رمضان رفیق

اگلی صبح کی پہلی منزل ہیلسنکی یونیورسٹی کا کیمپس تھی، اس کیمپس کے بارے میں جہاں بہت سی باتیں ڈاکٹر عبدالغفار نے بتائیں ان میں سے ایک یہاں کے آئیڈیاز کے انکوبیشن سینٹر کے متعلق تھی۔ یہاں آئیڈیاز کو کافی سنجیدگی سے لیا جاتا ہے اور کمپنیاں آپ کے آئیڈیاز کو سنتی ہیں اور اگر کمپنیوں کو اس میں جان محسوس ہوتی ہے تو آپ کے لیے فنڈز مہیا کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ یہ خیال سننے میں ہی بہت خوش کن ہے، میرے سارے سفر اسی تان پر ختم ہوتے ہیں کہ کس طرح دنیا کی ساری خوبیاں اٹھا کر اپنے دامن میں بھر لاؤں۔

اس دن سوچتا رہا کہ پاکستان میں اس خیال پر ابھی بہت کام ہونے کی ضرورت ہے کہ آئیڈیاز کے انکیوبیشن مراکز بنیں اور اسٹارٹ اپس پر باقاعدہ انداز میں لوگوں کو تربیت دی جائے۔ روایتی ملازمتوں کے جھنجھٹوں سے نکال کر لوگوں کو نئے خیالات پر کام کرنے کا عادی بنایا جائے، تبھی جاکر غیر معمولی کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔

اسی کیمپس کے ایک کونے میں پرانے ٹائروں سے بنا ہوا ایک بن مانس مجھے اس بات کا اشارہ دے رہا تھا کہ نئی چیزیں بنانے کے لیے ضروری نہیں کہ نیا سامان رسد ڈھونڈا جائے بلکہ ناکارہ چیزوں کو بھی کارآمد بنایا جاسکتا ہے۔ ابھی میں اس بن مانس کے مجسمے کے پاس کھڑا اپنی بس کا انتظار کر رہا تھا کہ چھوٹا بچہ دوڑتا ہوا آیا اور اس ٹائروں سے بنے مجسمے پر چڑھنے لگا۔

پرانے ٹائروں سے بنا ہوا ایک بن مانس—رمضان رفیق
پرانے ٹائروں سے بنا ہوا ایک بن مانس—رمضان رفیق

یہاں نیلا آسمان اور کھلی دھوپ خوش نصیب سیاحوں کو ملتی ہے—تصویر رمضان رفیق
یہاں نیلا آسمان اور کھلی دھوپ خوش نصیب سیاحوں کو ملتی ہے—تصویر رمضان رفیق

کل جو میں نے ایک روزہ پاس لیا تھا، اس کا وقت ختم ہونے والا تھا، سو بس لی اور سینٹرل اسٹیشن چلا آیا۔ میری یہاں سے روانگی میں ابھی کچھ گھنٹے باقی ہیں، ایک کافی کے کپ کو سامنے رکھے سوچ رہا ہوں کہ ہمارے ہاں ناکارہ کچھ بھی نہیں ہوتا، ہم تو اشیاء کو آخری دم تک استعمال کرتے ہیں پھر بھی ہم ترقی کیوں نہیں کرپاتے؟

دور سینٹرل اسٹیشن کے سامنے کھلے حصے میں موجود مجسمے کے ساتھ کتابوں والے شخص کو دیکھ کر دل نے کہا، یہاں مجسموں تک کے ہاتھوں میں کتابیں ہیں اور ہمارے ہاں زندہ لوگوں نے کتابوں سے منہ موڑ لیا ہے، ہم جب تک تحقیق و تخلیق سے منہ موڑے بیٹھے رہیں گے تب تک ہم اپنے اندر کچھ اپنا تخلیق کرنے کی صلاحیت پیدا نہیں کر پائیں گے۔


رمضان رفیق دنیا گھومنے کے خواہشمند ہیں اور اسی آرزو کی تکمیل کے لیے آج کل کوپن ہیگن میں پائے جاتے ہیں۔ وہ پاکستان میں شجر کاری اور مفت تعلیم کے ایک منصوبے سے منسلک ہیں۔ انہیں [فیس بک پر یہاں][34] فالو کریں اور ان کا [یوٹیوب چینل یہاں][35] سبسکرائب کریں۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔